وائرس بند کمرے میں پھیلتا ہے


کرونا کی دوسری لہر برطانیہ میں پوری طبی سفاکی کے ساتھ شہریوں کو گھائل کرتی نظر آتی ہے۔ لندن سے لوگ اپنا سامان سمیٹے بھاگ رہے ہیں۔ ریلوے اسٹیشن، ائرپورٹ اور سڑکیں تک مسافروں سے بھر چکی ہیں۔ دوسری لہر کا وائرس بھی پہلے کی نسبت بہت تیزی سے پھیلتا ہے اور زیادہ مہلک شکل اختیار کرتا نظر آتا ہے۔ دنیا کے بہت سے ملکوں کی طرح پاکستان نے بھی برطانوی پروازوں پر پابندی لگا دی ہے۔ شہر کے شہر ویران ہوئے جاتے ہیں۔

پھر یہ اتری ہے وبا
شہر بھی زندان ہیں

پاکستان میں بتائے گئے اعداد و شمار اگرچہ حوصلہ افزا ہیں مگر گھروں میں ہونے والی اموات پر جو پردہ پڑا ہوا ہے، حکومت اسے اٹھانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ یہاں تو آبادی کے اعداد و شمار پر مختلف ادارے متفق نہیں ہو پا رہے۔ اب یہ بات گنتی سے نکل کر مشرکہ مفادات کونسل کے پاس جائے گی جو بذات خود ”انفرادی“ مفادات کونسل کا کام کر رہا ہے۔

پاکستان میں ابھی تک لوگ اور حکومت کرونا کو زیادہ لفٹ نہیں کرا رہے۔ حکومتی پارٹی نے جب گلگت بلتستان میں اپنا آخری جلسہ کر لیا تو جلسے جلوسوں پر کرونائی پابندی لگا دی۔ اپوزیشن نے اس پابندی کو ہوا میں اڑا کر خالص پاکستانی ہونے کا ثبوت دیا۔ عوام بذات خود مارکیٹوں، ہوٹلوں اور چوراہوں میں وائرس کو ”آ بیل مجھے مار“ پکارتی نظر آتی ہے۔ حتیٰ کہ کرونا میں مبتلا مریض اپنا ٹیسٹ نہیں کرواتے۔ موت بھی واقع ہو جائے تو دل کا دورہ کہ کر لواحقین سے جان چھڑاتے ہیں۔

تازہ ترین بیان امریکہ پلٹ مراد علی شاہ نے دیا ہے۔ کہتے ہیں وائرس تو بند کمرے میں پھیلتا ہے اور بے نظیر کی برسی پر ہم کھلی جگہ جلسہ کرنے جا رہے ہیں۔ دس سال پہلے بے نظیر کو کھلے میدان میں بہیمانہ طریقے سے قتل کیا گیا تھا۔ اسی میدان میں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو خون میں نہلایا گیا تھا۔ ستر سالوں میں کوئی بھی چیز تو نہیں بدلی۔ بدلی ہے تو ملکی پیداوار بدلی ہے۔

لوگ کپاس اگانا چھوڑ گئے ہیں کہ کپاس کو کاٹن مافیا کھا گیا ہے۔ کسان سے کوڑیوں کے مول کپاس خریدی جاتی ہے اور کئی گنا منافع میں ملک سے باہر بیچ دی جاتی ہے۔ آج بھی کاٹن کسان کے گھر رل گئی ہے۔ مارکیٹ میں کپاس کا ریٹ نہیں لگ رہا۔ خوف کے سائے کپاس مارکیٹ پر لہرا رہے ہیں۔ گندم اب پیدا تو ہوتی ہے مگر کسان کو کچھ نہیں ملتا اور شہریوں کو آٹا بھی مہنگے داموں لینا پڑتا ہے۔ حکومت بہت ایمانداری سے ان مافیاز کو ملکی خزانے پر بٹھائے ہوئے ہے۔ یہ حکومت پہلے بحران پیدا کرتی ہے پھر بتاتی ہے کہ بحران کیوں آیا۔ پھر بحران پر کمیشن بنتے ہیں۔ کمیشن ایمانداری سے چوروں کی نشان دہی کرتی ہے اور پھر چوروں کو خلعت سے نوازا جاتا ہے۔ انعام و اکرام کے طور پر پہلے سے بڑی ذمہ داری عطا کی جاتی ہے۔ یوں ایک ہی بحران میں کئی بار ہمارے زخموں پر نمک چھڑکا جاتا ہے۔

آج وزیر اعظم نے وزرا کو صاف صاف بتا دیا ہے کہ اب آپ کو کارکردگی دکھانی ہوگی۔ یعنی کارکردگی دکھانے کا وقت آ گیا ہے۔ ساتھ ہی فرمایا ہے کہ حکومت ڈھائی ہزار ارب کی سبسڈی بجلی کی مد میں دے رہی ہے۔ صاف صاف کیوں نہیں کہتے کہ بجلی اور گیس، پٹرول کی قیمتیں بڑھانی ہیں۔ مہنگائی کا ایک نیا طوفان کرونا کے ہم قدم آنے والا ہے۔ کرونا سے اموات بڑھ رہی ہیں۔ ہمارے ہسپتالوں کی تیاری کیا ہے۔ پہلی لہر میں کئی عارضی ہسپتال بنائے گئے تھے وہ اب کدھر ہیں۔

ان ہسپتالوں پر جو خطیر رقم خرچ کی گئی تھی اس کا حساب کتاب کون دے گا۔ ابھی تو ہمارے بہترین ہسپتالوں میں بچے آکسیجن نہ ملنے پر دم توڑ رہے ہیں۔ پٹرول، بجلی اور گیس کے ساتھ ساتھ روٹی پانی کا ریٹ بھی بڑھ رہا ہے۔ ان دو چیزوں کے ساتھ ساتھ وزیروں مشیروں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ وزیراعظم آج کل ڈھونڈتے پھرتے ہیں، کوئی پی ٹی آئی یا اتحادی کا کوئی ممبر پارلیمنٹ ایسا نہ رہ جائے جو وزارت کا مزہ نہ چکھ سکا ہو۔ وزیر اعظم کا خیال ہے جتنے وزیر زیادہ ہوں گے ملک اتنی ہی ترقی کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).