وہ دل کہاں سے لاؤں


زیتون بدصورت نہیں تھی۔ صرف یہ کہا جاسکتا ہے کہ خوب صورت نہیں تھی۔ قدرت نے، قسمت نے حالات نے خوب صورت بیوی نہیں دی لیکن خوب صورت موقع ضرور دیا تھا۔ میں نے غفور سیٹھ کو شادی کے لیے ہاں کردی۔ میرے ماں باپ بھائی بہن کسی نے بھی شادی میں شرکت نہیں کی تھی۔ میں ایک رات میں کھوکھرا پار سے کلفٹن آ گیا تھا۔ زندگی پل کے اس جانب سے اس جانب بہت مختلف تھی۔ کسٹم میں کام کرنے والے میرے ایماندار باپ کو اس کا اندازہ ہی نہیں تھا۔ اگر اندازہ ہوتا تو وہ خود بھی عزت سے رہتے اور ہم کو بھی عزت سے رکھتے۔ اور اب تو میں نے کینیڈا کی شہرت بھی لے لی تھی۔ اسی کی ضروریات کے لیے مانٹریال گیا ہوا تھا۔ میرے سسر نے ہی اس کا انتظام کیا تھا۔

وہ ہمیشہ دو قدم آگے کھیلتے تھے۔ ان کا خیال تھا نہ جانے کراچی میں، پاکستان میں کب کیا ہو جائے، اپنا انتظام خود ہی رکھنا چاہیے۔ حالات تو بد سے بدتر ہی ہوتے جا رہے ہیں۔ کھوکھرا پار اور سعود آباد کی جن گلیوں میں، میں بے خوف و خطر گھوما تھا وہاں اب گولیاں چلتی ہیں۔ اسی اسی گز کے پلاٹوں میں بسے ہوئے چھوٹے چھوٹے گھروں میں انڈیا سے آئے ہوئے جاہل غریب لوگ تھے، مگر عزت سے رہتے تھے۔ اب یہ گھر دو دو منزل کے ہو گئے ہیں، لوگوں نے گلیوں میں ورانڈے بنا دیے ہیں اور پیچھے کی گندی گلیوں تک صحن بڑھ گئے ہیں۔

جہاں گھروں میں سائیکل نہیں تھی وہاں گلیوں میں اسکوٹر اور گاڑیاں کھڑی ہیں۔ گھروں پر ڈش انٹینا لگ گئے ہیں مگر گولیاں بھی خوب چلتی ہیں۔ میں اپنے والد کی موت پر بہت دنوں بعد جب اپنے گھر گیا تھا مجھے ایسا لگا تھا کہ ذاتی ترقیاں تو ہوتی رہی ہیں مگر علاقہ خراب ہو چکا ہے۔ اس تھرڈ کلاس دنیا میں زیادہ دیر تک نہیں ٹھہر سکا تھا۔ میری اپنی دنیا تھی، پل کے اس طرف ڈیفنس کی فرسٹ کلاس دنیا۔ میں شاید شراب کے نشے میں یہ بھی بھول گیا تھا کہ اس فرسٹ کلاس دنیا میں رہتا ضرور ہوں مگر کرتا ہوں سارے تھرڈ کلاس کام۔

وہ مسکرائے تھے ”مگر اس تھرڈ کلاس کام کے بعد اب تم فرسٹ کلاس دنیا کے شہری تو ہو گئے ہو۔ تھوڑے سے تھرڈ کلاس کام کر کے اگر فرسٹ کلاس میں آ جاؤ تو کون پوچھتا ہے۔“

شاید ان کی بات صحیح تھی۔ ہم دونوں ایک ساتھ ہنس دیے۔ پھر یکایک مجھے خیال آیا اور میں پوچھ بیٹھا کہ آخر چالیس سال تک آپ کراچی کیوں نہیں گئے اور اب کیوں جا رہے ہیں۔

”نہیں میں کراچی نہیں جا رہا ہوں، ہانگ کانگ جا رہا ہوں، دبئی سے جہاز بدل جائے گا اور اب کراچی میں ہے ہی کیا جس کے لیے جاؤں۔ اب تو میں نے سنا ہے کہ صرف لوگ ہیں شہر نہیں ہے۔“ شاید ان کی بات صحیح تھی۔ وہ رکے پھر خود ہی بولے تھے۔

”میں جب کراچی پہنچا تو صرف اٹھارہ سال کا تھا 1948 ء میں اپنے والد اور ماں کے ساتھ۔ بہن کی شادی پھوپھی زاد سے ہو گئی تھی اور ان کے پورے خاندان نے پاکستان نہ جانے کا فیصلہ کر لیا تھا، ہم لوگ کھاتے پیتے لوگ تھے۔ مجھے ابھی تک یاد ہے کراچی ائرپورٹ پر ایک پٹھان پولیس والا ملا تھا جس نے زور سے السلام علیکم کہا تھا۔ وہ پاکستان میں پہلا سلام تھا جو میرے ذہن پر چپک کر رہ گیا ہے۔ پھر تھوڑے دنوں میں ہی سولجر بازار کے علاقے میں ایک ہندو کا چھوڑا ہوا بڑا سا مکان ہم لوگوں کو مل گیا تھا۔ میں تو پہلے دن سے ہی کراچی کی محبت میں گرفتار ہو گیا تھا۔

چھوٹا سا صاف ستھرا شہر جہاں درختوں کا سایہ نہیں تھا۔ مٹی کی پھوار تھی اور دلوں کی گرمی تھی۔ مجھے یاد ہے ہم لوگ اپنے کسی عزیز سے ملنے ٹینری روڈ پر بہار کالونی گئے تھے اور چاکیواڑے سے گزرتے ہوئے زندگی میں پہلی دفعہ ہم نے مکرانی لوگ دیکھے تھے۔ کالے چہرے، گھنگریالے بال اور سفید دانت۔ وہ لوگ مہاجروں کو پناہ گیر کہتے تھے۔ کچھ بہاریوں نے جس کا بہت برا منایا تھا۔ مگر یہ بعد میں پتا لگا تھا کہ مکرانی زبان میں پناہ گیر بھی ایک معزز لفظ ہے۔ اس وقت کا کراچی ایک طرح کا melting point تھا۔ ساری دنیا کے لوگ کراچی آرہے تھے۔ ہر طرح کی صلاحیت والے، ہر طرح کے کام کرنے والے مگر جلدی سب کچھ کھو گیا تھا۔

معزز بہاریوں، بارسوخ میمنوں، سمجھ دار حیدرآبادیوں نے اپنے اپنے علاقے کے لوگوں کے نام پر کالونیاں اور سوسائٹیاں بنائیں جہاں جاننے والے والوں کو چھوٹے چھوٹے پلاٹ دیے اور اپنے خاندانوں کو عزیزوں کو ایکڑوں کے حساب سے نوازا۔ اور غریب آدمی لیاری اور کھارادر میں ہی رہ گیا۔ بے ایمانی جب اوپر سے شروع ہوئی تو سلسلہ دور تک چلتا چلا گیا تھا۔ میرے والد شریف انسان تھے، وہ پاکستان کی اس ابتداء پر کڑھتے رہتے تھے، تم کو تو شاید پتا نہیں ہو گا کہ کراچی میں پرنسس اسٹریٹ کہاں ہے؟ میں تمہیں بتاتا ہوں سول ہسپتال کے پاس پرنسس اسٹریٹ ہے اسی پر کراچی یونیورسٹی تھی جہاں ہندو، پارسی، عیسائی اور مسلمان سب پڑھتے تھے اور پڑھانے والوں میں بھی ان کی بہت ساری تعداد تھی۔ میرے والد صاحب نے وکالت شروع کردی تھی۔

یونیورسٹی میں اچھا وقت گزرتا تھا۔ مجھے یاد نہیں ہے کہ وائس چانسلر کون تھا مجتبیٰ کریم، حلیم یا مرزا اختر حسین، مگر جو بھی تھا یونیورسٹی میں پڑھائی ہوتی تھی۔ سخت محنت کرنی پڑتی تھی اور اس کے بعد ہم خوب گھومتے تھے۔ کیفے جارج یا فریڈرک کیفے ٹیریا میں خاص قسم کی پلیٹوں میں جو ایک کے اوپر ایک نتھی ہوتی تھیں اور ان میں پیٹیز اور پیسٹری پیش کی جاتی تھی۔ یہ تو ایک خاص قسم کی عیاشی ہوتی تھی۔ اس کے بعد کیپٹل، رٹز، پیراڈائز اور پیلس سینما میں فلمیں دیکھی جاتی تھیں۔ شام کے وقت وکٹوریہ روڈ اور الفنسٹن اسٹریٹ پر جب ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چلتی تھیں تو لگتا تھا کہ قدرت کا سارا حسن زمین پر اتر گیا ہے۔ جاوید صاحب بولتے بولتے مسحور سے ہو گئے تھے۔ مجھے ایسا لگا تھا جیسے ان کے دل میں بہار اور دل کے اوپر کراچی ہے انہوں نے رک کر آخری گھونٹ سے اپنا گلا صاف کیا تھا اور میں نے ان کے لیے ایک اور جام منگایا تھا۔

وہ تھوڑے سے مسکرائے پھر کہا تھا کہ میں نے زندگی کا پہلا بیئر کراچی میں ہی پیا تھا۔ میرے ساتھ بمبئی کا ایک لڑکا تھا۔ عبدالرحیم نام تھا اس کا ۔ دلیپ کمار جیسی شکل تو نہیں تھی اس کی لیکن بال چال اور ڈھال بالکل دلیپ کا ہی تھا۔ اب تو ٹورنٹو میں بڑی جائیدادیں ہیں اس کی اور وہاں بھی رچ بس گیا ہے، وہ مجھے بیئر پلانے کے چکر میں رہتا تھا اور میں نہ نہ کرتا تھا۔ ایک دن صدر کے پرشین ریسٹورنٹ میں پیٹیز کھانے کے بعد ہم لوگ گپیں ہانگ رہے تھے کہ رحیم نے کہا چلو تمہیں بیئر پلا لاؤں اور نہ جانے میں کیوں راضی ہو گیا تھا۔

فریڈرک کیفے کے پیچھے ایک بار تھا۔ اچھا سا نام تھا اس مگر سامنے سڑک پر ہونے کی وجہ سے میں گھبرا گیا تھا کہ کوئی اندر جاتے ہوئے دیکھ نہ لے۔ رحیم نے فوراً اس کا بھی حل نکال لیا تھا اور مجھے لے کر ہوٹل ایکسلسیئر آ گیا تھا۔ یہ میرے زمانے کے کراچی کا موڈرن ہوٹل تھا۔ بیئر کی دو ٹھنڈی بوتل اور اس کے بعد وکٹوریہ روڈ پر چہل قدمی کرتے ہوئے فریئر گارڈن تک آنا کسی خواب کی طرح یاد ہے۔ پھر ایسی کئی شامیں گزریں جن پر کی کئی دن قربان کیے جا سکتے ہیں۔ کراچی کے جن چھوٹے چھوٹے باروں میں جانا ہوتا تھا ان کی اپنی زندگی تھی۔ شام کے وقت لوگ اپنا غم غلط کرتے تھے، سڑکوں پر گولیاں نہیں چلاتے تھے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4