کریمہ بلوچ کی موت کے بعد سوشل میڈیا پر غلط معلومات اور افواہوں کی بوچھاڑ کے ساتھ ساتھ دھمکیاں اور خوشی بھی


بلوچستان سے تعلق رکھنے والی سیاسی کارکن اور طلبا تنظیم بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی سابق چیئرپرسن کریمہ بلوچ کی موت کی خبر نے جہاں بہت سے لوگوں کو سوگوار کر دیا وہیں سوشل میڈیا پر ایسا رد عمل بھی دیکھنے میں آیا جو عموماً موت کی خبر پر نہیں دیکھنے میں نہیں آتا۔

37 سالہ بلوچ رہنما کی کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں پہلے گمشدگی اور پھر موت کی اطلاع ایک طرف تو غلط معلومات اور افواہوں کے پھیلاؤ کی وجہ بنی تو دوسری جانب بہت سے لوگ الزام تراشی، دھمکیوں یہاں تک اس خبر پر خوشی کا اظہار کرتے بھی دکھائی دیے۔

اسی بارے میں

والدہ کے پڑھے اشعار جو کریمہ بلوچ کو ملک چھوڑنے سے روک سکتے تھے

ٹورونٹو سے لاپتہ سیاسی کارکن کریمہ بلوچ کی لاش پانی میں سے ملی

کریمہ بلوچ ہلاکت: ابتدائی تحقیقات میں گڑبڑ کا شبہ خارج، تحقیقات جاری

کریمہ بلوچ کی موت کا ذمہ دار کون؟ سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگز کی جنگ

اگرچہ کریمہ بلوچ کی موت کی سبب جاننے کے لیے ٹورنٹو پولیس کی تحقیقات جاری ہیں اور اس بارے میں ابھی کسی قسم کی مصدقہ معلومات سامنے نہیں آئی ہیں لیکن کچھ سوشل میڈیا صارفین اس کے لیے پاکستان کی ریاست تو کچھ صارفین انڈیا کی خفیہ ایجنسی را کو مورد الزام ٹھہراتے نظر آئے اور #RAWKilledKarima اور #StatekilledKarima کا استعمال کرتے ہوئے ایسی بہت سی معلومات کو شیئر کیا گیا جو درست نہیں تھیں۔

کریمہ بلوچ سے متعلق سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی ایسی ہی معلومات اور اس کو پھیلانے والے اکاؤنٹس کو بی بی سی نے فیکٹ چیک کیا۔

کریمہ بلوچ سے متعلق غلط معلومات کون پھیلا رہا ہے؟

اپنے آپ کو روسی صحافی ظاہر کرنے والے مخائیل بورس نامی اکاؤنٹ نے کریمہ بلوچ کی موت کی خبر شئیر کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ حال ہی میں شائع ہونے والی ای یو ڈس انفو لیب کی رپورٹ آنے کے بعد سے را اپنے ایجنٹس کو قتل کر رہی ہے اور کیونکہ کریمہ بلوچ مبینہ طور پر را کے لیے کام کر رہی تھیں اور ان کا راز فاش ہوگیا تھا اس لیے را نے انھیں بھی قتل کر دیا۔

یہ غیر مصدقہ معلومات کو شئیر کرنے والے مخائیل بورس کی خود اپنی شناخت کافی مشکوک ہے۔

ان کے ٹوئٹر بائیو کے مطابق وہ روس سے تعلق رکھنے والے جنوبی ایشیائی سکیورٹی اور سیاسی امور کے تجزیہ کار ہیں اور گذشتہ بیس سال سے صحافت کے پیشے سے وابسطہ ہیں لیکن جب کھوج لگائی گئی تو اس نام سے کوئی صحافتی کام یا تجزیہ نہ مل سکا۔

اس کے علاوہ اس اکاؤنٹ کو مارچ 2020 میں بنایا گیا اور اس پر لگی تصویر بھی دراصل انٹرنیٹ پر عام دستیاب ایک سٹاک تصویر ہے جو 2018 میں ‘علیناز موڈلز ‘ نامی ایک بلاگ ویب سائٹ پر استعمال کی گئی جو کہ روسی مردوں کے ‘عمر کے ساتھ بہتر ہونے’ سے متعلق ہے۔

سٹاک تصویر

اس پر لگی تصویر بھی دراصل انٹرنیٹ پر عام دستیاب ایک سٹاک تصویر ہے

مخائیل بورس نامی ٹوئٹر اکاؤنٹ سے کریمہ بلوچ سے متعلق کی جانے والی اس ٹویٹ کے متن کو بہت سے اکاؤنٹس نے کاپی کر کے آگے پھیلایا۔

کریمہ بلوچ کے اہلخانہ کے مطابق وہ اتوار سے لاپتہ تھیں اور منگل کے روز پولیس نے ان کی لاش ٹورنٹو سینٹرل آئی لینڈ کے پاس پانی سے برآمد کی جو ابھی پولیس تحویل میں ہے اور اسے پوسٹ مارٹم کے بعد ورثا کے حوالے کیا جائے گا۔

لیکن سوشل میڈیا پر ایک تصویر گردش کر رہی ہے جسے کے بارے میں دعوی کیا جا رہا ہے کہ یہ تصویر کریمہ بلوچ کی لاش کی ہے۔

جب اس تصویر کی حقیقت معلوم کی گئی تو پتہ چلا کہ یہ تصویر کریمہ بلوچ کی نہیں بلکہ تربت سے تعلق رکھنے والی خاتون صحافی شاہینہ شاہین بلوچ کی ہے جنہیں رواں سال 5 ستمبر کو ان کے گھر میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔

کیا کریمہ بلوچ کو ای یو ڈس انفو لیب نے راکا ایجنٹ قرار دیا؟

ان کی موت کی خبر سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی معلومات میں دعویٰ کیا گیا کہ یورپی یونین میں فیک نیوز کے حوالے سے کام کرنے والے تحقیقی ادارے ‘ای یو ڈس انفو لیب کی جانب سے حال ہی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کریمہ بلوچ کو انڈین خفیہ اجنسی را کے لیے کام کرنے کا انکشاف کیا گیا ہے، تاہم یہ بات درست نہیں۔

ای یو ڈس انفو لیب نے نو دسمبر کو انڈین کرونیکلز نامی ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں غیر فعال تنظیموں اور کم از کم 750 جعلی مقامی میڈیا آگنائزیشنز پر مشتمل ایک ایسے انڈین نیٹ ورک کو بے نقاب کیا گیا تھا جو پاکستان کے خلاف جھوٹی معلومات کے ذریعے جنیوا میں اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق (یو این ایچ سی آر) اور برسلز میں یورپی پارلیمان پر اثر انداز ہونے کے کوشش کرتا ہے۔

اس رپوٹ میں کریمہ بلوچ کا نام ضرور آیا ہے لیکن اس رپورٹ میں ان کو را کا ایجنٹ قرار نہیں دیا گیا۔

اس تحقیقی رپورٹ میں محققین نے اس بات پر زور دیا کہ وہ ‘یقینی طور پر یہ بالکل نہیں کہہ سکتے کے انڈین کرونیکلز کے چلانے والوں میں انڈیا کی خفیہ ایجنسی کا ہاتھ ہے۔

اس رپوٹ میں ایفریکا نامی ایک این جی او کا بھی ذکر ہے جس نے کریمہ بلوچ سمیت دیگر بلوچ انسانی حقوق کے کارکنوں کو اقوام متحدہ میں تقاریر کے لیے مدعو کیا۔

اس رپورٹ میں زور دے کر کہا گیا ہے کہ اگرچہ اس نیٹ روک سے جڑی این جی اوز جعلی ضرور تھیں لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے ان کے پلیٹ فارم پر بات کرنے والے کارکن اور تنظیموں کی بات سنی نہیں جانی چاہیے۔

کریمہ بلوچ کی موت کی خبر پر جشن اور دھمکی آموز پیغامات

کریمہ بلوچ کی موت کی خبر شئیر کرتے ہوئے میر محمد علی خان نامی ایک ٹوئٹر صارف نے لکھا کریمہ بلوچ ‘ڈن’ اور طارق فاتح ، طحہ صدیقی ، بخاری اور گورایا سے متعلق اچھی خبر جلد آرہی ہے۔

اگرچہ محمد علی نے اپی اس ٹویٹ کو بعد میں ڈیلیٹ کر دیا لیکن ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی ٹویٹ میں کی گئی بات پر قائم ہیں۔

صحافی گل بخاری ، اسد علی طور کی جانب سے دعوی کیا گیا کہ محمد علی کی اس ٹویٹ کا مقصد مذکورہ افراد کو دھمکانہ اور ان کے خلاف تشدد پر اکسانہ ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے گل بخاری نے کہا کہ انھوں نے نہ صرف علی محمد کو ٹوئٹر پر رپورٹ کیا ہے بلکہ برطانوی پولیس کو بھی ان کے خلاف شکایت درج کروائی ہے۔

تاہم جب بی بی سی نے ٹوئٹر سے ان دھمکی آموز مواد اور غلط معلومات کے پھیلاؤ کے خلاف کاروائی سے متعلق جب ٹوئٹر سے رابطہ کیا تو انھوں نے اس کا جواب نہیں دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp