نوین جی حیدر۔ ایک فائٹر


نوین حیدر ایک فائٹر تھیں۔ وہ ایک ہمدرد انسان بہترین استاد اور دوستوں کی دوست تھیں۔ ان کا اپنے شاگردوں کے ساتھ صرف کلاس رومز تک کا رشتہ نہیں تھا کیونکہ اپنا بیشتر وقت وہ ان کی کونسلنگ میں صرف کرتیں اور پیشہ وارانہ زندگی میں بھی ان کی معاون اور مدد گار رہتیں۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ہمہ وقت اپنے شاگردوں میں گھری رہتی اور اپنا بیشتر وقت بھی ان ہی کے ساتھ گزارتی تھیں۔ وہ ایک زبردست موٹیویٹر تھیں اور اپنے شاگردوں کی چھو ٹی چھوٹی کامیابیوں پر ان کو بے حد داد دیا کرتیں تھیں۔ ایک استاد اور شاگرد کا ایسا رشتہ اب کم کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔

مجھے وہ دن اچھی طرح یاد ہے جب کراچی میں تاریخ اور عورت کے عنوان سے سے ایک کانفرنس منعقد ہوئی تھی اور اس میں مجھے بھی ایک مقالہ پڑھنا تھا۔ کانفرنس کا جب پہلا سیشن اختتام پذیر ہوا تو انہوں نے ہال میں باآواز بلند کہا آج صائمہ نے اپنا وننگ اسٹروک کھیلا ہے۔ ان کی طرف سے ایسی حوصلہ افزائی میرے لئے باعث مسرت تھی۔

ڈاکٹر نوین زمانہ طالب علمی سے ہی پروگریسو سیاست سے وابستہ ہو چکیں تھیں اور اپنی زندگی کے آخری لمحوں تک پروگریسو سیاست اور سوچ کے ساتھ ایک کمٹمنٹ کے ساتھ وابستہ رہیں۔ بے خوفی کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کیا کرتی تھیں۔ وہ کبھی مصلحت سے ہم بستر نہیں ہوئیں۔ یہی ان کا وہ وصف تھا جو انہیں اپنے ہم عصروں میں ممتاز بناتا تھا۔

ڈاکٹر نوین سیاست کو زندگی کا ایک جزو سمجھتی تھیں اور ساری زندگی انہوں نے عملی سیا ست کی۔ ڈرائنگ روم سیاست سے انہیں بے حد نفرت تھی اور وہ اپنے شاگردوں کو بھی عملی طور پر سیاست میں حصہ لینے کے لئے متحرک کرتیں تھیں۔

وہ یونی ورسٹی میں ٹیچر سوسائٹی کی ایک نہایت فعال اور سرگرم کارکن تھیں۔ چاہے یونی ورسٹی ایڈمنسٹریشن کے ساتھ ٹیچرز کے کوئی معاملات ہوں یا ایچ ای سی کی کنٹرولڈ پالیسیوں کے خلاف جنگ ہو۔ وہ ہمیشہ حقوق کی جنگ میں صف اول میں موجود رہیں۔

ایچ ای سی کی پالیسیوں کے خلاف اور اساتذہ کے حقوق کے لئے انہوں نے ہمیشہ ایک اصولی موقف اپنایا اور آخری دم تک اس پر ڈٹی رہیں۔

انسانی حقوق کے سرگرم کارکن ریاض احمد جب جبری طور پر گمشدہ کیے گئے تو ایسے کڑے وقت میں انہوں نے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس بلائی اور ان کی بازیابی کے لئے آواز اٹھائی۔

میڈم نوین جی حیدر کی موت نے ان کے چاہنے والوں دیرینہ دوستوں ہزاروں شاگردوں اور ساتھیوں کو سوگوار کر دیا ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے وہ جس دلیری اور ہمت سے اپنے حالات کا مقابلہ کر رہی تھیں اس کی مثال کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہ چومکھی لڑائی تھی جو انہوں نے لڑی اور سرخرو ہوئیں۔ ہراسمنٹ کے واقعہ کے بعد جن حالات کا میڈم نوین نے سامنا کیا اگر ان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو کب کا ہمت ہار چکا ہوتا۔

کراچی یونیورسٹی کی ہراسمنٹ کمیٹی نے جو رپورٹ پیش کی اس کا ذکر میں یہاں نہیں کروں گی لیکن اس کو چیلنج کرنے کا جو جرات مندانہ فیصلہ نوین جی حیدر نے کیا تھا وہ واقعی قابل رشک تھا۔ وہ جانتی تھیں اس کیس میں ان کا ساتھ دینے والے کم اور مخالفین تعداد میں زیادہ ہوں گے لیکن انہوں نے ساری مشکلات کے باوجود دوسروں کے لئے ایک مثال قائم کی اور یہ سکھایا اگر آپ سچ اور حق کے لئے آواز اٹھائیں گے تو یہ ممکن ہے کہ آپ کا کوئی ہم خیال نہ ہو، آپ کا ساتھ دینے والا کوئی نہ ہو لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ کے سچ کو بالآخر کوئی نظر انداز کر سکے۔

مجھے وہ دن اچھی طرح یاد ہے جب میں نے پاکستان اسٹڈی سینٹر میں بطور ریسرچ اسسٹنٹ کام کرنا شروع کیا تھا اور سینٹر کے سربراہ ڈاکٹر جعفر احمد نے میڈم نوین سے میرا تعارف کراتے ہوئے کہا تھا کہ یہ میڈم نوین ہیں سینٹر میں ہسٹری کی کلاسز لیتی ہیں۔ وہ پہلی ملاقات بہت مختصر تھی لیکن دل میں ان کا احترام اور پھر ان کا کرایا گیا تعارف دل میں گھر کر گیا۔

میں نے جب یہ سنا کہ میڈم نوین نے ایک استاد اور معروف شخصیت پر مبینہ ہراسمنٹ کا الزام لگایا ہے اور وی سی نے ایک کمیٹی بنا دی ہے اس پر میرے دماغ میں جو پہلا سوال آیا وہ یہ کہ سینٹر کی کسی اسٹوڈنٹ کے ساتھ اس نوعیت کا کوئی واقعہ کیوں کر پیش آ سکتا ہے؟

میڈم نوین نے اس واقعہ کی شکایت درج کرائی۔ جن صاحب پر یہ مبینہ الزام لگایا تھا ان کا ادبی مقام اور شہرت اپنی جگہ لیکن درست یا غلط اس حوالے سے ان کے بارے میں متضاد آرا پائی جاتی ہیں۔

جب یہ معاملہ سندھ محتسب کے پاس گیا اور وہاں اس کی سماعت شروع ہوئی تو میں بھی میڈم نوین کی جانب سے ایک گواہ کے طور پر پیش ہوئی اور اس ذلت کو پہلی دفعہ محسوس کیا جو میڈم نوین کئی مہینوں سے جھیل رہیں تھیں۔ اس روز جب سماعت ختم ہوئی اور ہم سندھ سیکرٹریٹ سے باہر نکلے تو میڈم نوین اور ثمینہ سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے بارہا میرا شکریہ ادا کیا اور ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آپ نے اپنے بہت سے دوستوں کو ناراض کر دیا ہے میری وجہ سے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں نے جس چیز کو درست جانا ہے وہی کیا ہے اگر میں دلی طور پر مطمئن نہ ہوتی تو آج آپ کے ساتھ اس جگہ نہ کھڑی ہوتی۔

ہراسمنٹ کیس نے میڈم نوین کے فولادی اعصاب پر واقعی ایک کاری ضرب لگائی اور پہ در پہ بیماریوں نہ انہیں گھیر لیا۔ کینسر جیسے موذی مرض سے آخر دم تک لڑتے ہوئے جس طرح سے انہوں نے لمحہ لمحہ اپنی موت کا انتظار کیا ہے تو ایسا تو کوئی اپنے کسی دیرینہ دوست کی آمد کا انتظار کرنے والا ہی کر سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).