کریمہ بلوچ ہلاکت: ٹورونٹو پولیس نے ابتدائی تحقیقات میں گڑبڑ کا شبہ خارج کر دیا، دنیا بھر سے سماجی کارکن کے لیے خراج عقیدت کے پیغامات


سماجی کارکن اور بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی سابق چیئرپرسن کریمہ بلوچ کی کینیڈا کے شہر ٹورونٹو میں اچانک موت کے کیس میں پولیس نے ابتدائی تحقیقات کے بعد کہا ہے کہ کریمہ بلوچ کی موت جن حالات میں ہوئی اس سے متعلق تحقیقاتی افسران کو کسی قسم کی گڑبڑ کا شبہ نہیں ہے۔

دوسری جانب پاکستان سمیت دنیا بھر میں انسانی حقوق کی تنظیمیں اور بڑی تعداد میں لوگ انھیں خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں۔

ٹورونٹو پولیس نے ٹوئٹر پر جاری اپنے پیغام میں لکھا ’ٹورونٹو پولیس سروس ایک لاپتہ شخص کی تفتیش میں کمیونٹی اور میڈیا کی دلچسپی سے آگاہ ہے۔ حالات کی چھان بین کی گئی ہے اور افسران نے اس کو غیر مجرمانہ موت قرار دیا ہے اور کسی گڑبڑ کا شبہ نہیں ہے۔ ہم نے فیملی کو آگاہ کر دیا ہے۔‘

ٹورنٹو پولیس کے مطابق کریمہ بلوچ 20 دسمبر کو لاپتہ ہوئی تھیں۔ ان کے لاپتہ ہونے کی اطلاع ان کے شوہر حمل حیدر بلوچ نے پولیس کو دی جبکہ 21 دسمبر کو ان کی لاش پانی سے برآمد ہوئی۔

واضح رہے کہ کریمہ بلوچ کا تعلق پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع تربت سے تھا اور جان کو لاحق خطرات کے باعث انھوں نے کینیڈا میں سیاسی پناہ حاصل کر لی تھی۔ اس کے بعد وہ کینیڈا اور سوئٹزرلینڈ میں اقوام متحدہ کے اجلاسوں میں بلوچستان کے مسائل اجاگر کرتی رہیں۔

یہ بھی پڑھیے

ٹورونٹو سے لاپتہ سیاسی کارکن کریمہ بلوچ کی لاش پانی میں سے ملی

والدہ کے پڑھے اشعار جو کریمہ بلوچ کو ملک چھوڑنے سے روک سکتے تھے

بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی سربراہ کے کزن لاپتہ

کریمہ بلوچ کے ساتھ جن لوگوں نے بھی کام کیا یا رابطے میں رہے، وہ اس بات پر متفق ہیں کہ وہ ایک بہادر خاتون تھیں اور ان میں کسی تحریک کی قیادت کرنے کی صلاحیت موجود تھی۔

’کریمہ بلوچ خوف کے ماحول میں بھی پیچھے نہیں ہٹیں‘

بلوچستان سے لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے سربراہ ماما قدیر بلوچ ان لوگوں میں سے ہیں جن کے ساتھ کریمہ بلوچ نہ صرف کوئٹہ اور کراچی میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں شریک رہیں بلکہ جینیوا میں بھی وہ بیس روز تک ساتھ رہے۔

ماما قدیر بلوچ کہتے ہیں کہ انھوں نے کریمہ بلوچ کو ایک بہادر خاتون پایا۔ ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں جب سنہ 2008 کے بعد بڑی تعداد میں لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کرنے اور ان کی تشدد زدہ لاشیں برآمد ہونے کے بعد خوف کا ماحول پیدا ہوا تو مرد سیاسی کارکنوں کے لیے نکلنا مشکل ہو گیا مگر کریمہ بلوچ خوف کے اس ماحول میں بھی پیچھے نہیں ہٹیں۔

ان کا کہنا ہے کہ انھیں یاد ہے کہ سنہ 2013 میں جب وہ کراچی میں تھے تو کریمہ بلوچ نے کوئٹہ میں ایک بڑی احتجاجی ریلی کا پروگرام بنایا اور انھیں اس میں شرکت کے لیے کراچی سے بلایا تھا۔

ماما قدیر کے مطابق خوف کے ماحول کے باوجود کریمہ بلوچ کی کوششوں کے باعث وہ ریلی نکالی گئی اور لوگوں کی بڑی تعداد نے اس میں شرکت کی۔

انھوں نے کہا کہ کریمہ کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ بلوچستان میں حقوق انسانی کی پامالی روکنے کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے ایک ماحول پیدا کیا جائے۔

’اس سلسلے میں انھوں نے ایک مرتبہ اسلام آباد میں ایک مظاہرہ کروانے کا پروگرام بنایا۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے نہ صرف مجھے اسلام آباد بھیجا بلکہ میرے ساتھ خواتین اور بچوں کو بھی بھیجنے کا انتطام کیا۔‘

ماما قدیر نے بتایا کہ وہ اور کریمہ بلوچ بیس روز تک جینیوا میں بھی رہے جہاں اقوام متحدہ کے لوگوں کو بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی کے واقعات سے آگاہ کیا گیا۔

ماما قدیر نے بتایا کہ کینیڈا میں جلاوطنی کے دوران بھی کریمہ کا فون آیا کرتا تھا اور وہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کے بارے میں معلومات حاصل کرتی تھیں۔

انھوں نے کہا کہ کینیڈا سے فون آنے پر جب موہ ان سے پوچھتے کہ کیا وہ کینیڈا میں خوش ہیں تو وہ کہا کرتی تھیں کہ ’ماما کون اپنی سرزمین سے دور رہ کر خوش رہ سکتا ہے‘ اور وہ یہ کہتی تھی کہ بس مجبوری ہی ہے جس کی وجہ سے وہ کینیڈا میں ہیں۔‘

’لوگ سمجھتے ہیں کہ خواتین کمزور ہیں لیکن کریمہ بلوچ نے اسے غلط ثابت کیا‘

کریمہ بلوچ کے ساتھ کام کرنے والے لوگوں میں کالعدم بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے چیئرمین ابرم بلوچ بھی شامل ہیں۔

ابرم بلوچ کہتے ہیں کہ کریمہ بلوچ نے اس وقت تنظیم کی قیادت سنبھالی جب بلوچستان میں مرد سیاسی کارکن اعلانیہ سیاسی سرگرمیوں میں شرکت کے لیے نکلتے ہوئے کئی بار سوچتے تھے۔

ابرم بلوچ نے بتایا کہ مارچ 2014 میں کوئٹہ سے بی ایس او آزاد کے سابق چیئرمین زاہد بلوچ کو کریمہ بلوچ کی آنکھوں کے سامنے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا لیکن کریمہ بلوچ اس سے خوفزدہ نہیں ہوئیں بلکہ وہ بہت زیادہ مضبوط ہوئیں جس کے باعث ان کو تنظیم کا چیئرپرسن منتخب کیا گیا۔

انھوں نے کہا کہ کریمہ بلوچ نہ صرف ایک ’بہادر خاتون تھیں بلکہ ان میں سب سے زیادہ اور پہلے سختی برداشت کرنے اور قربانی پیش کرنے کا جذبہ بھی تھا‘۔

’یہی وجہ ہے کہ جب بی ایس او کے چیئرمین زاہد بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف کراچی میں تادم مرگ بھوک ہڑتال کرنے کا فیصلہ ہوا تو کریمہ بلوچ نے کہا کہ وہ خود تادم مرگ بھوک ہڑتال پر بیٹھ جائیں گی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ تنظیم نے ان کو تادم مرگ بھوک ہڑتال کرنے کی اجازت نہیں دی کیونکہ ان کو تنظیم اور تحریک کی قیادت کرنی تھی۔

حقوق انسانی کی کارکن ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے بتایا کہ انھیں کوئٹہ میں کریمہ بلوچ کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان میں ’قوت برداشت بہت زیادہ تھی اور کسی بھی تنقید کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرتی تھیں‘۔

ماہ رنگ بلوچ کے مطابق کریمہ ’جدوجہد کی علامت‘ تھیں اور انھوں نے بی ایس او کی قیادت اس وقت کی جب ان کے ’تمام ساتھیوں کو لاپتہ کیا گیا‘ اور ان میں سے ’بعض کی تشدد زدہ لاشیں برآمد ہوئیں‘۔

انھوں نے کہا کہ ’لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ خواتین کمزور ہیں لیکن کریمہ بلوچ نے اسے غلط ثابت کیا اور خوف کے ماحول میں بے خوف ہو کر جدوجہد کی‘۔

ماہ رنگ بلوچ نے یہ بھی بتایا کہ کریمہ کے ماموں اور چچازاد بھائی کو جبری طور پر لاپتہ کر کے ہلاک کرنے کے علاوہ کیچ میں ان کے گھر کو بھی جلایا گیا۔

’جب وہ کینیڈا میں تھی تو وہاں بھی ان کو دھمکیاں دی گئیں مگر وہ پیچھے نہیں ہٹیں۔ لوگ خوف کے ماحول میں چھپ کر بیٹھ جاتے ہیں لیکن کریمہ بلوچ میں نہ صرف ایسے ماحول میں خود کھڑی ہونے کی صلاحیت تھی بلکہ دوسروں کو بھی کھڑا کرنے کی خوبی تھی۔

کریمہ بلوچ کی چھوٹی بہن ماہ گنج بلوچ نے بتایا کہ کریمہ بلوچ نہ صرف ’اپنے رشتہ داروں کا بہت زیادہ خیال رکھتی تھیں بلکہ اپنے ساتھ کام کرنے والے سیاسی کارکنوں کا بھی بہت زیادہ احترام کرتی تھیں‘۔

سوشل میڈیا پر ردعمل

کریمہ بلوچ کی موت کی خبر منظر عام پر آنے کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر بھی بہت سے صارفین نے انھیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ان کی کوششوں کو سراہا ہے۔

نور مریم کنور نے کریمہ بلوچ کے ساتھ اپنی ایک تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا ’یہ سنہ 2014 کی بات ہے۔ ہم دو بہت قیمتی ساتھیوں کے ساتھ پریس کلب کی جانب جا رہے تھے۔ یہ زاہد بلوچ کی بحفاظت رہائی کے لیے نکالی جانے والی ریلی تھی جو اب بھی لاپتہ ہیں۔ آج میرا دل ٹوٹ گیا ہے اور دنیا مجھے بے معنی لگ رہی ہے لیکن کریمہ بلوچ تمھاری جدوجہد لاکھوں لوگوں کو متاثر کرتی رہے گی۔‘

صحافی وینگس نے لکھا ’یہ کراچی میں سنہ 2014 کی بات ہے کہ میری کریمہ بلوچ سے ملاقات ہوئی۔ جب لطیف جوہر لاپتہ افراد کی رہائی کے لیے بطور احتجاج بھوک ہڑتال پر تھے۔ کریمہ بہت مہربان اور معاملات کو سمجنھے کے لیے ایک خوبصورت ذہن کی مالک تھیں۔ کچھ زحم کبھی نہیں بھرتے۔ ایک اداس دسمبر۔‘

شہزاد بلوچ نے لکھا ’میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ یہ ہماری آخری ملاقات ہوگی، تم ہمیں بہت جلدی چھوڑ گئیں۔ تم ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہو گی۔‘

ان کی اس ٹویٹ کے جواب میں اقوام متحدہ میں کینیڈا کے مستقل مندوب اور سفیر بوب رائے نے لکھا کہ مجھے کریمہ بلوچ سے ملنے کا اعزاز حاصل تھا۔

انھوں نے مزید لکھا: ’کریمہ سے ملاقات میں انسانی حقوق کی صورتحال پر بات چیت کی جو ان کے دوستوں اور اہلِخانہ کو متاثر کر رہی تھی۔ ان کی موت کا سن کر مجھے شدید رنج ہوا ہے اور میں ان کے خاندان اور کمیونٹی کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں۔‘

بلوچ سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر نواب بلوچ نے کریمہ کے لیے اپنے پیغام میں لکھا ’ہم آئرن لیڈی کو طلبا سیاست کو منظم کرنے میں کردار ادا کرنے پر بہت زیادہ خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ وہ آنے والی نسلوں کے لیے مثالی نمونہ رہیں گی۔‘

قاسم بلوچ نے لکھا ’کریمہ بلوچ نے قومی مقصد کے لیے اپنا حصہ ادا کیا۔ میری خواہش تھی کہ وہ کبھی نہ مرتیں اور بلوچ نطریے کی روح کو منتقل کرتی رہتی۔ وہ قومی مقصد کو محفوظ کرتے ہوئے مر گئیں۔ انھوں نے ایک عظیم مقصد کی ادائیگی میں بطور بلوچ بیٹی صحیح معنوں میں ترجمانی کی۔ ‘

شمالی وزیرستان سے منتخب ممبر قومی اسمبلی محسن داوڑ نے ان کی موت کو ’قتل‘ کہتے ہوئے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں لکھا ’وہ بلوچ مٹی کی باہمت بیٹی تھی اور اپنے لوگوں کے لیے لڑی اور اس وجہ سے قتل کی گئیں۔‘

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32500 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp