ہاتھیوں کی جنگ میں قوم کا بچے کچھے پر گزارا


(امجد صدیقی)

\"\"ریاستی اداروں میں عدم برداشت کا رویہ ہمیں ناکامیوں کا منہ دکھا رہا ہے۔ بجائے اپنی اپنی قابلیت اور حدود کے مطابق صلہ چاہنے کے، ہم ایک دوسرے کو کمزور کرکے اپنی جگہ بنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ قومی سطح کی قیادت ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ کر اپنی جگہ بنانے کی جو ریت ڈال چکی ہے۔ وہ معاشرے سے رواداری اور مروت کا جنازہ نکال رہی ہے۔ عام آدمی بھی اب قانون اور ضابطہ اخلاق کو ایک غیر ضروری شے قرار دینے کی طرف مائل ہو رہا ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا صدیوں پرانا کلیہ ہمارے ہاں سے کسی نہ کسی نئے نام کسی نئی شکل سے متعارف کروایا جاتا رہا ہے۔ کبھی نظریہ ضرورت کے نام پر اور کبھی وسیع تر قومی مفاد کے نام پر۔ ادارے اپنی اپنی حدود اور قاعدے میں رہ کر اپنی اپنی ذمہ داری نبھانے کی بجائے دوسروں کو کمزور کرکے اپنی اپنی کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کی روش اپنا رہے ہیں۔
سابق صدر آصف زرداری اسی رویے کے شکار ہوئے۔ ان کی طرف سے وطن واپسی کا اعلان کیا گیاہے۔ قریباً ڈیڑھ سال بعد وہ وطن واپس آ رہے ہیں۔ انہیں چوبیس جون دو ہزار پندرہ کو اس وقت ملک سے باہر جانا پڑا جب ان کی طرف سے ایک متنازع بیان سامنے آیا۔ یہ بیان کراچی آپریشن کے تناظر میں دیا گیا تھا۔ رینجرز آپریشن کے دوران مسلسل ایسے لوگوں کی حراست اور گرفتاریاں سامنے آئیں جن کا تعلق بلاول ہاؤس سے ظاہر کیا گیا۔ پی پی قیادت نے کچھ دن تو مصلحتاً خاموشی اختیار کی مگر جب بات صبر سے بڑھ گئی تو رینجرز آپریشن کے خلاف پارٹی قیادت پھٹ پڑی۔ ان کے کچھ بیانات اتنے سخت تھے کہ سیاسی طور پر ایک نئی تفریق نے جنم لیا۔ کئی جماعتیں اس بیان کے بعد پیپلز پارٹی سے دوری اختیار کر گئیں۔ سابق صدر مصر تھے کہ میں نے آرمی سے متعلق جو باتیں کیں وہ پرویز مشرف کے تناظر میں تھیں۔ مگر ان کے مخالفین نے ان کے بیانات کو اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے خلاف طبل جنگ ثابت کرنے کی کوشش کی۔ بسیار کوشش کے بعد جب پی پی قیادت نے محسوس کیا کہ تمام تر وضاحتیں رائیگاں جا رہی ہیں۔ اور یہ وضاحتیں بجائے معاملات کو بہتر کرنے کی بجائے مزید الجھا رہی ہیں تو انہوں نے کچھ عرصہ وطن سے باہر رہنے کا فیصلہ کرلیا۔ تب سے وہ باہر ہیں۔ اب ان کی واپسی ہو رہی ہے۔

یہ واپسی پیپلز پارٹی کے لیے کیا پیام لاتی ہے۔ اس کا دارومدار سابق صدر کے وطن واپسی کے بعد کے لائحہ عمل پر ہے۔ جواں سال بلاول بھٹو پارٹی میں نئی روح پھونکنے کی کوشش میں ہیں۔ اگر زرداری سیٹ اپ دوبارہ قائم کرنے کی کوشش کی گئی تو بلاول کی محنت پر پانی بھی پھر سکتا ہے۔ محترم آصف زرداری جن حالات سے دل برداشتہ ہو کر وطن سے کوچ کر گئے تھے۔ اب بھی ان حالات میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی۔ ایک جنرل راحیل شریف ہی گئے ہیں۔ مگر باقی معاملات تقریباً جوں کے توں ہیں۔ ڈاکٹر عاصم سمیت دیگر مسائل بھی جوں کی توں ہیں۔ اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ کراچی آپریشن نئے آرمی چیف بند کر دیں گے۔ سندھ میں گورنر کی تبدیلی سے مسلم لیگ ن نے اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ وہ کراچی اور سندھ سے غافل نہیں ہے۔ متحدہ کے حصے بخرے ہونے کے بعد سندھ کے شہری علاقوں میں طاقت کا ایک نیا توازن قائم ہو رہا ہے۔ مسلم لیگ ن اس نئے منظر نامے میں موثر کردار ادا کرنے کے چکر میں ہے۔

نواز شریف کے لیے ان کا موجودہ دور حکومت مشکل ترین دور ثابت ہو رہا ہے۔ دسمبر دو ہزار سات کو ان کی واپسی کے بعد پاکستان کی سیاست انہی کے گرد گھوم رہی ہے۔ زرداری دور جب قریب الاختتام تھا تو مقتدر حلقوں میں متبادل سیٹ اپ بنانے کی فکر لاحق تھی۔ صاف نظر آرہا تھا۔ کہ اگر کوئی بڑی پلاننگ نہ کی گئی تو اگلے الیکشن میں نوازشریف باآسانی فتح یاب ہوسکتے ہیں۔ کچھ لوگوں کی کوشش تھی کہ نواز شریف کو حکومت نہ بنانے دی جائے۔ خیال تھا کہ اگر وہ اقتدار میں آگئے تو ان کے لیے مشکلات کھڑی کرسکتے ہیں۔ کارگل کے ایشو پرنواز شریف حکومت کی طرف سے کوئی تحقیقاتی کمیشن نہ بن جائے، یہ فکر لاحق تھی۔ یہ بھی ڈر تھا کہ مشرف دور میں جو لاقانونیت اور بندر بانٹ ہوتی رہی۔ اس کی جواب دہی نہ شروع ہو جائے۔ مخالفین کے اس ٹولے میں سیاسی اور غیر سیاسی سبھی طرح کے وہ لوگ شامل تھے جنہوں نے ساڑھے آٹھ سالہ آمریت میں موجیں لوٹیں۔ یہ ٹولہ جمہوری حکومت کو مسلسل مختلف حربوں سے مفلوج کرنے میں مصروف ہے۔ کبھی سیاست نہیں ریاست بچاؤ ڈرامے سے الیکشن کو ملتوی کر کے وقت حاصل کرنے کی کوشش کی تاکہ اپنی بچہ جمہورہ پارٹی کو کچھ اور کھلا پلا لیا جائے۔ جب الیکشن ملتوی کروانے کی ترکیب کامیاب نہیں ہوسکی۔ نواز شریف الیکشن جیت کر حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئے تو اب پلان بی پر کام ہو رہا ہے۔ جس کا مقصد حکومت کو اس قدر مفلوج بنانے کی کوشش ہے کہ وہ ان لوگوں کے خلاف کاروائیوں سے باز رہے۔
اداروں کے درمیان بالادستی کی جنگ ریاست کا امیج خراب کر رہی ہے۔ اقتدار جب عوام کی مرضی کی بجائے کچھ لوگوں کی اپنی پسند ناپسند کی بنیاد پر منتقل کرنے کی روایت پڑ جائے تو پھر قوموں کا وجود باقی نہیں رہتا کیوں کہ جنگل کے اس قانون میں نہ کوئی قوم ہوتی ہے، نہ کوئی ریاست۔ آج نواز شریف اس مسئلہ کے شکار ہیں، کل پی پی قیادت اسے بھگت رہی تھی۔ آنے والے کل کو جانے کون اسے جھیلتا نظر آئے گا۔ سوال یہ ہے کہ اس کا انجام کیا ہوگا؟ سازشیں، بغاوتیں اور بالادستی کا جنون۔ قوم ایک عرصہ سے اس میوزیکل چئیر کا تماشہ دیکھ رہی ہے۔ ہمارے وسائل یا تو ایک دوسرے کو دبانے میں ضائع ہو رہے ہیں یا پھر ایک دوسرے سے بچاؤ میں۔ یہ استحصال ایک عرصہ سے جاری ہے۔ غربت، جہالت اور شہریوں کے صحت کے مسائل ختم کرنے کی بجائے قومی وسائل کہیں اور خرچ ہو رہے ہیں۔ جانے کب تک ہاتھیوں کی اس جنگ میں قوم کو بچے کھچے پر گزارا کرنا پڑتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments