پنجاب دشمنی: دلیل مگر لازم ہے


اختلاف رائے رحمت ہے؛ دلیل مگر لازم ہے۔ بغض معاویہ میں کسی کے خلاف زہر اگلنے کو وتیرہ بنا لینا، ثابت کرتا ہے کہ’’ مجھےتو اور کوئی کام بھی نہیں آتا‘‘…… ہمارے ایک محترم، جن کی ادب دوستی کی میں دل سے قدر کرتا ہوں، بسا اوقات ایسی باتیں کر جاتے ہیں، جن سے تعصب کا تعفن ساری فضا کو مکدر کر کے رکھ دیتا ہے۔ میرے فاضل دوست نے اپنی گزشتہ ’’نثری ہجو‘‘ میں پنجاب کے بارے میں انہی الفاظ کا کچھ زیادہ ’’محبانہ‘‘ انداز میں اعادہ فرمایا، جو لاہور کے جلسے میں جناب محمود خان اچکزئی فرما چکے تھے۔ محترم یوں بھی گاہے گاہے پنجاب سے اپنی ’’محبت‘‘ کا اظہار فرماتے رہتے ہیں بلکہ تقریباً ہر دوسرا کالم اسی ’’محبت‘‘ سے مملو ہوتا ہے ؛ چلو خیر ہے پنجاب سے یہ رویہ کون سا نیا ہے اور ’’اگر ہوتے سبھی اپنے تو بیگانے کہاں جاتے‘‘؟……..بصد احترام، کچھ ہماری بھی سن لی جائے کہ اختلافات بہر صورت رحمت ہیں؛ دلیل شرط ہے۔

جناب محمود خان اچکزئی نے جو فرمایا اسے ان کی پنجاب سے شدید ’’محبت‘‘ پر محمول کیا جا سکتا ہے یا پھر تاریخ سے لاعلمی پر؟ حقیقت کچھ اور ہے جو بہت محنت سے مسخ کی گئی۔ آئیے ایک اجمالی نظر اس پر بھی ڈال لیں کہ تفصیلی حقائق بیان اور برداشت کیے جانے کا شاید کسی کو یارا نہیں۔ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان میں شعبہ تاریخ کے پروفیسر ڈاکٹرتراب الحسن سرگانہ کی کتاب جو، Punjab And The War of Independence 1857۔ 1858 From Collaboration To Resistance آکسفورڈ یونیورسٹی پریس پاکستان نے شائع کی، بتاتی ہے کہ ’’ یہ مکمل تحقیق کا فقدان ہے کہ 1857ء کی جنگ آزادی اور اس میں پیش آنے والے واقعات کو فقط دہلی اور میرٹھ تک محدود رکھا گیا اور پنجاب کے کردار کو نظر انداز کیا گیا، جس کی بنیادی وجہ بادشاہوں، شہزادوں، راجوں، وڈیروں اور جاگیر داروں کی لکھوائی گئی تاریخ اور واقعات ہیں جسے بعد میں آنے والے تاریخ نویسوں اور مؤرخین نے بھی مزید تحقیق اور جستجو کے بغیر من و عن نقل کر دیا‘‘ آگے دیکھیے ”پنجاب بغاوت رپورٹ“ جسے انگریز نے 1857ء کے کچھ عرصے بعد مرتب کیا اور ساتھ ہی اپنے ایجنٹوں کے کارنامے اور شجرے ”پنجاب چیفس“ میں لکھے اور محفوظ کیے۔ پنجاب کے عوام نے انگریزوں کو نکالنے کے لیے شہروں، قصبوں اور دیہات میں بغاوتیں برپا کیں جسے انگریز کے ان غلاموں نے جو آج بھی پنجاب کی سیاست پر قابض ہیں، تاریخ کے صفحات سے مٹانے کی کوششیں کیں اور یہ تاثر پھیلایا کہ انگریز کی وفاداری میں پنجاب کے عوام بھی ان کے ساتھ شامل تھے۔ میرے فاضل دوست کے پسندیدہ کارل مارکس نے بھی 1857 ء کی جنگ آزادی پر جو دوسو صفحات لکھے تھے ان میں کئی جگہ اہل پنجاب کے کارناموں کا ذکر کیا ہے۔

ان دنوں پورے برصغیر میں انگریزوں کی 12 ڈویژن فوج تھی، جس میں سے 4 ڈویژن صرف ایک صوبہ پنجاب میں پنجابی حریت پسندوں کی طرف سےکی جانیوالی بغاوتوں کے سد باب کے لئے وقف تھے جو وقفے وقفے سے پھوٹ پڑتی تھیں۔ اسی طور پر برطانوی سامراج نے پنجاب میں اسلحہ سازی کا کوئی کارخانہ نہیں لگایا، نہ یہاں فوجی سازوسامان کے کوئی خاص ذخائر رکھے گئے۔ اس لئے کہ انگریز سامراج یہ خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا کہ پنجابی فوج یا غیر فوجی حریت پسندوں کے ہاتھ اسلحے کے ذخائر لگ جائیں اور ان کے علاقے میں اسلحہ سازی کا کوئی کارخانہ ہو جہاں سے بغاوت پھوٹ پڑنے کی صورت میں سول یا فوجی باغیوں کو اسلحے کی سپلائی جاری رہے۔ اس لئے کہ پنجابی سرفروشوں کی طرف سے مسلح بغاوت کا خطرہ انگریزوں کے دیس پنجاب پر غاصبانہ قبضے کے آخری لمحے تک موجود رہا اور جنگ ِ آزادی جو دہلی میں ستمبر 1857ء میں ختم ہوگئی تھی ‘ پنجاب میں یہ اپریل 1858ء تک جاری رہی۔

آزاد ہند فوج کی تشکیل میں سبھاش چندر بوس بنگالی جبکہ جنرل شاہ نواز اور جنرل موھن سنگھ پنجابی تھے۔ تحریک خلافت ہو، ریشمی رومال تحریک، رولٹ ایکٹ کے خلاف تحریک یا کوئی اور برطانیہ مخالف تحریک ‘ پنجابی حریت پسند پیش پیش رہے۔ احمد خان کھرل، سارنگ، مراد فتیانہ، نظام لوھار، بھگت سنگھ، اودھم سنگھ، مولانا ظفر علی خان، عبیداللہ سندھی، جنرل شاہ نواز، جنرل موھن سنگھ، کرنل احسان قادر اور ان جیسے دیگر آزادی کے متوالے یہیں سے اٹھے، خوشی خوشی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے اور مسکرا کر پھانسی کے پھندے گلے میں ڈالتے رہے۔

پنجابیوں کی انہی سرفروشانہ کارروائیوں کا انتقام لینے کی خاطر برطانوی سامراج نے آزادی دیتے وقت پنجاب کو تقسیم کر دیا۔ جس کے نتیجے میں پنجابیوں کو تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کے عذاب سے گزرنا پڑا، یہ لوگ 1950ء اور 1960ء کی دہائیوں میں آرام سکون سے جہازوں میں بیٹھ کر نہیں آئے تھے۔ نہ ہی انہوں نے ”پودینے کے باغات“ کے بدلے میں یہاں آ کر زرخیز زرعی زمینیں اور جائیدادیں لیں۔ اس قتل عام میں 10 لاکھ سے زائد پنجابی مارے گئے۔ ان کے گھر جلائے گئے۔ تقسیم کے وقت 99 فیصد سے زائد فسادات پنجاب میں ہوئے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ حقیقتاً یہ انگریز سامراج کا پنجابیوں سے ان کی مزاحمت اور مسلسل بغاوتوں کا خوفناک انتقام تھا۔ اگر کوئی بقراط یہ کہتا ہے کہ فرنگی راج میں پنجابیوں نے مزاحمت نہیں کی تو اس کو یہی مشورہ دیا جاسکتا ھے کہ؛ وہ معروف تاریخ دان پروفیسر عزیزالدین احمد کی کتاب ’’پنجاب اور بیرونی حملہ آور‘‘ کا مطالعہ کر لے۔ راجہ پورس سے لیکر بھگت سنگھ تک پنجاب کی سر زمین کے ایک ایک اِنچ پر مزاحمت کی ہے۔ وزیرستان کے فقیر ایپی اور بلوچستان کے میر چاکر اعظم کی سامراج مخالفت کو سلام……ہندو کا ساتھ دے کر اپنے نام کے ساتھ ’’گاندھی‘‘ کا ٹیکہ لگوانے اور گوروں کی بگھیوں میں جتنے والوں کو کوئی کہے بھی تو کیا! یوں بھی بڑا بھائی چھوٹوں کا خیال ہی رکھا کرتا ہے اور قیام پاکستان سے لے کر اب تک کر رہا ہے اور کرتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).