انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں انتخابات: صومیہ صدف کا الزام کہ پاکستان کے زیرانتظام کشمیر سے تعلق کی وجہ سے ان کے حلقے میں گنتی روکی گئی، حکام کی تردید


صومیہ صدف حکام کے سامنے نامزدگی کاغذات داخل کرتے وقت اپنا پاسپورٹ، الیکشن کارڈ اور آدھار کارڈ تک پیش کرچکی ہیں
صومیہ صدف حکام کے سامنے نامزدگی کاغذات داخل کرتے وقت اپنا پاسپورٹ، الیکشن کارڈ اور آدھار کارڈ تک پیش کرچکی ہیں
ایل او سی کے قریبی اضلاع کپوارہ اور بانڈی پورہ میں دو پاکستانی خواتین نے ضلع ترقیاتی کونسلوں کے انتخابات میں باقاعدہ الیکشن لڑا لیکن پیر کو ووٹوں کی گنتی کے دوران اُن کے حلقوں میں گنتی یہ کہہ کر روک دی گئی کہ اُن کے کاغذات میں غلط معلومات درج تھیں۔

کپوارہ کی درگمولہ نشست سے الیکشن لڑنے والی پاکستان کے زیرانتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والی صومیہ صدف نے بی بی سی کو بتایا ’بھارت کا دعویٰ ہے کہ وہ والا کشمیر میں بھارت کا حصہ ہے، میں اُدھر سے اِدھر آئی ہوں، یہ کیسے غیرقانونی ہے۔‘

اُنھوں نے بتایا کہ وہ حکام کے سامنے کاغذات نامزدگی داخل کرتے وقت اپنا پاسپورٹ، الیکشن کارڈ اور آدھار کارڈ تک پیش کرچکی ہیں۔

’اُنہیں لگا کہ میں جیت رہی ہوں تو ووٹ شماری روک دی، سمجھ نہیں آتا کہ ان کو ہم سے کیا ڈر ہے، ہم تو امن اور جمہوریت کا پیغام لے کر آئے تھے۔‘

صومیہ صدف کی ہی طرح بانڈی پورہ میں شازیہ اسلم نے بھی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن گنتی کے روز اس علاقے میں بھی یہ عمل روک دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

سابق عسکریت پسندوں کی پاکستانی بیویاں جموں کشمیر کے انتخابات میں سرگرم

کشمیر میں الیکشن: ’انتخابات میں مقابلہ نہیں کریں گے تو مستقبل کی نسلوں کا کیا ہوگا؟‘

صومیہ صدف کہتی ہیں ’گزشتہ پنچائیتی انتخابات میں ہماری پانچ پاکستانی بہنیں پنچ اور سرپنچ بن گئیں۔ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ اس سب کے پیچھے کیا مقصد ہے، یہ بہت غلط بات ہے۔ میں ہندوستانی ہوں نہ پاکستانی، آخر میرا قصور کیا ہے؟‘

دریں اثنا جموں کشمیر الیکشن کمیشن کے دفتر سے جاری ایک حکمنامے میں بتایا گیا کہ ووٹ شماری کا عمل فقط اس لیے مؤخر کیا گیا کہ نامزدگی کے فارم میں درج بعض معلومات نامکمل ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ پچھلے سال اگست میں کشمیر کی نیم خودمختاری ختم کیے جانے کے بعد ضلع ترقیاتی کونسلوں کے انتخابات پہلی بڑی سیاسی سرگرمی تھی۔ سات مرحلوں میں کرائے گئے یہ انتخابات ایک ماہ میں مکمل ہوئے۔ نئے پنچائیتی راج قانون کے مطابق جموں اور کشمیر میں 28 ایسی کونسلوں کے لیے انتخابات ہوئے اور ہر کونسل میں دس ممبران کا انتخاب کیا گیا۔

گو ان انتخابات کا تعلق حکومت سازی کے ساتھ نہیں ہے، تاہم انڈین حکومت کا کہنا ہے کہ ’لوگوں کے مسائل مقامی سطح پر حل کرنے اور اُنھیں سیاستدانوں کی محتاجی سے آزاد کرنے کی خاطر زمینی سطح پر جمہوریت کو مضبوط کیا گیا۔‘

جموں میں بی جے پی کو برتری حاصل ہوئی جبکہ فاروق عبداللہ کی قیادت والے نئے اتحاد کو وادی میں برتری ملی۔ تاہم پہلی مرتبہ بی جے پی نے کشمیر کے پلوامہ، بانڈی پورہ اور سرینگر میں ایک ایک نشست پر جیت حاصل کر کے کشمیر کی سیاست میں اپنی موجودگی کا مظاہرہ کیا۔

ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ نصف درجن پاکستانی خواتین نے کسی انتخابی عمل میں حصہ لیا۔ کپوارہ کے گناو پورہ علاقے کے حبیب اللہ بٹ اور اُن کی پاکستانی اہلیہ نورین نے بھی انتخابات میں حصہ لیا۔

یہ بھی پڑھیے

’نہ سسرال اپناتا ہے نہ پاکستان جانے کی اجازت‘

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں پھنسی پاکستانی خواتین

‘ایک بیٹی انڈین ہے تو ایک پاکستانی،یہی ان کی تقدیر ہے’

یہ وہی خواتین ہیں جو تیس سال قبل سرحد عبور کر کے پاکستان میں مسلح تربیت کے لیے جانے والے کشمیری نوجوانوں کے ساتھ شادی کرچکی ہیں۔ یہ وہی نوجوان کشمیری ہیں جنہوں نے تربیت کے بعد واپس کشمیر آکر عسکریتی صفوں میں جانے سے گریز کیا اور پاکستان میں ہی قیام کرلیا۔

چنانچہ 2010 میں اُس وقت کی منموہن سنگھ حکومت نے ایسے کشمیری نوجوانوں کو واپس کشمیر آنے کی اجازت دے دی تو یہ سبھی اپنی پاکستانی بیویوں اور بچوں کے ہمراہ وادی لوٹ آئے۔ تاہم جب یہ خواتین سماج میں مساوی مقام کے لیے سیاست میں آئیں تو اُنھیں طرح طرح کے مشکلات کا سامنا رہا ہے۔

ڈی ڈی سی انتخابات میں باقاعدہ حصہ لینے کی اجازت ملنے کے بعد عین ووٹ شماری کے روز اُن کی قسمت کا فیصلہ معلق ہوگیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp