چار کتابیں پڑھنے والے لبرل: جاہل کون ہے؟


کچھ دوست ہمارے گزشتہ کالموں میں ابولکلام آزاد کا ذکر اپنی منشا کے برخلاف پا کر بہت سیخ پا ہوئے ہیں۔ آج کل سوشل میڈیا پر پھر سے یہ بار بار بتایا جا رہا ہے، یونیورسٹیوں میں اس کا پرچار کیا جا رہا ہے، ہم جیسوں کہ سمجھایا جا رہا ہے کہ ابوالکلام آزاد نے کہا تھا اگر پاکستان بنا تو مسلمانوں کے الگ ملک میں خرابیاں ہوں گی۔ مشرقی پاکستان الگ ہو جائے گا۔ حقوق کی پامالیوں کے علاوہ جمہوریت بے سروسامان رہے گی، وڈیرے قابض آ جائیں گے۔ کوئی آج آزاد کو اچھا اور پاکستان کو برا کہتا ہے تو اس پر حیرت نہیں۔

ابلیس چیلنج کر کے نکلا تھا، اکثریت کو گمراہ کرے گا۔ فرشتے بھی پہلے ہی کہہ چکے تھے، انسان خون اور فساد بپا کرے گا۔ مگر آج کے حالات کو دیکھ کر اگر کوئی یہ کہنا چاہتا ہے کہ خدا غلط اور فرشتے اور ابلیس صحیح تھے، تو اس کی عقل پر مجھے حیرت نہیں۔ مہر لگنا اسی کو کہتے ہیں۔

دنیا بھر میں لبرل اسے کہا جاتا ہے جو ثبوت کی بنیاد پر عقائد کو جھٹلانے میں جھجک محسوس نہ کرے۔ اور اگر اپنی ذاتی آراء کو بھی غلط پائے تو بغیر جھجک اصلاح کر لے۔ لبرل عقائد کے قائل نہیں ہوتے۔ وہ خدا پر یقین رکھنے کے لیے بھی عقل کی دلیل چاہتے ہیں۔ اور دوسرے درجے کے لبرل اگر کسی دین کو مان بھی لیں تو دین کے صرف ان احکام کو مانتے ہیں جن میں ان کی عقل پریشان نہ ہو۔ عقل کی پستی کو قبول کرنے کے بجائے احکام کو اختراع کہہ کر چھوڑ دیتے ہیں۔

مگر پاکستان میں لبرل ازم کا جھنڈا ان صاحبان کے ہاتھ میں ہے جو پاکستان کو ہی نہیں مانتے۔ ان کے نزدیک وہی اصلی مسلمان ہیں اور اسلام میں سختی نہیں ہے۔ اسلام محبت کا دین ہے، اور فطرت پر قائم ہے۔ لہٰذا ان کی فطرت کے مطابق چلتا ہے۔ دو قومی نظریہ انہیں ایک دھوکہ لگتا ہے، جس کا واویلا ان کے مطابق چند وڈیروں اور جناح نے محض طاقت کے لالچ میں رچایا۔ انڈیا سے انہیں محبت ہے۔ کشمیر پر ان کا خیال ہے پاکستان جھوٹا ہے۔ فوج انہیں غاصب نظر آتی ہے۔ اور پاکستانیت یا اسلام کی بات کرنے والا ہر فرد ان کے خیال میں کتابوں سے محروم ہے۔

کیا پاکستان میں مسائل ہیں؟ جی ہاں۔ کیا چھوٹے صوبوں کے ساتھ زیادتی ہوئی؟ جی ہاں؟ کیا فوج کے کردار میں خامیاں موجود ہیں؟ بہت زیادہ۔ مگر آپ اپنے گریبان میں جھانک دیکھیے۔ کیا آپ دودھ کے دھلے ہیں؟ شراب نوشی، زنا، چوری، جھوٹ، کیا کبھی کوئی گناہ کبیرہ آپ سے سرزد نہیں ہوا؟ اگر ہوا ہے، کیا اس بنیاد پر آپ کو واجب القتل قرار دے دیا جائے؟ یا آپ کی اصلاح کی کوشش کی جانی چاہیے؟

اب یہی سوال پاکستان کے مسلمانوں کے لیے ہے۔ اگر پاکستان، اس کے ادارے، اور اس کے اسلام کے علمبردار لوگوں کے دامن داغدار ہیں، تو کیا ان کے گندے کپڑوں کو علم کے دھوبی گھاٹ میں تعلیم کا ڈنڈا مار مار کر دھونا چاہیے یا ان گندے کپڑے والوں کو سر بازار برہنہ کر کے بیچ دینا چاہیے؟ یہ کیسا لبرل ازم ہے کہ جس میں ملک اور قوم اور مذہب کو گالیاں بک کر سر بازار شرمسار کیا جا رہا ہے؟ یہ کیسا لبرل ازم ہے جس میں آپ کی مرضی کی کتابیں درست، آپ کی مرضی کے فلسفی آزاد، آپ کی باتیں سچ، اور آپ سے اختلاف رکھنے والے ڈھونگی، جھوٹے، دھوکے باز اور جاہل ہیں؟

غور کیجئے، مہر کس کے دل پر لگی ہوئی ہے۔ آج ایک بڑی تعداد دین سے دور ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ابلیس جیت گیا اور خدا ہار گیا۔ قیامت ابھی قائم ہونی ہے۔ یہ شرط تو کبھی لگی ہی نہیں کہ ابلیس لوگوں کو ورغلا سکے گا یا نہیں۔ طے تو یہ پایا تھا کہ غلطی جو بھی کرے گا، سزا پائے گا۔ جو غلطی کرنے سے بچ گیا، انعام پائے گا۔ اور جو غلطی کر کے پچھتاوے کے ساتھ معافی مانگ لے گا، معاف کر دیا جائے گا۔

فرشتے بھی سرکشی کی بابت درست کہتے تھے۔ خدا نے کہا ہی نہیں کہ انسان غلطی نہیں کرے گا۔ خدا نے کہا تم وہ نہیں جانتے جو میں جانتا ہوں۔ ابلیس نے نافرمانی کی، نکال دیا۔ آدم نے بھی نافرمانی کی، نکال دیا۔ ابلیس ضد پر اڑ گیا، کہ اسی کا نظریہ درست ہے، غلطی نہ مانی، مردود قرار پایا۔ آدم نے فوراً غلطی مان لی، شرمندہ ہوئے، معافی مانگی، معافی مل گئی۔ فہم اور فراست بغاوت کا نام نہیں، فہم اور فراست اپنی غلطی مان لینے کا نام ہے۔ سو اگر لبرل ازم جذبات کی قید سے آزادی کا نام ہے، تو لبرل کون ہے کون نہیں، آپ خود فیصلہ کر لیجیے۔

دو قومی نظریہ اور نظریہ پاکستان کے نتیجے میں بننے والے اس ملک میں ابھی بہت خامیاں ہیں۔ مگر انڈیا کے مسلمانوں کے حالات گواہی دے رہے ہیں، پاکستان ہی واحد راستہ تھا۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی حق حلال کی روزی کمانے کی ٹھان لے، اور زندگی بھی آسان ہو؟ سو اگر میں آپ سے کہوں کہ یہ راستہ چھوڑ دو، اس پر چلو گے تو مشکلات میں پھنس جاؤ گے۔ اور آپ حق کے راستے میں ہمیشہ مشکلات میں پھنستے ہیں۔ تو کیا اس سے یہ اخذ کیا جائے کہ یہ راستہ ہی خراب تھا یا ہمت باندھی جائے کہ اب ثابت کرنا ہے کہ میں مشکلات کے باوجود حق کا راستہ نہیں چھوڑوں گا۔

چار کتابیں پڑھنے کے بعد اگر آپ کو اپنے نظریے سے اختلاف کرنے والے سب لوگ جاہل نظر آتے ہیں تو یقین کیجئے، جاہل آپ ہیں، لوگ نہیں۔ کیونکہ علم عاجزی سکھاتا ہے، اور عاجزی سماعتوں کو مضبوط کرتی ہے، زبان کو دراز نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).