کریمہ بلوچ کی موت: حادثات  نے بلوچوں کا گھر کیوں دیکھ رکھا ہے؟


کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں مقیم بلوچ رہنما کریمہ بلوچ کی لاش ان کی رہائش کے قریب پانی سے ملی ہے۔ آٹھ ماہ کے دوران بیرون ملک کسی نمایاں بلوچ لیڈر کی یہ دوسری پراسرار موت ہے۔  اسی سال مئی میں سویڈن کے شہر اپسالا میں  بلوچ صحافی ساجد حسین بھی اسی طرح پر اسرار طور سے قریبی دریا میں مردہ حالت میں پائے گئے تھے۔   دونوں  بلوچستان میں حکومت پاکستان کی پالیسی سے  اختلاف   رکھتے تھے اور  حیرت انگیز طور پر دونوں کی موت ایک سے پراسرار انداز میں ہوئی ہے۔

بھارتی میڈیا اور بلوچ قوم پرست اسے قتل قرار دے کر پاکستانی ایجنسیوں کو مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش کررہے ہیں۔ پاکستان کے محب وطن  مبصرین  ان الزامات کو پاکستان دشمنی  کہتے  ہوئے واضح کررہے ہیں کہ ساجد حسین کی طرح کریمہ بلوچ بھی حادثاتی طور سے ہلاک ہوئی ہیں۔ سویڈن پولیس نے   کہہ دیاتھا کہ ساجد حسین کی موت میں  کسی مجرمانہ کارروائی کا سراغ نہیں مل سکا ۔ تاہم پولیس کے ترجمان نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ مرحوم کی  سیاسی سرگرمیوں اور جد و جہد کی وجہ سے  اس امکان کو سرے سے مسترد  نہیں کیا جاسکتا کہ  یہ واقعہ درحقیقت قتل ہی ہو۔ اب  ٹورنٹو  پولیس   بھی   فی الوقت کریمہ کی موت کی تفتیش حادثاتی موت کے طور پر کررہی ہے۔  پولیس تحقیق کی تفصیلات سامنے آنے میں کچھ وقت لگے گا ۔  اس دوران پاکستان اور اس کی حدود سے باہر یہ بحث جاری رہے گی کہ کیا اب ریاست پاکستان سے اختلاف کرنے والے عناصر بیرون ملک بھی محفوظ نہیں ہیں۔  بلوچستان میں انسانی حقوق کی متحرک کارکن   ماہ رنگ بلوچ نے  وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کریمہ بلوچ کی  ہلاکت کو’ بلوچ نسل کشی قرار دیا ہے‘۔  ماہ رنگ بلوچ کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے ساجد حسین کو بھی اسی طرح سویڈن  میں قتل کیا گیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ’ کریمہ کا قتل متحرک بلوچ خواتین  اور پورے بلوچ سماج کو خوف زدہ کرنے کی سازش ہے‘۔

ایسے شواہد موجود نہیں ہیں  جو ماہ رنگ بلوچ کے اس دعویٰ کی تصدیق کریں۔  لیکن اسے مسترد کرنے  کا جواز بھی موجود نہیں ہے۔   مختصر مدت کے دوران بیرون ملک مقیم دو ممتاز بلوچ  رہنماؤں کی حادثاتی موت سے  بلوچ قوم پرستوں کے خلاف ریاست پاکستان  کے سلوک کے بارے میں متعدد سوالات سامنے آئیں گے۔  خاص طور سے   جب قوم پرست بلوچ لیڈر   مسلسل اسے قتل قرار دے کر شبہات کا اظہار کررہے ہیں تو انہیں پاکستان دشمنی یا  جھوٹی الزام تراشی کہہ کر نظر انداز کرنا    درحقیقت  پاکستان کے مفادات کو پس پشت ڈالنے کے مترادف ہوگا۔

کریمہ بلوچ غیر معمولی صلاحیت کی حامل بہادر خاتون تھیں۔ انہوں نے تن تنہا بلوچ  لڑکیوں میں اپنے حقوق کے لئے بیدار  ی پیدا کی اور انہیں احتجاج کرنے، آواز بلند کرنے اور انصاف مانگنے کے لئے گھروں سے نکلنے پر آمادہ کیا۔اپنی مستقل مزاجی اور انسانی حقوق کے لئے کمٹمنٹ کے بل بوتے پر ہی وہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن  (بی ایس او) کی قیادت کے لئے منتخب ہوئیں۔  2015 کے اختتام پر  جب وہ بی ایس او کی چیئرپرسن بنیں تو تنظیم نے فیصلہ کیا کہ وہ بیرون ملک جا کر تنظیم کی قیادت کریں ۔  کیونکہ  پاکستان میں  ان کے لیے اعلانیہ کام کرنا ممکن نہیں رہا تھا۔  بی ایس او آزاد بلوچستان  کے لئے کام کرتی  ہے  اور پاکستان  میں اسے  2013 سے غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔  کسی بھی سیاسی مطالبے پر  کام کرنے والوں کو اگر اپنا مؤقف پیش کرنے سے روکا جائے گا اور سیاسی طاقت یا دلیل سے مقابلہ کرنے کی بجائے ریاستی طاقت کو ان کے خلاف استعمال کیا جائے گا تو ایسی تحریکیں زیر زمین زیادہ خطرناک ہوجاتی ہیں۔  پاکستان 1971 کے دوران مشرقی حصے میں اس کا تجربہ کرچکا ہے اور اب بلوچستان میں اس تجربے کو دہرایا جارہا ہے۔ جب تک آزادی  کی خواہش یا حقوق کے مطالبے  اور غداری میں تمیز کی روایت استوار نہیں کی جائے  گی،  پاکستان اپنے  ہی لوگوں کے ساتھ برسر پیکار رہنے کی صورت حال سے باہر نہیں نکل سکے گا۔

مہذب دنیا کی مثال دیتے ہوئے اور تجربات کی روشنی میں اب یہ طے ہونا چاہئے کہ بلوچستان یا کسی دوسرے علاقے کے کچھ لوگ اگر خود مختاری کی خواہش رکھتے ہیں تو اسے ایک سیاسی مطالبہ کے طور پر دیکھا  جائے اور اس کا مقابلہ مقدموں،  سزاؤں یا غداری کے الزامات  کی بجائے، ان عناصر کو مناسب سیاسی سپیس فراہم کرکے کیا جائے تاکہ انہیں آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہوجائے۔ برطانیہ کی حکومت آئرلینڈ کے بعد اسکاٹ لینڈ میں اسی صورت حال کا سامنا کررہی ہے۔ لندن   حکومت اس مطالبے کو ناجائز سمجھتی ہے لیکن اس کا مقابلہ سیاسی دلیل اور ووٹ کی طاقت سے کیا جاتا ہے۔ ابھی تک خود مختار اسکاٹ لینڈ تحریک کو اکثریت کی  حمایت حاصل نہیں ہے،  اس لئے وہ بدستور برطانیہ  کا حصہ ہے۔  لگ بھگ یہی صورت حال شمالی آئرلینڈ کی بھی  ہےجو علاقائی خود مختاری کے ساتھ ابھی تک   یونائیٹڈ کنگڈم  کا حصہ ہے۔

بلوچستان میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ قوم پرست عناصر کے خلاف ریاستی جبر کی پالیسی ہے۔   اگرچہ ماضی میں متعدد بار ان عناصر کو مین اسٹریم میں لانے اور کسی سیاسی مفاہمت پر آمادہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن  ایسی کوششیں بارآور نہیں ہوسکیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ مقامی معاملات کو  چند خاندانوں کے تعاون سے  مرکز سے کنٹرول کرنے کی ناکام پالیسی ہے۔ دوسری وجہ بلوچستان کے وسائل پر مقامی لوگوں  کے تصرف و اختیار کا معاملہ  ہے۔ پاکستان کبھی بلوچ رہنماؤں کو اس بارے میں مطمئن نہیں کرسکا۔ یہی وجہ ہے  کہ گوادر ہو یا بلوچستان میں شروع کئے گئے دیگر منصوبے، ان پر بلوچ رہنماؤں کو اعتراض رہتا ہے۔  اسلام آباد    قوم پرست عسکری عناصر کی سرگرمیوں کی وجہ سے  صوبے میں طاقت کے استعمال کو جائز سمجھتا ہے۔ تاہم اس دوران کسی بھی مرحلہ پر یہ غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی کہ  قوم پرست عناصر یا آزادی کی تحریک چلانے والے گروہوں کو غلط ثابت کرنے کے لئے بلوچستان میں تعلیم، صحت، روزگار، مواصلات اور دیگر سماجی سہولتیں فراہم  کی جائیں تاکہ وہاں  عام لوگوں  کی مایوسی ، ناراضی اور پریشانی میں کمی ہو۔  اس کے برعکس گوادر منصوبہ کو ایک طرف پاکستانی معیشت   کی ریڑھ کی ہڈی قرار دیا جاتا ہے تو دوسری طرف ایسے بلوچ لیڈروں کو سیاسی طور سے راضی کرنے کی کوشش نہیں ہوتی جو پاکستان سے علیحدگی کی بات نہیں کرتے لیکن بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر سیخ پا رہتے ہیں۔

لاپتہ افراد کا معاملہ  بلوچستان کے علاوہ خیبر پختون خوا میں سنگین ترین مسئلہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ریاست البتہ اس معاملہ کو حل کرنے میں بری طرح ناکام ہے۔ عدالتوں میں یہ  معاملہ سامنے آئے تو  ججوں کی بظاہر ناراضی اور سخت آبزرویشنز سے بات آگے نہیں بڑھتی۔   ماضی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے اپنے اپنے طور پر بلوچستان کے مسائل حل کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن ایک تو پارٹی سیاسی مفادات اور دوسرے عسکری حلقوں کے دباؤ کی وجہ سے یہ کوششیں  کامیاب نہیں ہوسکیں۔ بلوچستان کی حکومت کو  اسٹبلشمنٹ نے سیاسی جماعتوں کے لئے ’ٹرافی‘ کا درجہ دے رکھا ہے۔ جس  پارٹی پر  مہربانی مقصود ہوتی ہے، بلوچستان کی حکومت اسے مل جاتی ہے اور جب  کسی پارٹی کی حکومت کو سبق سکھانا ہو تو بلوچستان میں اکثریت کے باوجود راتوں رات ’باپ‘ قسم کا سیاسی اتحاد  قائم کرکے اس کا تختہ الٹ دیا جاتا ہے۔ ان سیاسی ہتھکنڈوں کی وجہ سے  حقیقی بلوچ لیڈر مرکز کی سیاست سے عاجز ہیں اور  صوبے کو مرکز کا غلام بنائے رکھنے کی سازشوں سے تعبیر کرتے ہیں۔

اس پس منظر میں  ساجد حسین کے بعد  یکساں  پراسرا رحالات میں کریمہ بلوچ جیسی بڑی لیڈر کی موت  بلوچستان سے زیادہ پاکستان کے لئے شدید صدمہ کا سبب ہونا چاہئے۔  کریمہ بلوچ  کی جد و جہد اور مقبولیت کی وجہ سے بی بی سی نے 2016 میں  انہیں دنیا کی ایک سو بااثر خواتین کی فہرست میں شامل کیا تھا۔ پاکستان کو اگر ان کی سیاست اور مؤقف سے اختلاف  تھا تو بھی سرکاری طور پر اس  اچانک جواں سال موت پر اسلام آباد سے  کسی نہ کسی قسم کا رد عمل آنا چاہئے تھا۔  وزیر خارجہ  کوکینیڈا میں اپنے سفارت خانہ کے ذریعے اس ہلاکت کے اسباب کا سرغ لگانے اور کینیڈا سے تفصیلات فراہم کرنے کا مطالبہ کرنا چاہئے تھا۔ اسلام آباد کی مسلسل خاموشی اگر کسی مجرمانہ سازش کا حصہ نہ بھی ہو تو  بھی اسے  اپنے ہی شہریوں کے خلاف سنگدلانہ رویہ ضرور سمجھا جائے گا۔  ریاست پاکستان کے قول و فعل کا تضاد  ہی شکوک و شبہات  پیدا کرتا ہے۔

پاکستان  کے لئے یہ حقیقت بھی باعث تشویش ہونی چاہئے کہ  بلوچستان میں انسانی حقوق کی جد و جہد کرنے والےدو ممتاز افراد آٹھ ماہ کے مختصر عرصے میں پراسرار طریقے سے موت کے منہ میں چلے گئے ہیں۔  سویڈن پولیس کا یہ بیان   ٹھوس دلیل  کے طور پر استعمال نہیں ہونا چاہئے کہ کسی مجرمانہ کارروائی کا سراغ نہیں ملا۔ پولیس ٹھوس ثبوت کے بغیر بے بس و لاچار ہوتی ہے اور اس سے زیادہ تبصرہ کرنا مناسب نہیں سمجھا جاتا ۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ کسی پراسرار موت کے بعد اس کی وجوہ  پر اس ملک کے سرکاری  و انٹیلی جنس حلقے خفیہ رپورٹیں بھی تیار نہیں کرتے۔  سویڈن کے بعد کینیڈا میں ایک ہی  طرح کے مقصد سے کام کرنے والے ایک شخص کی موت عالمی برادری  کی تشویش اور تجسس میں اضافہ کرے گی۔ کریمہ بلوچ کی موت پر ایمنسٹی انٹرنیشنل کے بیان میں اس کا اظہار بھی ہؤا ہے۔

خاموش تماشائی بنے رہنا پاکستانی حکومت کے لئے کوئی آپشن نہیں ہونا چاہئے۔ کریمہ بلوچ کی موت پر اسے متحرک ہونے کی ضرورت ہے تاکہ  عالمی سفارت کاری میں پاکستان کے خلاف سرگرم قوتیں ان دونوں واقعات کی مماثلت اور پر اسراریت کی بنیاد  پر پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانے میں کامیاب نہ ہوں۔ پاکستان نے افغان مذاکر ات میں سہولت کار بن کر بمشکل  دہشت گردی کا سرپرست  ہونے کے الزام سے نجات حاصل کی ہے۔ لیکن اب  بھی   اس کا نام فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ پر ہے۔فروری 2021  میں اس معاملہ پر از سر نو  غور ہوگا۔  کریمہ بلوچ کی موت  کا ملبہ اگر پاکستان پر  ڈالا گیا تو اس کے لئے ایف اے ٹی ایف کے چنگل سے نکلنا آسان نہیں ہوگا۔ پیچیدہ عالمی سفارتی  حالات ، امریکہ میں قیادت کی تبدیلی اور مشرق وسطی کی  سیاسی صورت حال میں پاکستان کے لئے امکانات کے علاوہ شدید خدشات بھی موجود ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali