دہشت گردی کی تعریف اور ہمارا معاشرہ


ویسے تو ہر چیز کی ایک واضح تعریف کا تعین اس چیز کی تفہیم کے لئے ضروری ہوتا ہے لیکن تعریف کی اہمیت تب کئی گنا بڑھ جاتی ہے جب بات قانون کے تناظر میں ہو، جب کسی شے کی تعریف ہر کچھ عرصے پر بدل دی جائے تو اس بات کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دراصل اس کی کوئی تعریف ہے ہی نہیں اور اگر یہ کسی قانونی اصطلاح کے ساتھ ہو تو اس سے خطرناک کوئی چیز نہیں۔

ہمارے وطن عزیز میں 1997 میں انسداد دہشت گردی ایکٹ منظور ہوا جو عرف عام میں اپنے مقفف ’7 اے ٹی اے‘ سے جانا جاتا ہے، اس کا اطلاق ان جرائم پر ہوتا ہے جو کسی سیاسی، مذہبی یا مسلکی نظریے سے اپنے مذہبی، سیاسی یا مسلکی مخالف فرد یا گروہ کو تباہ کرنے کے لئے ہو، اس کے علاوہ اس قانون کا اطلاق ان جرائم پر بھی ہوتا ہے جو سرکار کے خلاف ہوں۔ ابتداً اس دفعہ کا اطلاق صرف ایسے ہی جرائم پر ہوا کرتا تھا جو اوپر بیان کیے گئے مگر پھر نہ جانے کس منطق اور کس وجہ سے ایسے جرائم بھی جو نہ تو کسی سیاسی، مذہبی، مسلکی اکائی کے خلاف کیے گئے تھے نہ ہی وہ سرکار کے خلاف تھے، ان پر اس دفعہ کا اطلاق ہونے لگا۔

مثلاً کسی شخص نے کسی دوسرے شخص کو ذاتی غصے اور جذبے کے تحت ہلاک کر دیا اور کیونکہ ذرائع ابلاغ کو اس قتل میں بہت زیادہ ظلم نظر آیا اور یہ قتل کسی وجہ سے روزانہ ہونے والے سیکڑوں قتلوں سے مختلف معلوم ہوا تو ان پر دہشت گردی کی دفعات لگا دی گئیں۔ (مثلاً اسماء نواب کیس، شاہ زیب قتل کیس) پھر بات یہاں پر ہی نہیں رکی کہ اپنی پسند کے جرائم کی ”شاپنگ“ کر کے ان پر یہ دفعہ لگائی جائے۔ پھر دہشت گردی کی تعریف میں مزید چند جرائم کا اضافہ کر دیا گیا جن میں اغوا برائے تاوان اور تیزاب گردی شامل ہیں۔ غیرت کے نام پر قتل بھی دہشت گردی ہے۔ چند سال قبل سندھ حکومت نے اسٹریٹ کرائم کو بھی دہشت گردی کے زمرے میں لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ کسی نابغہ روزگار نے ایک ٹی وی کے ٹاک شو میں یہ مشورہ بھی دیا تھا کہ قومی احتساب بیورو کے مقدمات میں بھی کیوں نہ دہشت گردی کی دفعہ ’7 اے ٹی اے‘ لگا دی جائے۔

یہ بڑی ہی خطرناک روش ہے۔ جرائم کبھی بھی خوشگوار شے نہیں ہوتے، ہر جرم ہی معاشرے کے قواعد اور ضوابط سے انحراف ہی کی ایک صورت ہوتا ہے تو پھر یہ کہنا کہ کوئی جرم زیادہ بڑا ہے، درست ہو سکتا ہے مگر کیا وہ جرم بڑا ہو جانے سے دہشت گردی بن جاتا ہے؟ اور سوال یہ ہے کہ اگر دہشت گردی کی تعریف یوں ہی ہر دن پھیلتی رہی تو کیا ساری ہی تعزیرات بالآخر دہشت گردی کی دفعہ ’7 اے ٹی اے‘ کا ایک ضمنی دم چھلا ہی بن کر نہ رہ جائیں گی؟

جب بھی کسی بھی جرم میں یہ دفعہ ’7 اے ٹی اے‘ لگا دی جائے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ یہ مقدمہ اب سیشن کورٹ میں نہیں چلے گا بلکہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں سماعت ہو گا اور اس میں جس قدر بھی سزا ہو گی اس میں قانون کے مطابق کوئی معافیاں یا رعایتیں نہیں ملیں گی۔ اس جرم کی سزا ہونے کی صورت میں اپیل تو ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں ہی ہو گی۔ اب ظاہر ہے کہ اگر اپیل کا حق ہے اور اپیل ہائر اور سپریم کورٹ میں ہی سنی جائے گی تو پھر فرق اسی کو پڑے گا جو یا تو اپیل نہ کرے یا اس کی اپیل ہر برتر عدالت سے بھی مسترد ہو جائے۔

جرائم کی سزاؤں کے تعین کا اختیار تو منتخب اداروں کو حاصل ہے مگر ظاہر ہے کہ ہر جرم کو گھسیٹ کے دہشت گردی کے زمرے میں لے آنے سے دراصل خود دہشت گردی بڑا عام سا جرم معلوم ہونے لگتی ہے۔ اگر اغواء برائے تاوان بھی دہشت گردی ہے اور کوئی ذاتی تناؤ کے نتیجے میں ہونے والا قتل بھی دہشت گردی ہے تو پھر بم دھماکہ کرنا یا کسی مخالف مذہبی گروہ پر گولیاں برسانا بھی تو عام ہی معلوم ہو گا۔ جب موبائل اسنیچنگ بھی دہشت گردی ہے تو پھر اصل دہشت گرد بڑی حد تک اس قانون سے De۔ sensitize ہو جائے گا۔

دراصل ہمارے وطن کے نابغے اس حقیقت سے بے بہرہ نہیں کہ قوانین کا مقصد مثال قائم کرنا ہوتا ہے اور مثال صرف اور صرف جب ہی ڈراتی ہے جب وہ بہت کم نظر آئے۔ جو شے کثرت سے ہو وہ کبھی عبرت کا باعث نہیں بنتی۔ وہ تو عام سی چیز بن جاتی ہے۔ جب ہر جرم ہی رفتہ رفتہ دہشت گردی کے ہی زمرے میں آ جائے گا تو پھر دہشت گردی خود ہی کون سی عبرت ناک سزا کی حامل شے رہ جائے گی؟

ایک اور خوفناک عنصر جو ہر جرم کے لئے سخت سزا تلاش کرنے کی روش میں پوشیدہ ہے وہ یہ کہ ہمارا معاشرہ ہر قبیح عمل کو صرف اور صرف تعزیرات کے ذریعے روکنا چاہتا ہے۔ ہر کام صرف ڈنڈے، لاٹھی اور طاقت کے ذریعے سے کرنے، ہر مثال کو محض جبر کی مثال بنانے کی یہ روش دراصل ایک غیر انسانی معاشرے کو جنم دے گی۔ صرف طاقت سے ڈرا ہوا معاشرہ طاقت کے مرکز کے کمزور ہونے پر بہت بری طرح پھٹتا ہے کہ جس کی مثال سابق سوویت یونین ہے۔ معاشرے سزاؤں سے نہیں اخلاقیات سے سدھرتے ہیں مگر یہ سمجھنا ہمارے نابغوں کے بس کی بات کہاں؟ ان کا بس چلے تو سارے معاشرے پر ہی ’7 اے ٹی اے‘ لگا دیں کیونکہ دہشت گردی کی تو کوئی تعریف بچی ہی نہیں کیونکہ کسی بھی عمل کو دہشت گردی قرار دیا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).