اسی سالہ سی ای او ، 70 برس کا ٹی بوائے اور ماہرہ خان


اکیسویں صدی کی پہلی دہائی کے آخری ماہ و سال کی بات ہے کہ دفتر میں کام کرتے ہوئے دیر ہو گئی اور دیر بھی کچھ زیادہ ہی ہو گئی کہ سیکورٹی گارڈ کو پوچھنا پڑا کہ جناب کھانا ادھر ہی کھائیں گے تو آپ کے انتظام کر لوں۔ ابھی کام میں مصروف ہی تھا کہ کمپنی کے سی ای او صاحب گھر جانے کے لئے نکلے۔ مجھے دیکھ کے کہنے لگے برخوردار اس وقت تک کیوں رکے ہوئے ہو تو بتانا پڑا کہ کچھ ضروری کام مکمل کرنے کی غرض سے آج دیر ہو گئی۔ تو وہ کچھ ہمت افزائی کرتے ہوئے ’کندھا تھپتھپا کے چلے گئے۔ میرے دل میں ان کی عزت بڑھ گئی کہ سی ای او صاحب کتنے محنتی آدمی ہیں جو 80 برس کی زائد عمر ہونے کے باوجود بھی اتنی دیر تک دفتری امور دیکھتے ہیں۔

جانے ان کی تھپکی میں کوئی بات تھی یا قدرت کو کوئی رمز سمجھانی مقصود تھی کہ دفتر میں دیر تک رکنا معمول ہی بننے لگا۔ کام سمیٹتے سمیٹتے جب طبیعت بکھرنے لگتی تو کھابہ خانوں کا رخ کرتے اور یہیں سے مختلف کھابے کھلا کھانے کا موقع ملا۔ زباں کو ذائقے کی ایسی لت لگی کہ ناشتہ بھی باقاعدہ ڈھونڈ کے کیا جانے لگا۔ ہماری یہ بسیار خوری دفتر میں مشہور ہو گئی۔ لیکن افسران بالا کو کوئی خاص اعتراض نہیں تھا کہ ان کا کام روز کا روز نکل رہا تھا اور کہیں سے کوئی شکایت بھی نہیں تھی اور کھانے کا بل ہماری ذاتی جیب سے جاتا تھا تو کسی کو کیا مسئلہ ہو سکتا تھا۔ لیکن اس دن سے سی ای او صاحب نے نظر رکھنی شروع کر دی کہ کام واقعی کام ہے یا ایویں ڈھنگ ٹپاو پروگرام چل رہا۔

ایک دن بلاوا آ ہی گیا کہ بڑے صاحب یاد فرماتے ہیں۔ جیسے بھی تھا جانا تو تھا۔ خیر دفتر پہنچ کے دیکھا کہ بڑے صاحب چائے بسکٹ سجائے بیٹھے ہیں اور ٹی وی پہ کوئی ڈرامہ چل رہا ہے۔ ہاتھ کے اشارے سے بیٹھنے کی اجازت دی اور پھر سے ٹی وی میں منہمک ہو گئے۔ وہ تو بھلا ہو ٹی وی والوں کا کہ اشتہارات چلانا نہیں بھولتے ’ڈرامے میں وقفہ آیا تو نظر التفات ہماری جانب ہوئی۔ پوچھنے لگے برخوردار آج کون سا کام ہے؟ سارے کام کی تفصیل جانی اور چائے کی پیشکش کی۔ اس زمانے میں چائے چھوڑے ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا تو پیشکش قبول کر لی۔ انہوں نے انٹرکام پہ چائے کا کہا تو تھوڑی ہی دیر میں قریباً 70 سال کی ایک نفیس سی شخصیت چائے لے کر آئی۔ میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا کہ باباجی آپ نے زحمت کی تو وہ چائے والے صاحب منہ بسورنے لگے۔

اپنی مدد کے لئے سی ای او صاحب کی طرف دیکھا تو وہ ڈرامے کے سین میں مگن تھے۔ مجبوراً سر نیہوڑے چائے پہ توجہ دینی پڑی۔ یہ میرا پہلا باقاعدہ تعارف تھا 70 سال کے ’ٹی بوائے‘ اور ماہرہ خان کے ساتھ۔

اگلے وقفے میں سوال آیا کہ برخوردار یہ ڈرامہ دیکھتے ہو آپ۔ تو اپنی نالائقی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ وقت کی کمی کے باعث اور ڈراموں کی فضول سی کہانی کے وجہ سے میری ان میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رہی۔ تو سی ای او صاحب بڑھک اٹھے اور سخت بے ادب کہا۔ اس سے پہلے کا معاملہ طول پکڑتا ’اجازت مانگی کہ کام ابھی باقی ہے۔ بے وقت کی ایسی راگنی سننے کے بعد آفس میں رکنا مشکل لگنے لگا۔ لیکن کام سمیٹتے پندرہ منٹ لگ گئے۔ دفتر سے نکلا تو سی ای او صاحب کا ڈرائیور کھڑا ملا کہ مجھے گھر تک چھوڑنے کا حکم ہے۔ یہ منطق بھی اس وقت سمجھ نہیں آئی تھی۔

زندگی کی گاڑی رواں رہی توکم و بیش پانچ سال بعد ایک دوست نے ایک ڈرامہ دیکھنے کو کہا۔ وقت نکال کے دیکھنا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ یہ تو وہی ڈرامہ ہے جس کی وجہ سے جھاڑ سننی پڑی تھی۔ تو واقعی لگا کہ بڑے صاحب نے سخت بے ادب ٹھیک ہی کہا تھا۔ تو وہاں سے نئی دلچسپی ملی لیکن ڈرامہ وہی دیکھا جاتا جس کو چند ایک معتبر لوگ تجویز کر دیں۔ جیسے پچھلے دنوں ایک نیا ڈرامہ دیکھنا شروع کیا تو کئی ایک رموز سے آشنائی ہوئی کہ علم میں مہارت کسے کہتے ہیں اور ’میں نہیں جانتا‘ کا ورد کیسے کوئی مقام تفویض کروا سکتا ہے۔ کچھ جملے انسان کے اندر اس کے بھیتر بہت گہرا اثر چھوڑ جاتے ہیں۔ ذہن میں جب بہت کچھ چل رہا ہو ’معاملات کی سمجھ بھی نہ آ رہی ہو‘ اردگرد کے واقعات اور شخصیات بھی باہم پیہم نہ رہیں اور آپ کسی خاص جملے کو اس کی اصل روح سمجھے بغیر ہی یاد کر کے دہرانا چاہیں تو منہ سے بے موقع اور بے محل یہی نکلتا ہے کہ: میں کیا کروں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).