حکومت کےرکھوالوں نے ہاتھ کیوں کھڑے کئے؟


گزشتہ روز وزیراعظم نے اعتراف کیا کہ برسر اقتدار آتے ہوئے وہ امورمملکت چلانے کے لئے تیار نہیں تھے اور معاملات سمجھنے میں انہیں ڈیڑھ سال صرف ہوگئے۔ انہوں نے کابینہ کے ارکان پر زور دیا کہ باقی ماندہ اڑھائی برس میں بھرپور کارکردگی دکھائی جائے۔ اپوزیشن نے اس اعتراف کو وزیر اعظم کی نااہلی سے تعبیر کرتے ہوئے آج مردان میں حکومت پر شدید تنقید کی ہے ۔
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے کہا کہ عمران خان کو حکومت چلانےاور عوام سے کئے ہوئے وعدے پورے کرنے کی عقل تو نہیں تھی لیکن اپنے دوستوں کو نوازنے اور درست جگہ پر تابعداری کا مظاہرہ کرنے کے لئے وہ پوری طرح تیار تھے۔ مردان میں مہنگائی کے خلاف منعقد ہونے والی ریلی میں پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمان نے دعویٰ کیا کہ عمران خان کو لانے والے بھی اب ان کی پشت پر نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’جو تمہاری رکھوالی کرتے ہیں، وہ ہمیں کہتے ہیں کہ ہمیں کچھ نہ کہو ۔تم جانو اور عمران خان جانے‘۔ مولانا فضل الرحمان نے حکومت کی ناقص کارکردگی اور داخلی و خارجہ معاملات میں ناکامیوں کا ذکر کیا جبکہ مریم نواز نے تفصیل سے وزیر اعظم کی بدعنوانی، اپنے خاندان اور دوستوں کو نوازنے اور فائدہ پہنچانے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ’اس بندے کی حکومتی معاملات سمجھنے کے لئے تیاری نہیں تھی لیکن اسے پتہ تھا کہ خاندان اور دوستوں کو کیسے فائدہ پہنچانا ہے۔ اب عمران خان بھول جائے کہ وہ ہم پر شکنجہ کس لے گا ، اب وہ ہمارے احتساب کے شکنجے میں ہے۔ پی ڈی ایم اسلام آباد کی طرف مارچ کرے گی اور حکومت کے خاتمہ تک چین سے نہیں بیٹھے گی‘۔
اپوزیشن لیڈروں کی ان پرجوش تقریروں میں دو باتیں اہم ہیں۔ ایک یہ کہ کرپشن کا جو الزام عمران خان اور ان کے ساتھی تواتر سے اپوزیشن اور خاص طور سے شریف خاندان اور آصف زرداری پر عائد کرتے تھے، اب وہی الزام اپوزیشن لیڈر عمران خان پر براہ راست لگا رہے ہیں۔ ان الزامات میں چینی و آٹے کے بحران، مہنگائی اور وزیر اعظم کی بنی گالہ میں رہائش گاہ کی غیر قانونی تعمیر کو 12 لاکھ روپے جرمانہ ادا کرکے ریگولرائز کروانے کی بات خاص طور سے کی گئی ہے۔ ابھی سیاسی مہم جوئی کا آغاز ہؤا ہے اور اپوزیشن نے بدعنوانی کے الزامات کا دفاع کرنے کے بعد پہلی بار جوابی حملہ کرنے اور دیانت داری کی شہرت رکھنے والے اور شفافیت کا دعویٰ کرنے والے وزیر اعظم کی ایمانداری اور نیک نیتی کو براہ راست چیلنج کیا ہے۔ یہ ہتھکنڈا عمران خان نے کامیابی سے انتخابات میں برتنے کے علاوہ حکومت کے خلاف اٹھنے والی آوازیں خاموش کروانے کے لئے مسلسل استعمال کیا ہے۔ تاہم جب اپوزیشن اسی ہتھکنڈے کو اینٹ کا جواب پتھر ، کے مصداق استعمال کرے گی تو سیاسی فضا مزید آلودہ اور خطرناک ہوجائے گی۔
تاہم مردان میں کی گئی تقریروں میں مولانا فضل الرحمان کا یہ انکشاف زیادہ دلچسپ اور سنسنی خیز ہے کہ ’عمران خان کے رکھوالے ہم سے کہتے ہیں کہ یہ معاملہ دو سیاسی قوتوں کے درمیان ہے، ہمیں بیچ میں نہ لاؤ‘۔ اپوزیشن اتحاد کی احتجاجی تحریک میں اب تک کی سب سے بڑی سنسنی خیزی گوجرانوالہ کے جلسہ میں نوازشریف کی تقریر تھی۔ اس جلسہ سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے جنرل قمر جاوید باجوہ اور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا نام لے کر سیاسی انجینرنگ کا الزام عائد کیا تھا۔ اس پر حکومت کا ردعمل ، غداری اور ملک دشمنی کے الزامات اور براہ راست عسکری قیادت کا نام لینے پر اپوزیشن میں اختلافات کے تنازعہ نے پی ڈی ایم کو غیر معمولی توجہ کا مرکز بنا دیا۔ یہ صورت حال بڑی حد تک خود حکومت نے اپنے لئے پیدا کی ۔
حتی کہ ابھی حال ہی میں ایک ٹی وی انٹرویو میں عمران خان نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ’فوج میں نواز شریف کے بیان پر بہت غصہ ہے لیکن جنرل باجوہ کی حوصلہ مندی اور جمہوریت پسندی کی وجہ سے کوئی بڑا ردعمل نہیں آیا‘۔ وزیر اعظم نے یہ وضاحت تو نہیں کی کہ جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے اپوزیشن لیڈر کے بیان پر فوج کیا ’رد عمل‘ دے سکتی تھی۔ اور اگر فوج نے کوئی سیاسی رد عمل دیا تو اس کا نشانہ تو وہی پارٹی بنے گی جو اس وقت اقتدار میں ہے۔ بلاشبہ کسی فوجی کارروائی سے جمہوری عمل تعطل کا شکار ہوسکتا ہے لیکن ایک ایسے مرحلے پر جب ملک کی متحارب سیاسی قوتیں زندگی یا موت کی طرز پر باہم برسر پیکار ہوں تو جمہوریت کی اہمیت نعرے سے زیادہ نہیں ہوتی۔
گزشتہ ہفتے لاہور میں پی ڈی ایم کے پاور شو کے بعد اپوزیشن اتحاد کے بارے میں ملے جلے اشارے سامنے آرہے تھے جس سے پاکستان جمہوری اتحاد میں شامل جماعتوں میں حکمت عملی کے اختلاف، لانگ مارچ کی صلاحیت اور کامیابی کے امکانات کے بارے میں اٹھنے والے سوالات اہم تھے۔ حکومتی نمائندوں نے تو جلسہ منعقد ہونے سے پہلے ہی لاہور کے اجتماع کوناکام قرار دینے کا دعویٰ کرنا شروع کردیا تھا۔ تاہم کسی حد غیر جانبدار رائے رکھنے والے مبصرین نے بھی اسے کوئی بہت بڑا پاور شو قرار نہیں دیا تھا۔ اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن کورونا کے خوف اور وبا پھیلنے کے اندیشے کی وجہ سے بھی لوگوں کی بڑی تعداد نے جلسہ میں شرکت سے گریز کیا ۔ اپوزیشن کی طرف سے وبا کے خلاف عائد پابندیوں کی خلاف ورزی کرنے کے طریقہ کو بھی وسیع طور سے قبولیت نہیں مل سکی۔ جلسہ سے اگلے روز لائحہ عمل کا اعلان کرتے ہوئے پی ڈی ایم نے 31 جنوری تک وزیر اعظم سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ بصورت دیگر یکم فروری کے بعد اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کیاجائے گا۔ احتجاج میں لگ بھگ دو ماہ کا وقفہ کسی بھی تحریک کو کمزور کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ اعلان جلسہ میں کرنے کی بجائے بعد میں پی ڈی ایم کے اجلاس میں کیا گیا جس سے ان قیاس آرائیوں کو تقویت ملی کہ تحریک میں شامل جماعتوں میں حکمت عملی کے حوالے سے اختلاف موجود ہے۔
دو حوالوں سے اس اختلاف کی نشاندہی کی جارہی ہے۔ ایک تو یہ کہ پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کے فیصلہ کے مطابق اسمبلیوں سے استعفے دینے کے فیصلہ پر قائم نہیں رہے گی۔ حالانکہ بلاول بھٹو زرداری نے واضح کیا ہے کہ پیپلز پارٹی احتجاج کو کامیاب بنانے کے لئے سندھ حکومت بھی قربان کر دے گی۔ استعفوں کے معاملہ پر مسلم لیگ (ن) میں اندرونی اختلاف کی باتیں بھی زور شور سے بیان کی جارہی ہیں۔ اگرچہ پارٹی کے کسی رکن اسمبلی نے اس اختلاف کا کھل کر اظہار نہیں کیا۔ اس کے باوجود تجزیہ نگاروں کے علاوہ حکومتی نمائندے اصرار کررہے ہیں کہ اپوزیشن کے ہاں جوتوں میں دال بٹنے والی ہے۔ آج بھی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے کہا ہے کہ ’یہ مفاد پرستوں کا ٹولہ ہے۔ اس لئے آپس میں ہی کھینچا تانی ہورہی ہے۔ یہ حکومت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے‘۔ تاہم اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ اعتراف کیا ہے کہ اپوزیشن کے احتجاج سے ملک کو شدید نقصان پہنچے گا۔
بدنصیبی سے حکومت یہ ادراک کرنے کے باوجود ملک میں جاری سیاسی بحران کے خاتمہ میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ اگرچہ حکومت نے اپوزیشن کو عقل کے ناخن لینے اور بات چیت پر راضی ہونے کا مشورہ دیا ہے لیکن ابھی تک سرکاری طور پر مفاہمت کی کوئی ٹھوس تجویز یا مذاکرات کی دعوت نہیں دی گئی۔ اپوزیشن حکومت سے بات چیت نہ کرنے کا دعویٰ ضرور کرتی ہے لیکن مذاکرات کی باقاعدہ دعوت کے بعد ہی اپوزیشن کی اصل حکمت عملی کا پتہ چل سکے گا۔ اس دوران سینیٹ انتخابات وقت سےپہلے منعقد کروانے کا اعلان اور اب سپریم کورٹ کو اوپن بیلٹ کے ذریعے ووٹنگ کروانے کا ریفرنس بھیج کر بھی بظاہر اپوزیشن کو ’غیر متعلقہ‘ قرار دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ حکومت کی یہ حکمت عملی کشیدگی اور بداعتمادی میں اضافہ کرے گی۔ سینیٹ انتخابات میں سب سے بڑی پارٹی کے طور پر تحریک انصاف کی کامیابی لازمی ہے ۔ کسی سیاسی جمہوری نظام میں یہ کوئی ایسا قیامت خیز منظر نامہ نہیں ہے کہ اس کے لئے باقی عوامل اور ضرورتوں کو نظر انداز کردیا جائے۔
مردان میں اپوزیشن جلسہ میں مریم نواز کے الزامات اور فقرے بازی اور مولانا فضل الرحمان کا یہ اشارہ اہم ہے کہ اسٹبلشمنٹ نے اپوزیشن سے کہا ہے کہ وہ اس معاملہ میں فریق نہیں ہے۔ اب مقابلہ اپوزیشن اتحاد اور حکمران جماعت کے درمیان ہے۔ اس بیان کی کسی طرف سے تصدیق تو نہیں ہوسکتی لیکن اس سے سیاسی حلقوں میں سراسیمگی پیدا ہونے کے تمام امکانات موجود ہیں۔ فوجی قیادت نے نواز شریف کے نام لے کر الزام لگانے پر بھی کوئی وضاحت کرنا ضروری نہیں سمجھا تھا۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ وزیر اعظم نے فوج میں غصہ کی بات فوجی کمان کے اشارے پر کہی تھی۔ اسی طرح یہ کہنا بھی ممکن نہیں ہے کہ مولانا فضل الرحمان کی یہ بات کس حد تک درست ہے کہ فوج عمران خان کو نہیں بچائے گی۔ اس بیان کا یہ پہلو البتہ دلچسپ ہے کہ فوج اس بیان کی تردید میں یہ نہیں کہہ سکتی کہ وہ سیاسی بحران کی صورت میں حکومت کی مدد کے لئے آئے گی۔
یوں بھی ملک کی تاریخ شاہد ہے کہ سیاسی تصادم کی صورت میں یا تو فوج براہ راست دخیل ہوجاتی ہے یا بالواسطہ رابطوں سے فریقین کو کوئی حل نکالنے پر آمادہ کرتی ہے۔ تو کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ کسی انتہا پر پہنچنے، ملکی معیشت کو تباہی کی طرف دھکیلنے اور عسکری حلقوں کو سیاست میں ملوث کرنے کی بجائے اپوزیشن اور حکومت مل کر اس بحران سے نکلنے کا کوئی راستہ نکال لیں؟ عمران خان کو سمجھنا ہوگا کہ راستہ نکالنا ان کے لئے ضروری ہے۔ وہ یہ سچ ماننے سے جتنا بھی انکار کریں لیکن اپوزیشن کو سپیس دے کر ہی وہ آگے بڑھ سکتے ہیں۔ ورنہ مردان میں ہونے والی تقریروں سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ سیاسی جنگ میں شدت پیدا ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali