ایورسٹ نئی بلندیوں پر


ماؤنٹ ایورسٹ اس کرۂ ارض کا سب سے بلند پہاڑ ہے۔ دنیا کا یہ بلند ترین مقام، نیپال اور تبت (چین) کی سرحد پر واقع ہے۔ اور یہ دنیا کے بلند ترین پہاڑی سلسلے، ہمالیہ کا ایک حصہ ہے۔ نیپال بلندو بالا پہاڑوں کی دولت سے مالا مال ایک خوبصورت ملک ہے۔ دنیا کے پہلے دس بلند پہاڑوں میں سے آٹھ پہاڑ اسی خوبصورت دھرتی کے سینے پر ایستادہ ہیں۔

انیسویں صدی ( 1865 ) میں دنیا کے اس بلند ترین پہاڑ کا نام جارج ایورسٹ کے نام پر رکھا گیا جو کہ کالونیل دور میں پہلے سروئیر جنرل آف انڈیا تھے۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ جارج ایورسٹ نے خود کبھی اس پہاڑ کو نہیں دیکھا تھا۔ ان کے اس خطے میں کی گئی خدمات کو سامنے رکھتے ہوئے روئل جیوگرافک سوسائٹی نے ان کا نام تجویز کیا تھا۔

ایورسٹ نام رکھنے سے پہلے اس ہمالیائی پہاڑ کو Peak XV کے نام سے جانا جاتا تھا اگرچہ تبتی زبان میں اس کا نام بہت پہلے سے موجود تھا جو کہ Qomolangma ہے اور جس کا مطلب Holy Mother ہے۔ 1960 کے عشرے میں نیپالی گورنمنٹ نے یہ محسوس کرنا شروع کیا کہ اس پہاڑ کا کوئی نیپالی نام بھی ہونا چاہیے۔ تب بابو رام اچاریہ، جو کہ ایک نیپالی تاریخ دان تھے، نے اس پہاڑ کو ایک نیپالی نام دیا جو کہ Sagarmatha ہے جس کا سنسکرت میں مطلب ہے Peak of Heavens۔

ایک ہندوستانی ریاضی دان اور سروئیر، رادھاناتھ سکدر نے سب سے پہلے 1852 میں ایورسٹ کی دنیا کی بلند ترین چوٹی کے طور پر نشاندہی کی۔ آپ نے ٹرگنومیٹری کی مدد سے ڈیڑھ سو میل دور سے اس کی پیمائش کی کیونکہ اس وقت نیپال غیر ملکیوں کو اپنے ہاں نہیں جانے دیتا تھا۔ اس کے ایک صدی بعد، 1955 میں ایک انڈین سروے پہاڑ کے نزدیک سے کیا گیا اور یوں اس پہاڑ کی اصل بلندی دنیا کے سامنے آئی جو کہ 8848 میٹر یا 29,029 فٹ تھی۔ 1975 میں چین کی حکومت نے بھی سروے کرنے کے بعد اس پیمائش کی تصدیق کی۔ ان دونوں پیمائشوں میں ایورسٹ کے اوپر جمی برف کی چوٹی تک پیمائش کی گئی تھی اور پھر یہی حتمی بلندی تصور کی جاتی رہی۔

اکیسویں صدی کے آغاز میں چین نے برف کے نیچے دبی اس پہاڑ کی اصل چوٹی کی پیمائش کرنے کی مہم شروع کی اور کہیں مہینوں کی کوشش کے بعد یہ مہم مکمل ہوئی اور یوں اس پہاڑ کی جو بلندی (برف کے بغیر) سامنے آئی وہ 8844 میٹر یا 29,017 فٹ تھی یعنی کہ پرانی پیمائش سے چار میٹر کم۔ یہاں سے چین اور نیپال کے درمیان ایک بحث کا آغاز ہوا کہ آیا اس پہاڑ کی بلندی برف والی چوٹی تک ہونی چاہیے یا برف کے نیچے دبی پہاڑ کی اصل چوٹی تک۔ نیپال کی حکومت نے 2012 میں بی بی سی کو بتایا کہ ان پر چین کی طرف سے بہت پریشر ہے کہ ہم چین کی پیمائش کو تسلیم کر لیں اس لیے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنے طور پر ایورسٹ کی بلندی کو ماپنے کا جلد آغاز کریں گے تاکہ یہ جھگڑا ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔

ایورسٹ کا پہاڑ پچاس سے ساٹھ ملین سال قبل، انڈین اور یوریشین ٹیکٹونک پلیٹوں کے ٹکراؤ کے نتیجے میں وجود میں آیا تھا۔ جغرافیائی سروے یہ بتاتے ہیں کہ ٹیکٹونک پلیٹوں کی حرکت اور اس کے نتیجے میں آنے والے زلزلے پہاڑ کی اونچائی میں کچھ کمی بیشی لا سکتے ہیں۔ جب نیپال میں 2015 کا شدید زلزلہ آیا تو وہاں کی حکومت نے بھی ایورسٹ کی پیمائش کرنے کا عمل جلد شروع کرنے کا اعادہ کیا۔ اس مقصد کے لیے چار نیپالی سرویئرز نے دو سال کی ٹریننگ کی۔

یوں نیپال نے پہلی دفعہ اپنے سرویئرز کی مدد سے ایورسٹ کی پیمائش پچھلے سال شروع کی اور یہ سرویئرز پہاڑ کی چوٹی تک گئے اور اس عمل کو کامیابی سے مکمل کیا۔ چین کے سرویئرز نے اس سال مئی میں پیمائش کا عمل مکمل کیا۔ دونوں ممالک کے سرویئرز نے پہاڑ کی اونچائی معلوم کرنے کے لیے گلوبل پوزیشننگ سسٹم (GPS) اور ٹرگنومیٹرک فارمولے استعمال کیے۔

پچھلے سال چین کے صدر کے دورۂ نیپال کے موقع پر کیے گئے معاہدے کے تحت دونوں ممالک نہ صرف ان پیمائشوں کا اعلان مشترکہ طور پر کریں گے بلکہ باہی رضامندی سے کسی ایک پیمائش پر متفق ہو جائیں گے۔ چنانچہ اسی ماہ دسمبر میں دونوں ممالک نے مشرکہ اجلاس کے بعد ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جس کے مطابق ایورسٹ کی نئی اونچائی 8848.86 میٹر ہے جو کہ پرانی پیمائش سے 86 سینٹی میٹر یا 2.8 فٹ زیادہ ہے۔ اور یہ چین کی سابقہ کی گئی پیمائش سے چار میٹر سے بھی زیادہ اونچی ہے۔ اور یوں ہم کہ سکتے ہیں کہ دنیا کا یہ بلند ترین مقام تھوڑا سا مزید بلند ہو گیا ہے۔

میرے خیال میں اس خطے کی جیو پولیٹیکل صورتحال نے اس سارے معاملے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ نیپال ایک ایسا ملک ہے جس کی سرحدیں تین اطراف سے ہندوستان سے ملتی ہیں اس لیے نیپال ہمیشہ سے ہندوستان کے زیر اثر رہا ہے۔ اور شاید یہی عنصر اسے چین کے ساتھ زیادہ قربت سے روکے ہوئے تھا۔ لیکن اب خطے کی بدلتی صورتحال میں نیپال اور چین کی قربتیں بڑھتی جا رہی ہیں اور ایورسٹ کی نئی بلندی پر دونوں کا متفق ہو جانا اس کی ایک بڑی مثال ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).