کورونا ویکسین: انڈونیشیا اور ملائشیا میں کووڈ 19 کی ویکسین کے حلال، حرام ہونے پر بحث کیوں؟


ویکسین
کورونا وائرس پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے اور ہر شخص اس فکر میں ہے کہ اس وبا کی ویکسین جلد از جلد ان تک پہنچ جائے۔ برطانیہ اور امریکہ میں ویکسین کا استعمال شروع بھی ہو چکا ہے لیکن کچھ ممالک میں یہ بحث جاری ہے کہ یہ حلال ہے یا نہیں۔

یہ بحث جنوب مشرقی ایشیائی اور مسلم اکثریتی ممالک انڈونیشیا اور ملائشیا میں جاری ہے۔

واضح رہے کہ انڈونیشیا جنوب مشرقی ایشیا میں کورونا وائرس کا ہاٹ سپاٹ بنا ہوا ہے۔ اس وقت وہاں پر کورونا وائرس کے ساڑھے چھ لاکھ سے زیادہ متاثرین سامنے آ چکے ہیں اور اس کی وجہ سے وہاں 20 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔

دوسرے ممالک کی طرح انڈونیشیا بھی مختلف کمپنیوں سے ویکسین حاصل کرنے کے لیے معاہدہ کر رہا ہے۔ مثلاً اس نے چین کی کمپنی سینوواک بائیوٹیک سے معاہدہ کیا ہے اور ویکسین کا ٹرائل جاری ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کورونا کی ممکنہ ویکسین کے حوالے سے سرگرم افواہوں سے کیسے بچا جائے؟

کورونا ویکسین کے خلاف سوشل میڈیا پر دعووں کی حقیقت کیا ہے؟

پاکستان میں ویکسین کی آزمائش: ویکسین کون سی ہے اور آزمائش کا طریقہ کار کیا ہے

حلال سرٹیفکیٹ جاری کرنا

ویکسین کے حلال ہونے پر بحث اس وقت شروع ہوئی جب انڈونیشیا میں مسلم علما کی ایک اعلی جماعت انڈونیشین علما کونسل نے اس ویکسین کے لئے حلال سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا کہا۔

ویکسین

وہیں ملائشیا نے بھی فائزر اور سینوواک کمپنیوں سے ویکسین کے لئے معاہدہ کیا ہے اور اس ویکسین کے حلال یا حرام ہونے پر مسلم معاشرے میں بحث بھی جاری ہے۔

تاہم سوشل میڈیا پر یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ جیسے بہت سے مسلم ممالک میں اس مسئلے پر سخت بحث جاری ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ اس کے حرام اور حلال ہونے کے بارے میں اب تک صرف انڈونیشیا اور ملائشیا ہی میں بات ہوئی ہے۔

بہت سارے صارفین سوشل میڈیا پر یہ افواہیں بھی پھیلارہے ہیں کہ یہ ویکسین حرام قرار دی گئی ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔

یہ بحث شروع کیوں ہوئی؟

اسلام میں ان مصنوعات کو ’حلال‘ کہا جاتا ہے جن میں ’حرام‘ چیزیں مثلاً شراب یا سور کا گوشت استعمال نہیں ہوتا ہے۔

حالیہ برسوں میں مسلم اور غیر مسلم ممالک میں حلال بیوٹی پرادکٹس کا استعمال بھی کافی حد تک بڑھ گیا ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کورونا ویکسین کے حرام یا حلال ہونے پر یہ بحث کیوں شروع ہوئی؟

ویکسین

ویکسین کو طویل عرصے تک حفاظت سے رکھنے کے لیے کچھ کمپنیاں سور کی ہڈی، چربی یا جلد سے بنے جلیٹن کا استعمال کرتی ہیں حالانکہ کئی کمپنیاں اس کے بغیر بھی ویکسین بنانے میں کامیاب رہی ہیں۔

سور کےگوشت سے پاک ویکسین

خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق سوئزرلینڈ کی کمپنی نووارٹس سور کے گوشت سے پاک دماغ کے بخار کی ویکسین بنانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ اسی دوران سعودی عرب اور ملائشیا میں اے جے فارما بھی اپنی ویکسین بنانے پر کام کر رہے ہیں۔

کورونا ویکسین حلال ہے یا حرام ہے، یہ بحث یہیں ختم نہیں ہوتی۔

کورونا ویکسین بنانے میں سور کے گوشت کے جلیٹن کے استعمال کے علاوہ اس کے ڈی این اے کے استعمال کی بات بھی کہی جا رہی ہے۔

تاہم سینوواک نے اپنی ویکسین میں کیا استعمال کیا ہے، یہ ابھی تک نہیں بتایا گیا ہے۔

اسلام میں انسانی جان کی قدر

نہ صرف مسلمان بلکہ یہودیوں میں بھی سور کے جیلیٹن کے استعمال سے متعلق خدشات پائے جاتے ہیں۔ کئی قدامت پسند یہودی بھی سور کے گوشت اور اس کے اجزا کا استعمال نہیں کرتے ہیں۔

کیا مسلمان اور یہودی برادری مذہبی وجوہات کی بنا پر سور جیلیٹن اور ڈی این اے کی مدد سے بنی ویکسین استعمال نہیں کر سکیں گے؟

مولانا آزاد یونیورسٹی جودھ پور کے وائس چانسلر اور اسلامی علوم کے پروفیسر اختر الواسع نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ اسلام میں انسانی زندگی کو فوقیت دی گئی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اگر انسان بھوکا ہو اور اس کے پاس کھانے کے لئے کچھ نہ ہو تو ایسے حالات میں جان بچانے کے لیے حرام بھی حلال ہو جاتا ہے۔ یہ اسلامی قانون کا حصہ ہے۔ کورونا ویکسین سے متعلق اس طرح کے مباحثے سے دنیا میں مسلمانوں اور اسلام کا امیج خراب ہو گا، اس کا کوئی اچھا تاثر نہیں ہو گا۔‘

مسلم ممالک کا اعتراض

ابتدائی دنوں میں پولیو ویکسین کو لے کر بھی پاکستان سمیت کچھ مسلم ممالک میں اعتراض کیا گیا تھا۔

اس بات کا حوالہ دیتے ہوئے پروفیسر واسع کا کہنا ہے کہ ’ہم نے دیکھا ہے کہ پولیو ویکسین کے بارے میں کیا تاثر دیا گیا تھا لیکن یہ خوشی کی بات ہے کہ انڈیا میں مسلمانوں کے مذہبی رہنماؤں نے پولیو پر ہونے والی تشویش کو سمجھا اور اس ویکسین کو صحیح قرار دیا۔ انھوں نے اس کی حمایت کی اور انڈیا میں پولیو سے بچاؤ میں اہم کردار ادا کیا تھا۔‘

انھوں نے مزید کہا: ’اب برطانیہ میں کورونا وائرس کی ایک نئی قسم سامنے آئی ہے۔ تو اس صورت میں تشویش یہ ہونی چاہیے کہ کورونا وائرس کی آنے والی ویکسین مؤثر ہے کیوںکہ یہ انسانی زندگی کا معاملہ ہے۔‘

https://twitter.com/BritishIMA/status/1338623923995467776

اگر مسلم ممالک میں حلال اور سور جیلیٹن کے استعمال سے بنی دونوں ویکسین موجود ہوں تو کون سی استعمال کی جانی چاہیے؟

اس سوال پر پروفیسر واسع کہتے ہیں کہ کون سی ویکسین مؤثر ہے ،اسکا انتخاب ڈاکٹر کرے گا لیکن اگر سور جیلیٹن کی ویکسین مؤثر ہے تو پھر اسی کو لاگو کیا جانا چاہیے۔

اسرائیل میں رابنیکل آرگنائزیشن کے چیئرمین ربی ڈیوڈ سٹو نے خبر رساں ایجنسی اے پی کو بتایا کہ یہودی قانون میں فطری طور پر سور کے گوشت کے استعمال پر پابندی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ منہ کے بجائے انجیکشن کے ذریعہ دیا جا رہا ہے تو پھر اس پر کوئی پابندی نہیں اور خاص طور پر جب یہ بیماری کا معاملہ ہو۔

سور کے گوشت کے استعمال پر بحث کے درمیان فائزر، موڈرنا اور آسٹرا زینیکا کمپنیوں نے ایک بیان جاری کیا ہے کہ ان کی ویکسین میں سور کے گوشت کا استعمال نہیں ہے۔

برطانیہ کی اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن نے بھی اس کی تائید میں بیان جاری کیا ہے کہ فائزر کی ویکسین ہر طرح سے محفوظ ہے۔

اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس نے صرف فائزر کے لئے یہ بیان جاری کیا ہے کیونکہ برطانیہ میں فی الحال صرف اسی ویکسین کے استعمال کی اجازت ہے۔

تنظیم نے یہ بھی کہا ہے کہ اس ویکسین کے لیے مسلم ہیلتھ ورکرز، اسلامی عالموں اور بہت سی اسلامی تنظیموں سے بات چیت کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ اس ویکسین میں جانوروں کا کوئی مادہ استعمال نہیں ہوا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32507 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp