مسٹر جناح۔ ۔ مفلس سے ارب پتی ہونے کا سفر (مکمل کالم)


مولانا ابو الکلام آزاد ’انڈیا ونز فریڈم ‘ میں لکھتے ہیں کہ گاندھی جی کے ساتھ ایک احمق قسم کی عورت ہوا کرتی تھی، اُس کا نام امت السلام تھا، اُس کی حماقتیں اپنی جگہ مگر وہ تھی نیک نیت۔ اُس نے دیکھا کہ کچھ اردو خبارات جناح صاحب کو ’قائد اعظم‘ بھی لکھتے ہیں۔ جب مہاتما گاندھی نے جناح صاحب کو ملاقات کی دعوت کے لیے خط لکھنا تھا تو اُس عورت نے گاندھی جی کو بتایا کہ انہیں بھی اردو اخبارات کی طرح جناح صاحب کو قائد اعظم لکھنا چاہیے۔ مولانا لکھتے ہیں کہ گاندھی جی نے ایسا ہی کیا اور جناح کو قائد اعظم لکھ کر مخاطب کیا اور ایسا کرنے سے پہلے انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ اِس عمل کے کیا مضمرات ہو سکتے ہیں۔ گاندھی جی کا یہ خط اخبارا ت میں بھی شائع ہوا۔ جب بھارتی مسلمانوں نے دیکھا کہ گاندھی جی نے بھی جناح کو قائد اعظم کہہ دیا ہے تو انہیں لگا کہ پھر تو جناح صاحب واقعی قائد اعظم ہوں گے۔ بقول ابوالکلام آزاد، یہ گاندھی جی ہی تھے جنہوں نے قائد اعظم کے لقب کو سند دی۔

محمد علی جناح ’قائد اعظم ‘ تھے یا نہیں، کم از کم پاکستان کی حد تک یہ بات طے ہو چکی ہے، ہم انہیں عظیم لیڈر مانتے ہیں، وہ پکے آئین پرست تھے، مرکزی اسمبلی کے رکن کے طور پر انہوں نے کئی یادگار تقاریر کیں اور انگریز حکمرانوں کے سامنے انہی کی زبان میں ہندوستانیوں کے حقوق کا مقدمہ لڑا۔ عائشہ جلال لکھتی ہیں کہ ایسی ہی ایک تقریر میں انہوں نے بھگت سنگھ اور دیگر سیاسی قیدیوں کی جیل میں بھوک ہڑتال کی حمایت کی اور انگریزوں کی بزور طاقت بھوک ہڑتال ختم کروانے کی حرکت کی شدید مذمت کی۔ اسی طرح اقلیتو ں کے حقوق کی جنگ جیسے قائد اعظم نے لڑی ویسی شاید کسی نے نہیں لڑی، انہوں نے کانگریس جیسی طاقتور پارٹی اور اُس کے گاندھی، نہرو، ابولکلام اور پٹیل جیسے جہاندیدہ لیڈران کے سامنے تن تنہا نہ صرف اپنا مقدمہ لڑا بلکہ جیت بھی لیا۔ اس جیت کا نام پاکستان ہے۔

ذاتی زندگی میں بھی قائد کا کردار قابل تقلید ہے۔ ان کی کہانی ایک سیلف میڈ شخص کی داستان ہے جس نے محض اپنی قابلیت کے بل بوتے پر کامیابی کی منازل طے کیں۔ ایک ایسا شخص جو وزیر مینشن کراچی کے تین مرلے کے مکان میں پلا بڑھا، جس میں دو شادی شدہ جوڑوں سمیت سترہ افراد رہتے تھے، وہاں سے اُس شخص نے اپنا سفر شروع کیا اور محض چند برسوں میں کامیابی کی معراج کو چھولیا۔ اگر ہم قائد کی سیاسی زندگی کو نکال بھی دیں تو اُن کی ذاتی کامیابی علیحدہ سے ایک تحقیقاتی موضوع ہے۔ مورخ اور سول سرونٹ ڈاکٹر سعد سکندر خان بتاتے ہیں کہ ایک زمانے میں جناح صاحب کے والد پونجا جناح پر چوّن روپوں کا قرض چڑھ گیا جس کی ادائیگی کے لیے انہیں ایک میمن کی طرف سے نوٹس بھی ملا، جناح صاحب نے اپنے کچھ دوستوں سے ادھار لے کر والد کا قرض چکایا۔ اور پھر وہ وقت بھی آیا جب اسی بمبئی میں محمد علی جناح کا طوطی بولنے لگا، اُن کی وکالت ایسی چمکی کہ پھر انہیں پیچھے مُڑ کر دیکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔

بمبئی سے انہیں عشق تھا، یہاں انہوں نے مالا بار ہلز (ساؤتھ کورٹ) میں بنگلہ خریدا اور قیام پاکستان تک اسی میں رہے، اپنی وصیت میں یہ بنگلہ انہوں نے فاطمہ جناح کے نام کر دیا۔ ذرا سوچئے کہ بانی پاکستان کا گھر کراچی میں ہو اور بہن فاطمہ جناح کا بمبئی میں، یہی ماڈل وہ عوام کے لیے بھی چھوڑ کر گئے تھے جس کے تحت بٹوارے کے بعد انڈیا اور پاکستان کو یوں رہنا تھا جیسے کنیڈا او ر امریکہ یا جیسے آج کل یورپئین یونین ہے۔ قائد نے لاہور، کراچی اوردہلی کے علاوہ لندن میں بھی جائیدادیں خریدیں۔ ڈاکٹر سعد خان اپنی کتاب ”محمد علی جناح۔۔۔ دولت، جائیداد اور وصیت“ میں لکھتے ہیں کہ لندن کے مشہور زمانہ علاقے ’مے فئیر‘ میں جناح صاحب نے سات فلیٹ خریدے، یہ فلیٹ انہوں نے کرائے پر چڑھا دیئے اور بعد ازاں انہیں فروخت کردیا، یہ جائیداد لٹل گبز روڈ اور ہیمپسٹڈ ہیتھ کے بنگلے کے علاوہ تھی۔

اسی طرح قائد اعظم نے ہاکس بے کے علاقے ماڑی پور میں زرعی زمین اور لاہور کے علاقے گلبرگ میں بھی کچھ رہائشی پلاٹ خریدے۔ بقول ڈاکٹر سعد ”کراچی اور لاہور میں مکانات اور پلاٹس حاصل کرنے کی کوئی سیاسی، جذباتی یا کمرشل وجہ نہیں تھی سوائے اس کے کہ انہیں یقین تھاکہ جلد ہی پاکستان ایک حقیقت بن جائے گا چنانچہ انہوں نے ذاتی جائیداد نئے ملک میں بنانا شروع کر دی تھی۔“ قائد اعظم نے سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری بھی کی، بمبئی کی مختلف کمپنیوں کے شئیر خریدے جن سے انہیں بھاری آمدن ہوتی تھی۔ ان کے چار بینکوں میں کھاتے تھے جہاں سے انہیں منافع آتا تھا، عرف عام میں جسے سود بھی کہتے ہیں۔ اُس زمانے میں اگر قائد اعظم کی دولت کا تخمینہ لگایا جائے تو وہ آج کے حساب سے ارب پتی تھے۔ ایسا ارب پتی جس نے اپنا سفر تقریباً مفلسی سے شروع کیا !

جناح صاحب کی زندگی کا تیسرا پہلو اُن کی آزاد خیالی اور سیکولر ازم تھا۔ اب جن لوگوں کو اِن الفاظ سے چِڑ ہے اُن سے معذرت مگر حقیقت یہی ہے۔ قائد نے اپنی پسند کی لڑکی سے محبت کی شادی کی جو اُن کے غیر مسلم پارسی دوست سر ڈنشا، جو جناح صاحب سے بمشکل تین برس بڑے تھے، کی بیٹی تھی۔ شادی کے وقت جناح صاحب کی عمر بیالیس برس اور لڑکی یعنی رتی کی عمر صرف اٹھارہ برس تھی۔ ’مسٹر اینڈ مسز جناح۔۔۔ ہندوستان کی ایک حیران کُن شادی‘ میں ’شیلا ریڈی‘ لکھتی ہیں:”رتی پر پابندیوں کی نوعیت وہی تھی جو ایک مہذب انگریز گھرانے کی لڑکیوں پر عائد ہوتیں۔ اسے اجازت تھی کہ وہ ہارنبی روڈ کی بڑی دکانوں پر خریداری کرکے اپنے والد کے کھاتے میں دستخط کرے۔ وہ گھر پر اپنے چاہنے والوں کو مدعو کرتی چاہے وہ کسی عقیدے یا برادری سے تعلق رکھتے، ڈانس کے لیے کلب یا دوستوں کے گھر جانا، گارڈن پارٹی اور گھوڑوں کی ریس پر جانا۔۔۔“

جب جناح صاحب نے سر ڈنشا کو رتی سے شادی کی درخواست کی وہ بھونچکے رہ گئے، بقول شیلا ریڈ ی”اس پیغام کے آنے کا امکان سر ڈنشا کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ حالانکہ ان کی خوبصورت بیٹی نے ساری گرمیوں کی تعطیلات جناح کے ساتھ گھڑ سواری کرتے، کتابیں پڑھتے یا کھانا کھاتے اور سیاست پر گفتگو میں گزاری تھیں۔ آخر وہ ابھی سولہ سال کی بھی نہیں ہوئی تھی۔۔۔ “شادی کی تقریب میں ایک دلچسپ بات یہ ہوئی کہ جب دلھن کو انگوٹھی پہنانے کا وقت آیا تو پتا چلا کہ دولھا صاحب یعنی مسٹر جناح انگوٹھی خریدنا ہی بھول گئے ہیں۔ شیلا ریڈی لکھتی ہیں کہ اس موقع پر راجا صاحب محمود آباد نے اپنی ہیرے کی انگوٹھی اتار کر پیش کی۔ نکاح کی رسومات شیعہ مسلک کے تحت ادا کی گئیں۔ نکاح سے پہلے جناح صاحب نے رتی کو مسلمان ضرور کیا مگر رتی جناح کا لائف سٹائل شادی کے بعد بھی وہی رہا جو پہلے تھا۔

یہ تھے جناح صاحب۔ ماڈرن، لبرل، سیکولر اور سیلف میڈ ارب پتی۔ اور اگر محمد علی جناح ماڈرن، لبرل اور سیکولر نہیں تھے تو پھر میں نہیں جانتا کہ دنیا میں دوسرا کون تھا۔ ہاں، اگر کوئی جناح صاحب کو کسی اور زمرے میں رکھنا چاہتا ہے تو شوق سے رکھے مگر پھر اُس لائف اسٹائل پر تنقید سے باز رہے جو خود جناح صاحب نے مرتے دم تک اپنائے رکھا۔ اِس لائف اسٹائل میں سگار پینے سے لے کر بیش قیمت مغربی سوٹ پہننے تک اور ایک الٹرا ماڈرن لڑکی سے محبت کی شادی کرنے سے لے کر اپنی بہنوں کو عیسائی بورڈنگ اسکولوں میں تعلیم دلانے تک، اقلیتوں کے حقوق کا مقدمہ لڑنے سے لے کر بھگت سنگھ کی حمایت تک، سب کچھ شامل ہے۔ رہی یہ دلیل کہ انہوں نے تمام عمر سیکولر کا لفظ استعمال نہیں کیا تو گذارش یہ ہے کہ سیکولر اور لبرل کا لفظ تو کبھی بلہے شاہ نے بھی استعمال نہیں کیا مگر اُس سے زیادہ پروگریسو شاعر کوئی دوجا نہیں! دو دن بعد قائد کا جنم دن ہے اور کرسمس بھی۔ اگر جناح صاحب آج زندہ ہوتے تو اپنے بمبئی کے مالا بار ہلز کے بنگلے میں کرسمس پارٹی کا اہتمام کیسے کرتے، یہ جاننے کے لیے ہمیں کسی جوتشی کی ضرورت نہیں !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 495 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada