پروفیسرکرامت حسین جعفری: چند یادیں


سن 1967 میں جب گورنمنٹ کالج لاہور میں ایف اے میں داخلہ لیا تو ایک مضمون فلسفہ تھا۔ ان دنوں فلسفے میں سال اول میں نفسیات اور سال دوم میں منطق پڑھائی جاتی تھی۔ نفسیات کی ایک اور منطق کی دو کتابیں، منطق استخراجیہ اور منطق استقرائیہ شامل نصاب تھیں۔ تینوں کتابوں کے مصنف کرامت حسین جعفری تھے۔ ان کے بارے میں پتہ چلا کہ اس وقت وہ گورنمنٹ کالج لائل پور میں پرنسپل تھے۔ وہ گورنمنٹ کالج لاہور کے شعبہ فلسفہ میں بھی پڑھاتے رہے تھے۔ ان کتابوں کی شستہ اور سلیس انگریزی نثر نے واقعی متاثر کیا تھا۔

جب کالج میں دوسرا تعلیمی سال شروع ہوا تو دو ڈھائی ماہ بعد ہی ایوب خان کی حکومت کے خلاف تحریک شروع ہو گئی جس کے نتیجے میں تعلیمی اداروں کو بند کر دیا گیا۔ لگ بھگ پانچ ماہ تک کالج بند رہنے کی وجہ سے گاوں میں ہی وقت گزارنا پڑا۔ میرے گاوں کے ایک دو لڑکے گورنمنٹ کالج لائل پور میں پڑھتے تھے۔ ان سے کالج کے میگزین کے تین چار شمارے پڑھنے کو ملے۔ ان رسالوں میں شائع ہونے والی سالانہ رپورٹیں بھی پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ سالانہ رپورٹ جیسے خشک اور بے مزہ کام کو بھی جعفری صاحب کی شگفتہ نگاری اور بذلہ سنجی نے کافی دل چسپ بنا دیا تھا، بالخصوص اس کانوکیشن کی رپورٹ تو بہت ہی مزے کی تھی جس میں جسٹس ایم آر کیانی مہمان خصوصی تھے ۔

لائل پور کالج سے ریٹائرمنٹ کے بعد 1967 میں جعفری صاحب ایم اے او کالج کے پرنسپل مقرر ہو کر لاہور تشریف لے آئے تھے۔ میں سن 1972 میں مجلس اقبال کا سیکریٹری تھا۔ ایک اجلاس کی صدارت فرمانے کی درخواست لے کر ایک شام میں ایم اے او کالج میں پرنسپل کی رہائش گاہ پر حاضر ہوا۔ چوکیدار کو میں نے پیغام دیا اور فوراً ہی جعفری صاحب نے مجھے اندر بلا لیا۔ یہ میری ان سے پہلی بالمشافہ ملاقات تھی۔ میں نے مجلس اقبال کا ذکر کیا تو جعفری صاحب نے شہر کی کسی مجلس کا پوچھا تو میں نے جواب دیا کہ وہ تو مرکزیہ مجلس اقبال ہے۔ جعفری صاحب نے کہا، اچھا، پہلے تو مرکزیہ نہیں ہوتی تھی۔ یہ جواب سن کر مجھے کافی صدمہ ہوا کہ جعفری صاحب کو مرکزیہ مجلس اقبال کا علم نہیں۔ ہماری گفتگو کچھ عجب انداز میں جاری تھی اور مجھے احساس ہو رہا تھا کہ سر مل نہیں رہا۔ تھوڑی دیر میں جعفری صاحب کو بھی اندازہ ہو گیا تو انھوں نے پوچھا آپ آئے کہاں سے ہیں؟ میں نے جواب دیا، گورنمنٹ کالج لاہور سے آیا ہوں۔ اس پر جعفری صاحب نے کہا، اوہ ہو، ملازم نے مجھے لائل پور بتایا ہے۔

 وہ بہت برس گورنمنٹ کالج لائل پور کے پرنسپل رہے تھے۔ ان کے اس زمانہ کے بہت سے واقعات سن رکھے ہیں جن کو لکھنے کا حق عزیز دوست ڈاکٹر راشد متین کو پہنچتا ہے کیونکہ وہ اس وقت لائل پور کالج میں پڑھتا تھا اور ان واقعات کا عینی شاہد ہے۔ میں صرف ان چند واقعات کا ذکر کروں گا جو میں نے خود جعفری صاحب کی زبان سے سن رکھے ہیں۔

پہلی ہی ملاقات میں انھوں نے لائل پور کالج کے زمانے کا ایک واقعہ سنایا جو مشکل صورت حال سے عہدہ برا ہونے کی  ان کی مخصوص صلاحیت کی بہت عمدہ غمازی کرتا ہے۔

گزشتہ صدی کی ساٹھ کی دہائی کے ابتدائی برسوں کا ذکر ہے۔ ان دنوں پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے نصر اللہ شیخ یونین کے صدر تھے۔ وہ لائل پور تشریف لے گئے۔ کالج کے طلبہ نے جعفری صاحب سے کہا کہ ہم کالج ہال میں شیخ صاحب کی تقریر کروانا چاہتے ہیں۔ وہ صدرایوب خان کے اقتدار کا زمانہ تھا اور حکومت کی طرف سے سخت احکامات تھے کہ جمعیت والوں کی کسی کالج میں گھسنے نہ دیا جائے۔ جعفری صاحب نے سوچا اگر انکار کرتا ہوں تو طالب علم احتجاج کریں گے، ہو سکتا ہے کالج کے شیشے وغیرہ بھی ٹوٹ جائیں۔ چنانچہ انھوں نے حکومتی احکامات کے علی الرغم اجازت دینے کا  فیصلہ کر لیا اور طلبہ سے کہا، پنجاب یونیورسٹی کی طلبہ یونین کے صدر کا ہمارے کالج میں  تشریف لانا ہمارے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے۔ میں خود بھی آؤں گا اور تقریر بھی کروں گا۔ طلبہ کے لیے اس سے زیادہ خوشی کی کیا بات ہو سکتی تھی کہ پرنسپل صاحب بھی جلسے میں شریک ہوں۔ وہ خوش خوش واپس چلے گئے۔

کالج کے ہال میں جلسہ ہوا۔ صدر یونین کی تقریر کے تین نکات جعفری صاحب نے سنائے تھے لیکن مجھے دو یاد رہ گئے ہیں۔ (1) سیاست دان مسئلہ کشمیر حل کرانے میں ناکام ہو چکے ہیں، اس کے لیے طلبہ کی خدمات سے استفادہ کیا جائے۔ (2) یونین فنڈ کو سٹوڈنٹس یونین کی تحویل میں دیا جائے۔ ان باتوں پر طلبہ نے خوب تالیاں پیٹ کر مقرر کو داد دی۔

بعد ازاں جب جعفری صاحب تقریر کرنے روسٹرم پر آئے تو انھوں نے ابتدائی خیر مقدمی کلمات ادا کرنے کے بعد کہا آپ نے تنازعہ کشمیر حل کرنے کے لیے طلبہ  کی خدمات حاصل کرنے کا کہا ہے، میں اس کی مکمل تائید کرتا ہوں۔ لیکن معاملہ یہ ہے کہ مسئلہ ذرا پیچیدہ ہے۔ دو حکومتیں فریق ہیں، سلامتی کونسل بھی ملوث ہے، ہو سکتا ہے کہ اس میں ذرا دیر لگ جائے، اس مہلت میں آپ ہمارا ایک مسئلہ حل کروا جائیں۔ پچھلے دنوں اسلامیہ کالج کے ساتھ ہمارا ہاکی میچ ہوا جس میں لڑائی ہو گئی تھی۔ اس تنازعے کا کوئی تصفیہ نہیں ہو رہا۔ آپ سبب سے آئے ہوئے ہیں اس لیے اپنی ثالثی کے ذریعے یہ مسئلہ حل کروا دیں تو ہم آپ کے بہت شکر گزار ہوں گے۔ جعفری صاحب  کی بات پر طلبہ نے ہنسنا شروع کر دیا جس پر نصر اللہ شیخ خفا ہو گئے اور کہا آپ میرا مذاق اڑا رہے ہیں۔ جعفری صاحب نے کہا، برخوردار اس میں مذاق اڑانے والی کون سی بات ہے۔ اگر آپ مسئلہ کشمیر حل کروانے کا دعوی کر رہے ہیں تو یہ چھوٹا سا مسئلہ حل کروانا آپ کے لیے کون سا مشکل کام ہے اور اس طرح آپ کی ثالثی اور مذاکرات کاری کی صلاحیتوں کا بھی امتحان ہو جائے گا۔

یونین فنڈ کا ذکر کرتے ہوئے جعفری صاحب نے کہا مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ انھوں نے طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گزشتہ دنوں جب یونین کا جلسہ ہوا تو آپ سب نے چائے پی تھی؟ طلبہ نے کہا نہیں۔ اب جعفری صاحب اصرار کر رہے ہیں کہ آپ نے چائے پی ہے، طلبہ انکار کر رہے ہیں۔ تین چار بار کہلوانے کے بعد جعفری صاحب نے کہا تو کیا یونین فنڈ سٹوڈنٹس یونین کی تحویل میں دے دیا جائے؟ طلبہ نے یک زبان ہو کر کہا بالکل نہیں۔ جعفری صاحب نے صدر یونین کو مخاطب کرکے کہا دیکھ لیجیے مجھے تو کوئی اعتراض نہیں لیکن طلبہ نہیں مان رہے۔ اس طرح طلبہ ہنستے کھیلتے ہال سے باہر نکل گئے اور جعفری صاحب کی معاملہ فہمی کی وجہ سے مشکل وقت کسی ہنگامہ آرائی کے بغیر ٹل گیا۔

اپنے سٹاف کے ساتھ برتاو کے یہ دو واقعات دلچسپ بھی ہیں اور ایڈمنسٹریٹرز کے لیے سبق آموز بھی۔ جعفری صاحب نے کہا ہمارے ہاں لوگوں کو چغلی لگانے کی بہت عادت ہے۔ ایک استاد صاحب آئے اور شکایت کی کہ فلاں صاحب تین دن کی چھٹی لے کر گئے تھے اور پانچ دن بعد بھی واپس نہیں آئے۔ جعفری صاحب نے خاموشی سے بات سن لی۔ کچھ دنوں بعد جب دونوں اصحاب سٹاف روم میں موجود تھے تو جعفری صاحب نے شکایت کنندہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ کچھ دن پہلے ان صاحب کے متعلق کچھ کہہ رہے تھے، وہ کیا بات تھی، میں بھول گیا ہوں، دوبارہ بتا دیجیے۔ اب کون بولے۔ جب دو تین بندوں کے ساتھ یہ سلوک ہوا تو پھر کبھی کسی نے ان کے پاس جا کر کسی دوسرے کی چغلی نہیں لگائی تھی۔

جعفری صاحب کا معمول تھا کہ وہ کام ختم کرکے پرنسپل آفس سے اٹھ کر سٹاف روم میں جا کر بیٹھ جاتے اور اساتذہ کے ساتھ گپ شپ کرتے تھے۔ ایک دن ایک شخص نے سٹاف روم میں آ کر کہا پرنسپل صاحب سے ملنا ہے۔ جعفری صاحب نے جواب دیا آپ پہچان لیں  پرنسپل کون ہے؟ وہ بندہ کچھ تیز طرار تھا۔ اس نے کہا آپ گفتگو جاری رکھیں، میں پہچان لیتا ہوں۔ اس پر جعفری صاحب نے کہا اگر مجھے ایسا موقع ملے تو میں فوراً پہچان لوں گا کیونکہ جو سب سے پہلے بدتمیزی کرے گا وہی پرنسپل ہو گا۔ خیر وہ شخص پانچ سات منٹ تک گفتگو سنتا رہا اس کے بعد اس نے کہا، سوری، میں نہیں پہچان سکا۔ جعفری صاحب نے اسے کہا آپ پرنسپل آفس جائیں وہ اپنے دفتر میں ہیں۔ اس نے باہر سے گھوم کر آنا تھا، جعفری صاحب اندر کے دروازے سے اپنے آفس چلے گئے۔ جب اس شخص نے جعفری صاحب کو پرنسپل کی کرسی پر بیٹھے دیکھا تو اس نے بڑی حیرانی سے کہا آپ پرنسپل ہیں؟ آپ اتنی بے تکلفی سے اپنے سٹاف کے ساتھ باتیں کر رہے تھے۔ کیا کبھی کسی نے آپ کے ساتھ بدتمیزی نہیں کی۔ جعفری صاحب نے جواب دیا ایسا کبھی نہیں ہوا۔

جن دنوں جعفری صاحب ایم اے او کالج کے پرنسپل تھے ان کی استادانہ شفقت کا ایک واقعہ یاد آ رہا ہے۔ کالج میں ایک طالب علم تھا جس کا نام تھا فضل رب۔ اس کی عمر چالیس برس سے کچھ اوپر ہی ہو گی۔ اس کو بڈھا شیر کہا جاتا تھا۔ وہ کالج یونین کے الیکشن میں پروفیسر عنایت علی خان کے الفاظ میں مذاق ہی مذاق میں یونین کا صدر منتخب ہو گیا۔ اس غریب کی حالت یہ تھی کہ حلف برداری کی تقریب میں اس کو صدر کی کرسی پر بھی بیٹھنے نہیں دیا گیا تھا۔ ایک روز جعفری صاحب نے اسے بلا کر کہا تم کالج کے صدر ہو، کچھ ڈھنگ کے کپڑے پہن کر آیا کرو۔ اس نے رونا شروع کر دیا کہ سر میں بہت غریب آدمی ہوں، میرے پاس تو یہی کپڑے ہیں جو پہن کر آتا ہوں۔ یہ سن کر جعفری صاحب نے اسے اپنا نیا سوٹ دے دیا کہ یہ پہنا کرو۔ بعد میں وہی فضل رب گورنمنٹ کالج میں داخل ہوا اور یہاں بھی، میرے بعد، مذاق ہی مذاق میں یونین کا صدر بن گیا۔ اس کی ایک بات قابل تعریف تھی۔ جب طلبہ اعتراض کرتے کہ اگر تم اتنے غریب ہو تو اس قدر عمدہ سوٹ کہاں سے آیا ہے تو وہ بڑے فخر سے جواب دیتا کہ یہ جعفری صاحب کا عطا کیا ہوا ہے۔

جعفری صاحب کی برجستہ فقرہ بازی کا ایک ایسا واقعہ ہے جو بہت سے لوگوں نے بیان کیا ہے۔ میں بھی اس کا عینی شاہد ہوں۔1974 کا سال تھا۔ میرے دوست اور ایک برس جونیر جاوید اقبال ندیم شعبہ فلسفہ کی بریٹ فلوسوفیکل سوسائیٹی کے سیکریٹری تھے۔ ایک میٹنگ میں جعفری صاحب کی صدارت اور ڈاکٹر برہان احمد فاروقی کا مقالہ تھا۔ ڈاکٹر صاحب بہت نامور مفکر اور فلسفی تھے۔ انہوں نے مجدد الف ثانی کے فلسفہ توحید پر ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھا تھا۔ ان کی دوسری خصوصیت ڈاکٹر ظفر الحسن کا شاگرد ہونے کے ناتے کانٹ کے فلسفہ کا اختصاصی مطالعہ تھا۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ڈاکٹر صاحب اپنے فلسفیانہ خیالات کا اظہار اردو میں اسی پیرائے میں کرتے تھے جس پیرائے میں کانٹ نے جرمن زبان میں کیا تھا۔ اجلاس میں کچھ تو مقالے کی طوالت اور کچھ سامعین اپنے فہم کی نارسائی کے سبب جانا شروع ہوگئے۔ صورت حال کو دیکھتے ہوئے جاوید اقبال ندیم نے ایک چٹ ڈاکٹر صاحب کو دی جس میں اختصار کی التماس کی گئی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے اس چٹ کو پڑھا اور کہا کہ بس تھوڑا سا ہی رہ گیا ہے۔ یہ سنکر جعفری صاحب نے بہت بے ساختہ انداز میں کہا کوئی بات نہیں ہم بھی تھوڑے ہی رہ گئے ہیں۔

فقرہ بازی کی عادت بعض اوقات  الٹ بھی پڑ جاتی ہے۔ ایک بار جعفری صاحب کو اسی طرح کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت وہ ایم اے او کالج سے ریٹائر ہو چکے تھے۔ گورنمنٹ کالج کے اوپن ایر تھیئٹر میں وائی ایس یو کے زیر اہمتام ہاوس آف کامنز سٹائل ایک پنجابی ڈیبیٹ ہو رہی تھی۔ اس میں جعفری صاحب نے بھی تقریر کرنا تھی۔ پنجابی ڈیبیٹ میں سنجیدہ گفتگو کرنا معیوب خیال کیا جاتا تھا۔ جگت بازی کا سلسلہ عروج پر ہوتا تھا۔ ایک طالب علم مقرر، جس کا نام شاید شہباز تھا، تقریر کر رہا تھا۔ اس نے دو تین بار سیف الملوک کا ذکر کیا تو جعفری صاحب نے کھڑے ہو کر کہا، میں ایہ پچھناں چاہناں کہ سیف الملوک بندہ سی یا بڈھی۔ اس نے آگے سے کہا، اوہ نہ بندہ سی نہ بڈھی، ریٹائرڈ پرنسپل سی۔ اس جواب پر اوپن ایر تھیئٹر قہقہوں سے گونج اٹھا۔

جعفری صاحب بطور استاد کیسے تھے اس کا مجھے ذاتی طور پر کوئی تجربہ نہیں۔ ایک بار میں نے اپنے استاد محترم پروفیسر شاہد حسین صاحب سے، جو جعفری صاحب کے شاگرد رہے تھے، استفسار کیا تو ان کا کہنا تھا کہ جعفری صاحب کے علم میں گہرائی تو نہیں تھی لیکن ان کے تصورات بہت واضح ہوتے تھے۔ وہ مشکل مسئلے کو بہت سادگی سے بیان کرنے اور سمجھانے پر قدرت رکھتے تھے۔

میرا اپنا تاثر بھی یہی بنا جب ایک بار بریٹ فلوسوفیکل سوسائیٹی کے زیر اہمتام لاک اور برکلے کے نظریہ علم پر ان کا لیکچر سننے کا اتفاق ہوا۔ ان کا لیکچر سادہ اورعام فہم تھا لیکن اس میں کوئی تنقیدی زاویہ نہیں تھا۔

ایک واقعہ مجھے شیخ صلاح الدین صاحب نے سنایا تھا۔ ایم اے میں ایک پرچہ تاریخ فلسفہ کا ہوا کرتا تھا۔ جدید مغربی فلسفہ کی تاریخ پر ولیم کیلی رائٹ کی کتاب ان دنوں بطور ٹیکسٹ بک نصاب میں شامل ہوا کرتی تھی۔ کتابیں اس زمانے میں بہت کم ہوا کرتی تھیں، فوٹو کاپی کی سہولت بھی دستیاب نہیں تھی۔ اس لیے زیادہ تر اساتذہ نوٹس لکھوایا کرتے تھے اورجعفری صاحب کا بھی یہی معمول تھا۔ سیدہ شاہین، جن کی بعد میں حنیف رامے صاحب سے شادی ہوئی تھی، شعبہء فلسفہ میں ایم اے کی طالبہ تھیں۔ رائٹ کی کتاب شیخ صاحب کے کتب خانے میں موجود تھی چنانچہ انھوں نے اپنی کاپی سیدہ شاہین کو دے دی۔ ایک دن جعفری صاحب نے کلاس میں دیکھا کہ وہ نوٹس نہیں لکھ رہیں۔ انھوں نے وجہ دریافت کی تو سیدہ شاہین نے جواب دیا، سر مجھے کتاب مل گئی ہے۔

اس بات پر کبھی تعجب ہوتا ہے کہ جعفری صاحب نے تحریر کی بہت عمدہ صلاحیت رکھنے کے باوجود متذکرہ بالا نصابی کتب تصنیف کرنے کے علاوہ فلسفے میں اور کوئی کام نہیں کیا۔ اس زمانے میں پروفیسروں میں لکھنے کا زیادہ رواج بھی نہیں تھا۔ دوسرے انتظامی امور میں الجھ کر تعلیمی اور تصنیفی سرگرمیوں کو جاری رکھنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔

اس تحریر کو ختم کرنے سے پہلے ایک اور واقعہ بیان کرنا چاہوں گا جو دگرگوں معاشرتی حالات پر ان کی دل سوزی کا آئینہ دار ہے۔ شاید سن 1975 کی بات ہے۔ جعفری صاحب کرشن نگر سے انارکلی میں مکتبہ کارواں کی طرف جا رہے تھے جہاں وہ چودھری عبد الحمید کے ساتھ بیٹھک کیا کرتے تھے۔ میں ان کے ہمراہ تھا۔ جب ہم پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس میں ہال کے سامنے پہنچے تو اسلامی جمعیت طلبہ کے کچھ لڑکے آن ملے۔ انھوں نے جعفری صاحب سے کہا کہ وہ ایک پروگرام کرنا چاہ رہے تھے جس کا عنوان کچھ اس قسم کا تھا: معاشرے میں خرابی کا ذمہ دار کون؟ انھوں نے جعفری صاحب سے اساتذہ کی نمائندگی کرنے کو کہا۔ اس پر جعفری صاحب نے کہا، اگر تو اس پروگرام میں شریک ہونے والوں نے خرابی کی ذمہ داری قبول کرنی ہے تو میں اس میں ضرور شریک ہوں گا اور بتاؤں گا کہ خرابی احوال میں استادوں کا کیا کردار ہے۔ اسی طرح وکیل، ڈاکٹر اور دوسرے پیشوں کے لوگ آ کر بیان کریں کہ انھوں نے کیا غلط کیا ہے۔ لیکن اگر صرف یہ کہنا ہے کہ میرا پیشہ ذمہ دار نہیں، بلکہ خرابی کے ذمہ دار دوسرے لوگ ہیں تو میں نہیں آؤں گا۔ یہ شرط اتنی کڑی تھی کہ شاید اس کے بعد وہ پروگرام ہوا ہی نہیں تھا۔

پروفیسر کرامت حسین جعفری جسمانی ساخت کے اعتبار سے گو پست قامت تھے لیکن کردار میں بہت بلند و بالا تھے۔ تمام تر ہنسی مذاق کے علی الرغم اصول اور ضابطے کی بڑی سختی سے پابندی کرتے تھے۔ ان کی طبیعت کا ایک بڑا وصف بے خوف ہونا تھا۔ وہ غضب ناک اور جذبات میں بپھرے ہوئے مجمع کا سامنا کرنے اور اسے اپنی بات سنا کر قائل کرنے کا ملکہ رکھتے تھے۔ جعفری صاحب 23 دسمبر 1976 کو اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے تھے۔ مجھے یقین ہے کہ قبر میں منکر نکیر بھی ان کی حاضر جوابی سے خوب لطف اندوز ہوئے ہوں گے اور جنت الفردوس کے کسی مرغزار میں اپنے مداحوں کے جمگھٹے میں گھرے جعفری صاحب اپنی خوش گفتاری کے موتی لٹا رہے ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).