بیٹیاں نعمت ہیں


میرا ایک کالج کے وقت کا دوست جس کی شادی کو تیس سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ بقول اس کے وہ اپنی گھریلو زندگی سے بڑی حد تک مطمئن ہے۔ پروردگار نے اس کو زندگی کی ہر آسائش اور نعمت سے نواز رکھا ہے سوائے بیٹی جیسی نعمت کے جس کی کمی اس کو کبھی کبھار افسردہ کردیتی ہے۔ لیکن وہ مالک دوجہاں سے گلہ نہیں کرتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ بیٹیاں ہمیشہ نصیب والوں کو ملتی ہیں۔ یہ قدرت کا نظام ہے اور انسان اس کے آگے بالکل بے بس ہے۔

وہ اپنے آنگن میں اچھل کود کرتی بچیوں کو دیکھنے کی حسرت میں مبتلا رہتا ہے۔ لیکن اپنی قسمت سے شاکی نہیں ہوتا۔ ہماری سوسائٹی کے دستور ہی نرالے ہیں۔ کسی کو بیٹیوں کے نہ ہونے پر ملال ہے اور کوئی اوپر نیچے بیٹیوں کی پیدائش پر افسردہ دکھائی دیتا ہے۔ ہم ناشکرے لوگ جو ٹھہرے جو کسی بھی حال میں قناعت نہیں کرتے۔

بیٹی جب تک اپنے ماں باپ کے گھر پر ہوتی ہے تو شہزادیوں کی طرح زندگی گزارتی ہے۔ نہ اسے کوئی طعنے دیتا ہے اور نہ تکلیف پہنچاتا ہے۔ سارے گھر والے اس سے پیار کرتے ہیں۔ وہی بیٹی جب بیاہ کر پرائے دیس روانہ ہوتی ہے تو اپنے مقدر کا لکھا پاتی ہے۔ کہیں خوشی اور راحتیں اور کہیں دکھ اور اذیتیں اس کی قسمت میں لکھ دی جاتی ہیں۔

ٹی وی پر چلنے والے بعض ڈراموں میں کسی کردار کی ایک یا دو بیٹیاں دکھائی جاتی ہیں۔ جو اپنے ماں باپ کی خدمت خاطر میں مگن رہتی ہیں۔ جب وہ دفتر یا کسی اور کام سے تھکا ہوا واپس گھر میں داخل ہوتا ہے تو وہ دوڑ کر اس کے پاس پہنچ جاتی ہیں۔ ایک اس کے ہاتھ سے بیگ تھام لیتی ہے اور دوسری لپک کر پانی کا گلاس لے آتی ہے۔ ابو پانی پی لیں، میں چائے لاتی ہوں۔ دوسری بھاگ کر کچن میں گھس جاتی ہے۔ ابو آپ کا سر دبا دوں۔ ایک باپ کے پیچھے بیٹھ کر اس کے سر اور کندھوں کا مساج کرنے لگ جاتی ہے۔

یہ زندگی کے رنگ اور خوبصورتی ہے۔ جو کسی کسی کو عطا ہوتی ہے۔ اور کوئی قسمت کا مارا اس سے محروم رہ جاتا ہے۔ اپنی بیٹیوں کو اپنے اردگرد دیکھ کر کام سے تھکے ہارے باپ کی ساری تھکاوٹ لمحوں میں ختم ہوجاتی ہے۔ وہ تتلیوں کی طرح اس کے آس پاس منڈلانے لگتی ہیں اور ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اپنے بابل کی خاطر مدارت میں جت جاتی ہیں۔

پاپا میری کاپیاں لائے ہو یا بھول گئے ہو چھوٹی مچل کر بولتی ہے۔ پاپا کو تنگ مت کرو۔ اماں اسے پیار سے ڈانٹی ہے تو وہ مسکرا کر بیوی سے مخاطب ہوتا ہے۔ میری گڑیا رانی کو کیوں ڈانٹ رہی ہو۔ یہ تو میرے جگر کا ٹکڑا ہے۔ میرے آنگن کی نازک سی چڑیا ہے۔ گھر میں جو رزق آتا ہے وہ اسی ننھی پری کی قسمت کی وجہ سے عرش والا عطا فرماتا ہے۔ اسی طرح ہنسی مذاق میں دن ڈھل جاتا اور رات کی سیاہ چادر ہر شے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی۔

دونوں میاں بیوی اپنے کمرے میں سونے کے لئے چلے جاتے اور اپنی لاڈلی بیٹیوں کے اچھے مستقبل کو لے کر سوچوں میں مگن ہو جاتے۔ بابل پلنگ پر لیٹ کر رشتوں کی تلاش سے لے کر جہیز کی خریداری تک جیسے کٹھن مراحل کے بارے میں سوچ سوچ کر ہلکان ہونے لگتا۔ اگر لڑکے والے لالچی ہوئے تو زیادہ رقم کا بندوبست کیسے ہوگا۔ جب کہ ماں کی سوچ کا محوریہ ہوتا کہ کیسا رشتہ ملے گا۔ لڑکی کی ماں کیسی ہوگی۔ دولہا کے کتنے بہن بھائی ہوں گے۔

وہ کام کیا کرتا ہوگا اور اس کی عادتیں کیسی ہوں گی۔ ہماری ناز و نعم سے پلی بیٹی کو خوش بھی رکھ سکے گا یا نہیں۔ وہ شادی کی پہلی رات کو ایک گھبرو مرد کا کیسے سامنا کرسکے گی۔ ماں کو یہ سوچ کر ہی جھرجھری آجاتی۔ اسی فکر اور پریشانیوں میں مبتلا دونوں نیند کی گہری وادی میں گم ہو جاتے۔ خواب میں اپنی پیاری بیٹی کو شہزادیوں کی طرح زندگی گزارتے دیکھ کر ان کی خوشی کی انتہاء نہ رہتی۔ لیکن جب وہ صبح نیند سے بیدار ہوتے تو پریشانیوں اور سوچ کا ایک نیا دن طلوع ہو چکا ہوتا۔

بیٹی کے والدین کسی نہ کسی طرح قرض اٹھا کر اپنی پیاری بیٹی کو پیا دیس رخصت کردیتے ہیں۔ ایک نئے اور دشوار گزار سفر پر جس کے راستے میں پھول بھی ہوسکتے ہیں اور کانٹے بھی اور یہ اس کا مقدر ہوتا ہے۔ اس کا مجازی خدا اور اس کا سسرال اب اس کی نئی منزل ہے۔ جہاں اس نے ساری عمر رہنا ہے۔ ساس سسر دیور اور نند کی صورت میں نئے رشتے اس کی زندگی میں شامل ہو جاتے ہیں۔ جب وہ اپنے مجازی خدا کا سہاگ رات کو سامنا کرتی ہے تو وہ رات اس کی اچھی اور پرسکون زندگی کی نوید بھی بن سکتی ہے اور نہ ختم ہونے والے دکھوں کا آغاز بھی۔

اس کے مقدر میں اگر ایک نفیس اور ہمدرد جیون ساتھی لکھ دیا جائے تو جو خواب اس نے اپنے حسین مستقبل کے لئے دیکھ رکھے ہوتے ہیں وہ ان کی تعبیر پا لیتی ہے۔ بدقسمتی سے اکثر اوقات ایسا نہیں ہوتا۔ خواب ہمیشہ خواب ہی رہتے ہیں۔ ان کی تعبیر قسمت والیوں کو ملتی ہے۔ شادی کی پہلی رات کا آغاز ایک ایسے شخص کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے جو شراب کے نشے میں دھت ہو کر اس کا گھونگھٹ اٹھائے جس کے منہ کی گندی بدبو اس کے حسین خوابوں کو کرچی کرچی کردے۔

یا کوئی ادھیڑ عمر شخص اپنے تین عدد بچے شادی کی پہلی رات اس کے حوالے کر کے ان کی تربیت اور خاطر تواضع کا نادر شاہی حکم بھی صادر کر سکتا ہے۔ اس قسم کی ازدواجی زندگی کے بارے میں اس نے خواب میں بھی تصور نہیں کیا ہوگا۔ ایک شرابی شوہر یا تین بچوں کے باپ کے ساتھ ساری زندگی گزارنا کتنا کٹھن مرحلہ ہے اس کا تصور کرنا بھی محال ہے۔

یہ ہر دوسرے گھر کی کہانی ہے۔ دکھوں، پریشانیوں اورغموں میں لپٹی ہوئی اور کبھی نہ ختم ہونے والی داستان جس کا انجام المناک ہوتا ہے۔ ظالم سماج دنیاوی لالچ اور حرص میں آ کر بہو جیسے انمول رشتے کو کہیں آگ میں جلا دیتا ہے اور کہیں خودکشی پر مجبور کردیتا ہے۔ اپنی بیٹی کو عزت اور پیار تو دیا جاتا ہے لیکن پرائی بیٹی جو بہو کے روپ میں اس کے آنگن میں اترتی ہے قابل نفرت ٹھہرتی ہے۔ یہ ہمارے پاکستانی معاشرے کی کہانی ہے۔

بچے دیر سے پیدا ہوں یا لڑکی بانجھ ہو، جہیز کم لائے یا سامان برینڈڈ نہ ہو۔ اس کا رنگ سانولا ہو یا قد چھوٹا ہو۔ وہ گھریلو کام کاج میں تھوڑی سی بھی کوتاہی کردے تو ساس اور نندوں کے طعنوں اور کوسنوں کا سامنا کرنا اس کا نصیب بن جاتا ہے۔ بقول ایک مصنفہ کے پردہ بکارت کا ہونا یا نہ ہونا بھی کسی معصوم اور پاکباز لڑکی کی زندگی کا روگ بن جاتا ہے اور ایک معصوم جان ناکردہ گناہ کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔ کہیں موت اور کہیں طلاق اس کا مقدر بنتی ہے۔

زمانے کی پست سوچ اور جاہلیت کی وجہ سے اس کا جینا حرام کر دیا جاتا ہے۔ یہاں میں نہایت معذرت کے ساتھ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستانی معاشرے میں بسنے والے خواہ کتنے ہی پڑھے لکھے کیوں نہ ہوں۔ وہ اپنی گھریلو زندگی میں بہو کو بیٹی جیسا مقام نہیں دیتے۔ اور وہ محترم مصنفین جو خواتین کے حقوق پر صفحے کے صفحے کالے کر دیتے ہیں ان کا اپنا حال بھی پتلا ہو سکتا ہے۔ ان کے گھر کی بہو بھی تکلیف میں ہو سکتی ہے۔ ان سب کے لئے میرا ایک سوال ہے کہ کیا وہ اپنی ذاتی زندگی میں بیٹی اور بہو کو ایک آنکھ سے دیکھتے ہیں؟ یا دونوں رشتوں کے لیے انہوں نے مختلف پیمانے یا معیار مقرر کر رکھے ہیں۔

جب تک ہم سب ماں بیٹی بہن اور بہو کو ایک نظر سے نہیں دیکھیں گے۔ تمام رشتوں کو برابر کی عزت اور احترام نہیں دیں گے۔ اس وقت تک انسانیت کا حق ادا نہیں ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).