ویکسین کی کہانی، حقائق کی زبانی


کرونا کی عالمی وبا کے دوران اچھی خبریں تو عید کا چاند بن چکی ہیں لیکن آٹھ دسمبر کو صبح ساڑھے چھ بجے برطانوی شہر کوونٹری میں تاریخ کے نئے باب کی شروعات ہو گیں جب 91 سالہ خاتون میگی کیینن کو فائزر / باؤنٹیک کی تیار کردہ کرونا ویکسین کی پہلی خوراک کا انجیکشن لگایا گیا۔ اس سے چند دن پہلے ہی ادویات اور انسانی صحت بارے معیار کے ضامن برطانوی ریگولیٹری ادارے (MHRA) نے اس ویکسین کی ہنگامی بنیادوں پر استعمال بارے منظوری دی تھی، اس کے ساتھ ملکی سطح پر ویکسین لگانے کی مہم شروع ہو گئی۔

پہلے مرحلے میں بزرگوں اور طبی عملے کو اس ویکسین سے تحفظ فراہم کیا جائے گا اور اب تک ( 22 دسمبر) تقریباً پانچ لاکھ سے زائد افراد اس ویکسین کی پہلی خوراک حاصل کر چکے ہیں۔ امریکہ میں بھی منظوری کے بعد ویکسین کا استعمال شروع ہو چکا ہے اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں بھی یہ مہم جلد شروع ہو جائے گی۔ علاوہ ازیں دوسری ویکسینز کی منظوری کا عمل بھی شروع ہو چکا ہے۔ جہاں حکومتی سطح پر یہ اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں وہیں ویکسینز بارے افواہیں اور سازشی نظریات بھی سر اٹھا رہے ہیں اور لگتا ہے کہ سوشل میڈیا اس ضمن میں اپنا کام کافی ذمہ داری سے نبھا رہا ہے اور سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق آگے بڑھانے میں ممد و معاون ثابت ہو رہا ہے، جس سے عام لوگوں میں غلط فہمیوں کے ساتھ ساتھ خوف کی فضا بنتی نظر آتی ہے۔ اس لیے سوچا کیوں نہ ویکسینز کی کہانی لوگوں تک پہنچائی جائے اور ذہنوں میں پیدا ہونے والے سوالات کا جواب دیا جائے۔

سو ذرا اپنے ذہن کو صرف ایک صدی پیچھے لے جائیں اور تصور کریں انسان کیسی کیسی بیماریوں سے نبرد آزما تھا اور ہمارے آبا و اجداد کس طرح کے خوف کے سایوں میں زندہ رہتے تھے۔ چیچک، ٹی بی، کالی کھانسی، خناق، گردن توڑ بخار، خسرہ توان بیماریوں میں سے چند نام ہیں جنہوں نے انسان کو روز ازل سے اپنا شکار بنا رکھا تھا لیکن ان سب پر تو کافی حد تک کنٹرول کر ہی لیا گیا لیکن پولیو کو کیسے بھول سکتے ہیں جو کہ آج بھی صرف وطن عزیز اور افغانستان میں معصوم بچوں میں عمر بھر کی معذوری پیدا کر رہا ہے جبکہ باقی دنیا میں اس پر مکمل قابو پا لیا گیا ہے، آج کی نسل نے تو شاید چیچک یعنی سمال پاکس کا نام ہی نہ سنا ہو لیکن پچاس کے پیٹے میں لوگوں کو یاد ہو گا کہ اس کے شکار ہونے والے انسان کی سب سے بڑی پہچان اس کی چہرے کے داغ ہوا کرتے تھے۔

دور جدید میں ویکسین کی کہانی دراصل اٹھارہویں صدی کے آخر میں شروع ہوتی ہے جب ایڈورڈ جینر نے مریض کی جلد میں پھوڑے میں سے مواد لے کر دوسرے انسان کے زخم میں لگا دیا۔ اس تجربے کی کامیابی نے ایک ایسے عمل کی بنیاد رکھ دی جس کے پر کام کر کے بیسویں صدی کی شروع کی دہائیوں میں ( 1914 ) میں کالی کھانسی، ( 1926 خناق (Diptheria) اور ( 1938 ) میں تشنج یعنی Tatnus کی ویکسین تیار کر لی گئیں تھیں اور 1948 میں تینوں کو (DPT) کے نام سے ایک ہی ٹیکے میں اکٹھا کر لیا گیا اور بچوں میں اس کا استعمال شروع کر دیا گیا۔

چیچک کی ویکسین کا استعمال پہلے ہی شروع ہو چکا تھا۔ لیکن اس عرصے میں عوام بالخصوص والدین پولیو سے اپنے بچوں کو بچانے کے لیے بے قرار تھے کیونکہ اس بیماری کے شکار بچے عمر بھر کے لئے معذور ہو جاتے تھے۔ اس سلسلے میں ترقی یافتہ اقوام میں عوام کی دلچسپی کا مطالعہ بذات خود ایک اچھی کہانی بن سکتا ہے۔ لوگوں نے آج کی طرح پولیو ویکسین کی تیاری کے مختلف مراحل سے آگہی حاصل کی۔ ان کی دلچسپی کا عالم یہ تھا کہ امریکہ میں لوگوں نے وہائٹ ہاؤس کو اس ویکسین کی تیاری کے لیے چندہ تک بھجوایا اور 1955 میں جب اس ویکسین کی منظوری دی گئی تو اس کا موجد جوناس ساک (Jonas Salk) ایک قومی ہیرو قرار پایا۔

سن 60 کی دہائی میں پہلے خسرہ یعنی measles کی ویکسین ( 1963 ) میں، پھر ممپس (mumps) 1967 اور 1969 میں Rubella یعنی خسرہ کاذب کی ویکسین کی تیاری کے بعد 1971 میں ان تینوں کو ملا دیا گیا اور اب یہ MMRویکسین کے نام سے استعمال کی جاتی ہے۔ اہم بات یہ یاد رکھنے کی ہے کہ 70 کی دہائی میں چیچک کی ویکسین کا استعمال ترک کر دیا گیا کیونکہ 1972 میں اس مرض کو صفحہ ہستی سے ختم کر نیکا اعلان ہو گیا اور اب یہ وائرس صرف چند لیبارٹریوں میں ہی مقید ہو چکا ہے۔

اسی عرصے میں ان ویکسینز کی تیاری اور دنیا بھر کے بچوں میں ان کا استعمال ایک روٹین بن گیا جس سے ایک اندازے کے مطابق کروڑوں نہیں تو لاکھوں بچوں اور بڑوں کی زندگیاں نہ صرف بچ گئی بلکہ عمومی سطح پر عوامی صحت کا معیار بلند ہو گیا۔ ویکسین کے میدان میں سائنسی ریسرچ جاری رہی کیونکہ یہ بہتری کا ایک مسلسل عمل ہے جو جاری رہتا ہے۔ اس طرح سن 1981 میں کالا یرقان یعنی (Hepatitis b) کی ویکسین متعارف ہوئی جس کا استعمال شروع میں اس بیماری سے ممکنہ طور پر متاثر ہونے والے افراد میں شروع کیا گیا مثلاً وہ نوزائیدہ بچے جن کی ماؤں میں اس کے اینٹی جنز (antigens) موجود تھے یا طبعی عملہ یا منشیات کے انٹروینس (intravenous) استعمال کے عادی افراد وغیرہ وغیرہ لیکن ان کوششوں کے باوجود اس بیماری کے پھیلاؤ پر قابو نہ پایا جا سکا۔

ریسرچ کے ذریعے پتہ چلا کہ اس بیماری میں مبتلا تقریباً 30 فیصد افراد تو نشاندہی والے گروپس میں شامل ہی نہ تھے اور پھر امریکی حکومت نے یہ فیصلہ کیا کہ سن 1991 سے ہر پیدا ہونے وال بچے کو یہ ویکسین دی جائے گی اور اس ایک فیصلے کے نتیجے میں اٹھارہ سال سے کم عمر افراد میں کالا یرقان تقریباً ناپید ہو گیا۔ اسی طرح 1985 میں انفلوئنزا ٹائپ بی (Haemophilus influenza type b) ویکسین کی منظوری مل گئی اس کا استعمال عام ہو گیا اور وہ ممالک جہاں اس کا استعمال روٹین بن گیا وہاں اس انفیکشن کی شرح میں 90 فیصد تک کمی آ گئی۔

اسی طرح 1995 میں امریکہ میں چکن پاکس (chickenpox) کے خلاف بننے والی ویکسین ( Varicella Vaccine کی منظوری دی گئی اور اگلی دہائی میں اس کا استعمال عام ہو گیا۔ اسی طرح HPV سے متعلقہ ویکسین کا تعارف اس صدی کی پہلی دہائی میں ہو گیا۔ سن 2014 میں گردن توڑ بخار یعنی ( meningococcal serogroup B) متعارف ہوئی۔ پاکستان سے حج و عمرہ پر جانے والے زائرین تو اس سے واقف ہی ہوں گے کیونکہ آپ کو اس ویکسین کے استعمال کا سرٹیفکیٹ دکھانا لازمی ہوتا ہے۔ سعودی حکومت کی طرف سے ان ویکسینز بارے ہدایات کی تفصیل تقریباً ہر سال اپڈیٹ کی جاتی ہے۔

اس طرح جیسے جیسے دوسری بیماریوں کے خلاف ویکسین تیار ہوتی گیں اسی طرح ان کے استعمال بارے سفارشات کا جائزہ اب سالانہ بنیادوں پر لیا جاتا ہے جس کی بنیاد مسلسل تحقیق پر ہے مثلاً کن افراد کو کون سی ویکسین کی ضرورت ہے، کس عمر میں زیادہ فائدہ مند ہے، کتنی خوراکوں کی ضرورت ہے اور یہ کہ ان کے درمیان کتنا وقفہ ہونا چاہیے اور یہ کہ کس طرح مختلف ویکسینز کو اکٹھا کر کے لگایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ ویکسینز ایسی بھی ہیں جو روٹین میں تو استعمال نہیں ہوتیں لیکن ان کا استعمال مختلف علاقائی انفیکشن سے مسافروں کو بچانے اور ان کے پھیلاؤ کو روکنے میں اہم ہے۔ مثلاً Japanese encephalitis, meningococcal Disease, Thphoid fever, Yellow fever, وغیرہ وغیرہ

اوپر بیان کردہ ہر ویکسین اور اس کی تیاری کے پیچھے بہت سے لوگوں کی کم از کم دس سال کی دن رات کی محنت کی ایک ان دیکھی کہانی موجود ہے اور اس طرح انسانیت کے پاس 20 موذی امراض سے بچنے کے لیے ویکسینز موجود ہیں جو کہ لوگوں کی صحت کی ضامن ہیں۔ عالمی ادارہ صحت ( ڈبلیو ایچ او ) کے مطابق ان ویکسینز کے استعمال سے ہر سال تقریباً 20 سے 30 لاکھ افراد کی جان، خناق، تشنج، کالی کھانسی، خسرہ اور انفلوئنزا جیسی بیماریوں سے بچ جاتی ہے۔ اکیسویں صدی میں انسانی صحت کو برقرار رکھنے میں ویکسینز کا ایک بنیادی کردار ہے اور دنیا کے تمام بچوں تک ان ویکسینز کو پہنچانے کا کام ابھی بھی ادھورا ہے۔

اپنے 18 نومبر کے بلاگ میں ہم نے ”کرونا کی وبا اور ویکسین: چند حقائق”
https://www.humsub.com.pk/author/dr-iftikhar-ahmad میں ویکسین کی تیاری اور اس کے انسانی استعمال میں آنے سے پہلے والے مختلف مراحل اور حفاظتی اقدامات کا ذکر کیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں کرونا کی ویکسین کی تیاری بارے مختلف ممالک اور اداروں کی کوششوں پر ایک نظر ڈالی تھی۔ آج جب کہ برطانیہ، امریکہ اور یورپین یونین کے علاوہ چین اور روس کے ریگولیٹری اداروں نے پانچ مختلف ویکسینز کے ہنگامی بنیادوں پر استعمال کی منظوری بھی دے دی ہے اور ان کا استعمال بھی شروع ہو چکا ہے تو ان پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

1۔ فائزر/بائیوٹیک (Pfizer/BioNtech) کی ویکسین کی منظوری برطانیہ، یورپین یونین، امریکہ، کینیڈا، میکسیکو، بحرین سنگاپور، اومان، کویت اور سعودی عرب دے چکے ہیں اور ان ممالک میں حفاظتی ٹیکوں کی مہم شروع ہو چکی ہے یا شروع ہونے والی ہے

2۔ مڈرنہ/Moderna کی تیار کردہ ویکسین کی منظوری ابھی صرف امریکہ میں ملی ہے۔

3۔ چین کی تین اداروں کی تیار کرہ ویکسین کے استعمال کی منظوری چین میں مل چکی ہے، جن میں Cinovac اور Sinopharm/Wuhan institute of biological products کی تیار کردی ویکسین شامل ہیں جبکہ ایک اور گروپ (CNBG) کی تیار کردہ ویکسین چین کے علاوہ متحدہ عرب امارات اور بحرین میں بھی منظور ہو چکی ہے۔

4۔ اس طرح روس کے دو اداروں کی تیار کردہ ویکسینز روس میں منظوری حاصل کر چکی ہیں۔ ان میں سے ایک (Sputnik v) تو اب Oxford/Astrazenca کی ویکسین کے ساتھ نئے ٹرائل شروع کرنے والی ہے۔

ان سات ویکسینز کے علاوہ تقریباً پچپن اور ویکسینز تیاری کے مختلف مراحل سے گزر رہی ہیں اور ان میں سے چند ایک جن میں Oxford/Astrazenca کی ویکسین شامل ہے اب ٹرائل کے بعد متعلقہ ریگولیٹری اداروں سے منظوری کے انتظار میں ہیں۔

یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ Pfizer/BioNtech اور Moderna دونوں کی تیار کردہ ویکسینز میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی بذات خود ایک ایجاد کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کے ذریعے انسانی خلیوں میں قدرتی طور پر پائے جانے والے نظام کو سمجھ کر اس کو کرونا کے خلاف قدرتی مدافعت پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ مثلاً انسانی خلیوں میں موجود جنیاتی مواد یعنی ”ڈی این اے“ زندگی کا جزو لاینفک ہے۔ اس کا بنیادی کام انسانی خلیوں کو مختلف کاموں کے لیے ہدایات جاری کرنا ہوتا ہے، جن پر عمل کر کے انسانی جسم اپنی روزمرہ کی ضروریات کو پورا کرنے اور کسی بھی قسم کے خطرے مثلاً انفیکشن کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوتا ہے۔

یہ ڈی این اے انسانی خلیے کے nucleus میں موجود ہوتا ہے اور اپنی ہدایات کے لئے mRNA بناتا ہے جو nucleus سے باہر جا کر انسانی خلیے کے مختلف حصوں کو وہ ہدایات پہنچاتا ہے۔ اکیسویں صدی میں انسان نے ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے نہ صرف اس جنیاتی مواد یعنی ڈی این اے کو تفصیل سے پڑھ لیا ہے بلکہ اس کے کام کرنے کے طریقہ کار سے بھی آگاہی حاصل کر لی ہے۔ اسی علم کو بروے کار لاتے ہوئے ٹیکنالوجی کی مدد سے جنوری 2020 میں چین نے کرونا وائرس کی جنیاتی تفصیل جاری کر دی تھی۔

BioNtech اور Moderna نے اس تفصیل کو جاننے کے بعد اس وائرس پر موجود پروٹین سپائک (protein spikes) کا تجزیہ کیا اور مصنوعی کاپی تیار کر لی۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ کرونا وائرس کا بنیادی ڈھانچہ ”RNA“ کا ہی بنا ہوتا ہے جس پر یہ پروٹین سپائک اس کی پہچان کا کام کرتی ہیں۔ جب کرونا کا وائرس کسی کے جسم میں داخل ہوتا ہے تو انسانی مدافعاتی نظام فوراً اس کی شناخت کر لیتا ہے اور اس کے خلاف اقدامات شروع کر دیتا ہے۔

ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا ہو گا کہ موجودہ کرونا وائرس دراصل کبھی بھی انسانی جسم میں نہیں رہا بلکہ یہ جانوروں ( جن میں قدرتی طور پر موجود ہے ) سے انسانوں میں منتقل ہوا اس لیے انسانوں میں اس کے خلاف کوئی قدرتی مدافعت موجود نہیں تھی، اس لیے بیماری کی شدت بہت زیادہ تھی اور بالخصوص وہ لوگ جن میں پہلے ہی کچھ اور بیماریاں موجود تھی مثلاً ذیابیطس اور جن میں قوت مدافعت کم تھی اس وائرس کا جلد شکار ہو گئے۔

اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ کس طرح اس مصنوعی طور پر تیار کردہ mRNA کو ایک ویکسین کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے، کیونکہ انسانی جسم میں انجیکشن کے ذریعے داخلے کے بعد جب یہ انسانی خلیوں میں داخل ہوتی ہے ( اس کام کے لئے استعمال کردہ ٹیکنالوجی بھی سائنس کا ایک سنگ میل سمجھا جائے گا اس پر بات پھر کبھی سہی) تو وہاں پہنچ کر یہ انسانی خلیے کے لئے ایک ہدایات نامہ کا کام کرتی ہے یعنی انسانی خلیوں کو ان پروٹین سپائیک (protein spikes) کو بنانے کی ہدایات مل جاتی ہیں اور وہ ان کو بنا دیتے ہیں۔

اس موقع پر انسانی مدافعتی نظام فوراً ان کی شناخت کر لیتا ہے اور اس کے خلاف اینٹی باڈیز بنا لیتا ہے جو ان پروٹین سپائک کو فوراً ختم کر دیتا ہے۔ اس سارے عمل میں ویکسین کا ہدایات نامہ تو شروع میں ہی اپنے آپ ختم ہو چکا لیکن اس نے جس مدافعاتی عمل کی شروعات کی تھیں اس کی یادداشت مدافعاتی نظام میں رہ جاتی ہے لیکن کیونکہ یہ وقت کہ ساتھ ساتھ کمزور ہونا شروع ہو جاتی ہے اس لیے یادداشت کو دوبارہ سے مضبوط کرنے کے لیے عموماً ویکسین کی ایک بوسٹر خوراک دی جاتی ہے جس سے جسم کا دفاعی نظام اس وائرس کے جسم میں داخلے کی صورت میں فوراً حرکت میں آ جاتا ہے اور اس وائرس کو ختم کر دیتا ہے۔

اسی اصول پر عمل کرتے ہوئے انسانوں نے چیچک کا خاتمہ کر دیا اور دوسری موقع امراض کو کنٹرول میں لے لیا۔ ہمیں یہ بھی سمجھنا ہو گا کہ کرونا کی یہ دونوں ویکسینز کسی بھی صورت کرونا کا مرض پیدا نہیں کر سکتیں، کیونکہ یہ وائرس نہیں ہے۔ جہاں تک side effects کا تعلق ہے تو ہمیں یاد رہے کہ ویکسین حاصل کرنے والے زیادہ تر لوگوں میں معمولی اثرات مثلاً ٹیکے کی جبکہ پر وقتی درد یا ہلکی سوزش ہو سکتی ہے یا سر درد یا جسم میں ہلکا درد جو کہ وقتی ہوتا ہے۔

ہزاروں میں سے صرف چند لوگوں کو الرجک ری ایکشن ہوا جو کنٹرول کر لیا گیا۔ اس ساری بحث کا مقصد ان افواہوں اور خیالات کا جواب دینا ہے جو اس نئی ٹیکنالوجی کو لوگوں کے خلاف ایک سازش سمجھتے ہیں اور اس کے ممکنہ اثرات بارے اپنے تخیل کی پرواز اتنی پھیلا دیتے ہیں کہ وہ سائنسی کہانیوں میں تو چل سکتا ہے لیکن حقیقی دنیا میں ایسا ممکن نہیں۔

انہی افواہوں میں سے ایک کے مطابق اس ویکسین میں ایک کمپیوٹر چپ (chip) انسانی جسم میں داخل کی جاتی ہے اور اس کے ذریعے انسانوں کو کنٹرول کیا جائے گا اور یہ کہ اس ویکسین کے ذریعے انسانی جنیاتی مواد یعنی ڈی این اے کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ یہ دونوں باتیں موجودہ سائنسی علم کے مطابق غلط ہیں۔ ہاں انسانی خیالات پر اثرانداز ہونے کی کوشش انتہائی اہم موڑ پر پہنچ چکی ہے لیکن اس کے لیے ہمیں اپنے الیکٹرانک آلات جن میں موبائل فون، ماڈرن فزکس کے اصولوں اور الگوردم (algorithm ) کو سمجھنا ہو گا ( تفصیلی بحث پھر سہی) اسی طرح ان ویکسینز کے ذریعے جنیاتی مواد ( ڈی این اے ) میں تبدیلی ایک فضول اور بنیادی علم کے خلاف ہے کیونکہ ڈی این اے تو mRNA بنا سکتا ہے لیکن mRNA میں یہ صلاحیت ہی نہیں ہے، یہ ایسے ہی ہے کہ کوئی کہے کہ پانی اونچائی کی طرف بہہ رہا ہے۔

آج کی بات کافی لمبی ہو گئی، انسانی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے خود ان افواہوں کو چیلنج کریں اور اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کی حفاظت کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).