فلائیٹ سارجنٹ عشیق الحسن اور میانوالی


نیوزی لینڈ کے سب سے بڑے اور خوبصورت شہر آکلینڈ میں ایک پرسکون کیفے میں فلائیٹ سارجنٹ عاشق الحسن یا عشیق الحسن سے ملاقات ہر لحاظ سے حیران کن تھی۔ ریاضی کے کلیے کے مطابق ہماری ملاقات کے امکانات انتہائی کم ہونے چاہیے تھے۔ ہم مختلف ممالک سے تعلق رکھتے تھے، وہ میرے والد محترم کی عمر کے تھے، وہ نیوزی لینڈ میں رہتے تھے اور میں آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں رہائش پذیر تھا۔ ہاں ایک بات مشترک کہی جاسکتی تھی کہ ہم دونوں پاکستان ائیرفورس میں سروس کر چکے تھے لیکن وہ بھی مختلف ادوار میں۔ …

وہ بنگلہ دیش سے نیوزی لینڈ ستر کی دہائی کے اواخر میں آئے تھے اور مختلف کام کرتے رہے تھے جن میں ٹیکسی چلانے سے لے کر ایک ذبحہ خانے میں کام کرنے اور پھر اپنے سٹور کی ملکیت شامل تھے۔ جب ہم ملے تو اس وقت وہ ایک نیم ریٹائرڈ زندگی گزار رہے تھے۔ ان کا بیٹا ڈاکٹر شریف الحسن ہماری ملاقات کا محرک تھا۔ جس کے ساتھ صحت عامہ سے متعلق ایک کانفرنس میں ملاقات ہوئی تھی ۔

“اللہ سبحان تعالیٰ نے مجھے بہت نوازا ہے لیکن پچھتاو ے ہیں، کسک ہے، یادیں ہیں۔ ” انہوں نے کہا ”تو پھر آپ واپس بنگلہ دیش کیوں نہیں چلے جاتے؟” میں نے پوچھا

 ”بنگلہ دیش کہاں جائوں؟ میرا وہاں کوئی گھر نہیں، کوئی اثاثے نہیں۔ ہاں میرے والد کا راولپنڈی میں گھر ہوا کرتا تھا “۔

میرے کان کھڑے ہوئے ”راولپنڈی میں کہاں؟” میں نے پوچھا۔

””کیا آپ راولپنڈی سے ہو؟” میں نے اثبات سے سر ہلایا۔ کتنی ہی دیر وہ پنڈی کے بارے میں پوچھتے رہے۔ ان کی آنکھوں میں آنسو جھلملاتے تھے۔

پھر انہوں نے بتایا ”میرے والد برٹش آرمی کے دہلی آفس میں سویلین کلرک تھے۔ 1947ء میں انہوں نے پاکستان کا انتخاب کیا اور انہیں کراچی بھیج دیا گیا۔ میری پیدائش کراچی میں ہوئی تھی۔ کراچی سے ان کی پوسٹنگ راولپنڈی ہو گئی۔ ہم لال کڑتی رہتے رہے اور پھر سیٹلائٹ ٹائون آگئے۔ میں ڈینز ہائی سکول اور بعد میں مسلم ہائی سکول میں پڑھتا رہا۔ پھر میں ائیرفورس میں بھرتی ہو گیا۔ 1965 ء کی جنگ کے دنوں میں ماڑی پور میں تھا۔ 1969ء میں میرے والد کا انتقال ہوگیا۔ والدہ ان کی میت مشرق پاکستان لے کر جانا چاہتی تھیں لیکن ہم بہن بھائیوں نے راولپنڈی میں ہی ان کی تدفین کا فیصلہ کیا۔ اچھا ہوا وہ پہلے ہی چلے گئے اور انہوں نے 1970ء کے بعد کے واقعات نہیں دیکھے۔

وہ محمد علی جناح کے عاشق تھے اور سرکاری ملازم ہونے کے باوجود ایوب خان کے مقابل صدارتی الیکشن میں فاطمہ جناح کے پرجوش حامی تھے۔ 1970ء کے انتخابات سے تھوڑا پہلے میری شادی ہو گئی۔ میں اس وقت کارپورل تھا اور پی اے ایف بیس میانوالی میں تعینات تھا۔ مجھے کیمپ میں گھر مل گیا۔ چھوٹا بھائی ڈھاکہ یونیورسٹی چلا گیا تھا اس لئے والدہ اور میری بہن ہمارے پاس میانوالی آگئیں۔ اس زمانے میں میانوالی چھوٹا سا قصبہ تھا لیکن ہمیں بہت پسند آیا تھا کیونکہ وہاں عمدہ مچھلی وافر ملا کرتی تھی”۔

“ملک میں فوجی حکومت تھی اور خیال تھا کہ الیکشن کے بعد سب ٹھیک ہو جائے گا۔ لیکن عجیب حالات ہو گئے اور ٹھیک ہونے کے بجائے سب کچھ بگڑ گیا۔ اس وقت تو سمجھ نہ تھی لیکن آج میں سمجھ سکتا ہوں کہ فوجی حکومت کا مشرقی پاکستان الیکشن پلان فیل ہوگیا تھا۔ فوجی حکام چاہتے تھے کہ کسی پارٹی کو اکثریت حاصل نہ ہوسکے لیکن عوامی لیگ کے کارکنوں اور عوام نے بھی وہ منصوبہ کامیاب نہ ہونے دیا۔ فوج نے ہاتھ اٹھا لیا اور یوں عوامی لیگ کو کھلی چھٹی مل گئی ورنہ ایسا ہرگز نہ تھا کہ مشرق پاکستان میں عوامی لیگ کے علاوہ کوئی جماعت تھی ہی نہیں”۔

“لیکن اور وجوہات بھی تھیں۔ ایک تلخ حقیقت تھی کہ مغربی پاکستان کے لوگ خصوصاً کھاتے پیتے آسودہ حال لوگ بنگالیوں کو کمتر سمجھتے تھے۔ بنگلہ زبان کے کچھ الفاظ اور آوازیں اردو سے فرق ہیں۔ جس طرح عربی زبان میں ‘پ’ نہیں ہوتی تو وہ پاکستان کو باکستان بولتے ہیں۔ میرے نام کو ہی لے لو ہم اپنے لہجے میں بولتے ہیں تو عشیق الحسن سنائی دیتا ہے لیکن آپ عاشق الحسن بولو گے اور ہوسکتا ہے ہنسو بھی۔ تو ہم بنگالیوں کی بول چال کا مذاق اڑایا جاتا تھا”۔ سچ تو یہ ہے کہ میں واقعی دل ہی دل میں ہنسا تھا۔

 عشیق الحسن کی کہانی جاری تھی ”بنگال میں موسیقی کو پسند کیا جاتا تھا اور سنگیت سے محبت عام تھی۔ میری والدہ اور بہن عمدہ ستار بجایا کرتی تھیں۔ اسے بھی مغربی پاکستان میں ناپسند کیا جاتا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا تھا کہ ہم ہندوئوں سے بہت متاثر یا زیر اثر ہیں بلکہ ہمارا اسلام بھی مشکوک سمجھا جاتا تھا۔ بدقسمتی سے الیکشن کے بعد منتخب اسمبلی کا اجلاس نہ بلایا جا سکا اور پھر مارچ1971 ء میں آرمی ایکشن شروع ہوگیا۔ ہم تو مغربی پاکستان میں تھے لیکن مشرقی پاکستان میں جو کچھ ہوا وہ تباہ کن تھا۔ میں نہیں جانتا سول نافرمانی پہلے شروع ہوئی یا مکتی باہنی کیسے بنی اصل بات تو یہ تھی کہ ایسا ہوا ہی کیوں؟ بھارت کی سازش ہوگی اور فسادات کو ہوا بھی دی گئی ہوگی۔۔۔ لیکن انہیں تو ایسا ہی کرنا تھا۔ ہم نے کیا کیا؟

کتنے ہی بنگالی بھاگ کر اپنی فوج کے خلاف لڑنے چلے گئے۔ میرا چھوٹا بھائی جو ڈھاکہ یونیورسٹی میں طالب علم تھا لاپتہ ہوگیا، آج تک اس کا کچھ معلوم نہیں ہوسکا۔ زندہ ہوتا تو مل جاتا۔ وہ یقینا مارا گیا تھا لیکن کہاں اور کیسے ہم نہیں جانتے۔ اسی زمانے میں ہمارا بیٹا پیدا ہوا تھا۔ ڈاکٹر شریف الحسن سے تم مل چکے ہو، میانوالی میں پیدا ہوا تھا۔ ہمارے ہمسائے اور میرے ائیرفورس کے ساتھیوں نے ہمارے بیٹے کی پیدائش کو سیلبیریٹ کیا ۔ انہں نے ڈھول والے بلائے اور بکرا ذبح کیا۔ ہمیں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ہنسیں یا روئیں؟

پھر جنگ شروع ہوگئی۔ ہم بنگالیوں کو علیحدہ کر دیا گیا۔ سیف الاعظم اور ایم ایم عالم جو کہ بنگالی بھی نہیں تھے جیسے ہوا بازوں کو جنگ میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ سولہ دسمبر جب پاکستانی فوج نے ڈھاکہ میں ہتھیار ڈال دیئے تو میں جھوٹ نہیں بولوں گا کچھ دیر کے لئے ہم خوش ہوئے تھے۔ لیکن میں اور میری والدہ رات گئے روتے رہے۔ اس وقت میری والدہ جلد از جلد ڈھاکہ جا کر اپنے بیٹے کو ڈھونڈنا چاہتی تھیں۔ ہر طرف اداسی چھا گئی تھی۔ ہمارے ہمسائے میرے ساتھی جن کے ساتھ میں نے زندگی گزاری تھی ہمیں عجیب سی نظروں سے دیکھتے تھے جیسے اس شکست کے ذمہ دار ہم ہوں۔ تمام بنگالیوں کو سازشی اور غدار سمجھا اور کہا جانے لگا۔ عجب سی بے یقینی کی کیفیت تھی پھر بھی نہ جانے ہمیں امید تھی کہ حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔ لیکن حالات ٹھیک نہ ہوئے۔

غالباً جون، جولائی 1972ء میں پوچھا گیا کہ میں پاکستان ائیرفورس میں رہنا چاہتا ہوں یا بنگلہ دیش جانا چاہتا ہوں؟ ہمارا کنبہ مخمصے کا شکار تھا۔ کیونکہ ہمارا سب کچھ تو مغربی پاکستان میں تھا۔ میری والدہ بیٹے کو ڈھونڈنے کے لئے تو جانا چاہتی تھیں لیکن ان کا شوہر راولپنڈی میں مدفون تھا اور انہوں نے اپنا گھر بھی وہیں بنایا تھا۔ میری چھوٹی بہن تو صرف ایک دفعہ میری شادی کے موقع پر مشرقی پاکستان گئی تھی۔ میری بیوی کا خاندان البتہ وہاں تھا۔ وہ جانا چاہتی تھی، اس کے خیالات منتشر نہیں تھے”۔

” قصہ مختصر میں نے بنگلہ دیش جانے کا فیصلہ کر لیا۔ کچھ دنوں بعد ہمیں چشمہ کے کیمپ میں منتقل کر دیا گیا۔ وہ انتہائی مشکل دن تھے۔ کہنے کو تو ہم کیمپ کی حدود میں آزاد تھے لیکن وہ ایک طرح کی قید ہی تھی۔ کیمپ کے گرد خاردار باڑ تھی اور چوبیس گھنٹے سنتریوں کا پہرہ ہوتا تھا۔ بچوں اور عورتوں کو چھوڑ کر ہم سب کو صبح اور شام کیمپ آفس میں جمع ہو کر حاضری دینی ہوتی تھی۔ مختلف مکانات میں ہر خاندان کو ایک کمرہ دیا گیا تھا اور گزارہ الائونس کے طور پر کوئی دو ڈھائی سو روپے ملتے تھے۔ میری والدہ نے بہن کے لئے کچھ زیورات بنا رکھے تھے اور میری بیوی کے زیورات سب اونے پونے بک گئے۔ اور پھراسی کیمپ میں میری والدہ کی وفات ہوئی۔ ان کے نصیب میں میانوالی کی مٹی تھی”۔

“نومبر 1973ء میں ہمیں ڈرگ روڈ کراچی روانہ کر دیا گیا اور وہاں سے ریڈ کراس کی چارٹر فلائیٹ سے ہم بنگلہ دیش پہنچ گئے۔ ڈھاکہ پہنچنے پر طمانیت اور آزادی کا احساس ہوا لیکن ساتھ ہی میں گہری اداسی کا شکار ہوگیا۔ میرا بچپن میرا لڑکپن میری جوانی۔۔۔ سب چھوڑ آیا تھا اور سب سے بڑھ کر میرے والدین وہیں رہ گئے تھے”۔

” آپ 1970ء کے بعد پلنے بڑھنے والی نسل سے ہو لیکن ہم نے پاکستان کو ٹوٹتے دیکھا ہے۔۔۔ کاش وہ سب نہ ہوتا۔ جغرافیائی لحاظ سے ہم دور تھے۔ ہمارے قائدین تدبر سے کام لیتے تو شائد اکٹھے رہنے کا کوئی فارمولہ تلاش کیا جا سکتا تھا اور اگر علیحدہ ہونا تھا توکسی پر امن، آبرومندانہ اور با عزت طریقے سے ہوا جا سکتا تھا ۔ کاش وہ قتل و غارت گری نہ ہوتی۔ کاش ہمارے فوجی کمانڈر سمجھ جاتے کہ جنگ عام شہریوں کی حمایت کے بغیر نہیں لڑی جاسکتی۔ اگر ایک فلائیٹ سارجنٹ یا اس وقت میں کارپورل تھا یہ بات جانتا تھا تو اعلیٰ تربیت یافتہ جرنیل یہ بات کیوں نہیں سمجھ سکے۔

میں نے بنگلہ دیش ائیرفورس جوائن کرلی۔ میری پروموشن بھی ہوگئی اور میں فلائیٹ سارجنٹ ہو گیا لیکن مجھے عجیب سی مایوسی اور اداسی نے گھیرے رکھا۔ کچھ عرصے بعد میں نے نوکری چھوڑ دی۔ پہلے ہم آسٹریلیا اور وہاں سے آکلینڈ آگئے۔

اب یہی میرا وطن ہے یا شاید میرا کوئی بھی وطن نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).