عمران خان کی تبدیلی حکومت کے اڑھائی برس اور ریاست پوتکین


ایک تماشا گر لوہے کے ٹکڑے محض دکھاوے کے طور پر نگلا کرتا تھا لیکن ایک بار اتفاق سے وہ سچ مچ نگل گیا، نتیجے میں اس کی جان پر بن آئی، اس سے بھی زیادہ مشکل کام تماشائیوں کے سامنے اداکاری کرنا تھا کہ وہ ٹھیک ٹھاک ہے، ورنہ اس کی جھوٹی تماشا گری کا سارا بھرم خاک ہوجاتا۔ تحریک انصاف کے ساتھ بھی کم و بیش ایسا ہی ہوا۔ حکومت میں آنے کی زبانی کلامی باتیں کرتی وہ واقعی حکومت میں آ گئی۔ گویا کسی عاشق نامراد کو محبوبہ مل گئی جس کا وہ صرف تصور ہی کر سکتا تھا۔ اب اسے خوش کیسے رکھنا ہے؟ ناز نخرے کیسے اٹھانے ہیں؟ محبوبہ کے تقاضے، ضروریات کیا ہیں؟ اس کی تیاری تھی نہ وسائل، اب جدائی برداشت نہیں اور وصل کی راحتیں بہت بھاری پڑ رہی ہیں۔ تحریک انصاف جیسے تیسے اقتدار کے سنگھاسن پر تو بیٹھ گئی لیکن آگے کیا کرنا ہے؟ ملک کا انتظام کیسے چلانا ہے؟ گڈ گورننس کس پرندے کا نام ہے؟ اچھی طرز حکمرانی کے کیا لوازمات ہیں؟ حکومت ہر شعبے میں اب تک ٹامک ٹوئیاں مار رہی ہے۔ ڈھائی ماہ بعد بھی عمران خان کو ان کی اہلیہ یاد دلاتی تھیں وہ وزیراعظم بن چکے، آج ڈھائی سال بعد بھی انہیں اسی یقین دہانی کی بار بار ضرورت پڑتی ہے۔ اپنے طرز عمل سے وہ اب تک وزیراعظم کم اور اپوزیشن لیڈر زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔

27 سال تک پابند سلاسل رہنے والے نیلسن منڈیلا نے اپنی رہائی پر کہا تھا۔ ”جب میں اس دروازے کی طرف بڑھا جو مجھے آزادی کی طرف لے جا رہا تھا تب میں نے سوچا، اگر میں نے اپنی نفرت اور تلخ یادوں کو یہیں نہ چھوڑا تو میں ہمیشہ قیدی ہی رہوں گا۔“ عمران خان بھی بائیس سالہ جدوجہد کے بعد اقتدار تک پہنچنے کے دعوے دار ہیں لیکن بدقسمتی سے وہ ابھی تک انتقامی جذبے اور انا کی قید سے باہر نہیں نکل پائے حالانکہ انہوں نے بائیس سال تو کیا بائیس گھنٹے بھی جیل نہیں کاٹی۔ کہتے ہیں ”جہاں انتقام آتا ہے دانائی بھاگ جاتی ہے“ شاید یہی وجہ ہے، ملک آج ایسی سیاسی تجربہ گاہ بنا ہے جہاں نت نئے تجربات تو ہو رہے ہیں مگر حاصل وصول کچھ نہیں۔

عمران خان کے انتخابی جلسوں میں مضبوط معیشت، شفاف احتساب، سستا انصاف، مدینے جیسی فلاحی ریاست، بے روزگاری کے خاتمے سمیت درجنوں نعروں کی بڑی گونج تھی، لیکن کیا یہ سب کچھ صرف ووٹر کو لبھانے کے لیے تھا یا حکومت نے واقعی اس جانب کوئی سنجیدہ پیش قدمی بھی کی ہے؟ تحریک انصاف کی نیک نیتی پر شک نہ بھی کیا جائے تب بھی سچ یہ ہے کہ زمینی حالات اس کی نفی کر رہے ہیں۔ سب سے پہلے معیشت کی بات کرتے ہیں، جو ملکی خزانے کے ساتھ شہریوں کی خوشحالی یا مفلسی کا اصل پیمانہ ہوتا ہے۔

معاشی جدول یا چارٹ ہمیشہ غیر دلچسپ، پیچیدہ، مشکوک اور بوریت لیے ہوتے ہیں۔ غیر ملکی قرضے، گردشی قرضے، افراط زر، معاشی نمو اور بجٹ خسارے سمیت درجنوں دقیق معاشی اصطلاحات عام آدمی کی کبھی سمجھ میں نہیں آتیں۔ عام بندے کو ایسی اصطلاحات سے کوئی دلچسپی بھی نہیں ہوتی۔ یہ درست ہے بٹوا ہرن کی کھال سے کیوں نہ بنا ہوا ہو، وہ خالی ہے تو محض چیتھڑا ہے۔ بٹوے میں موجود رقم ہی کسی شخص کی مالی حالت کا پتا دیتی ہے۔ غریب آدمی تو بس اتنا دیکھتا ہے جو چیز وہ کل خرید رہا تھا مہنگی ہوئی ہے یا سستی؟ گھر چلانے کے بعد کل چار پیسے بچ رہے تھے تو آج بچت میں کمی ہوئی یا اضافہ؟ آمدنی بڑھی یا سکڑی ہے؟ وہ چاہتا ہے مہنگائی کا دانت اتنا رگڑ دیا جائے جو کاٹ نہ سکے لیکن یہاں معاملہ الٹا ہے۔ مہنگائی کا دانت رگڑا کیا جاتا یہ بھیڑیے کی طرح اور بھی نوکیلا اور کاٹ دار ہو گیا۔

کوئی شک نہیں کہ حکومت اب تک مافیاز کے ہاتھوں یرغمال بنی ہے، ایک اسکینڈل کی بازگشت ختم نہیں ہوتی، دوسرا گونج اٹھتا ہے، سب سے بڑا ظلم تو بیمار افراد پر ہوا۔ بعض ادویہ کی قیمتیں پانچ سے چھ سو گناہ بڑھا دی گئیں، ان میں ایسی دوائیں بھی شامل ہیں جن پر لاکھوں بیمار انسانوں کی زندگی کا دارو مدار ہے۔ انسولین کا جو انجکشن باکس 3600 میں ملتا تھا آج 5300 میں مل رہا ہے، اب اس کا اور کیا مطلب نکالا جائے کہ حکومت کی معاشی پالیسیاں اندھے کنویں میں گر گئی ہیں یا پھر اس کا فائدہ صرف طاقت ور مافیاز کو پہنچ رہا ہے۔

وفاقی حکومت کے ادارہ شماریات کے مطابق دو ہزار اٹھارہ میں مڈل کلاس شہریوں کی تعداد ایک کروڑ ساٹھ لاکھ تھی جو دو سال میں کم ہو کر صرف 56 لاکھ رہ گئی ہے۔ ان حالات میں حکومتی ترجمانوں کے معاشی ترقی کے دعوے مذاق نہیں تو کیا ہیں؟ آپ اس دلیل پر کیا کہیں گے جب ”سپوت فراز“ نے فرمایا ”تمام معاشی اشاریے درست سمت میں ہیں سوائے مہنگائی کے“ اگر حکومتی یاوہ گوئیوں کا کوئی سالانہ مقابلہ ہوتا تو اسے پہلے درجے پر رکھا جاتا۔ سالانہ حکومتی پلان کی رپورٹ برائے 2020۔ 21 کے مطابق ملک میں بیروزگار افراد کی تعداد 40 لاکھ سے بڑھ کر 60 لاکھ تک پہنچنے کا امکان ہے، اندازہ کریں یہ اس حکومت کے اعداد و شمار ہیں جس کے سربراہ نے ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر دینے کے عہد و پیمان کر رکھے ہیں۔

ہمارے یہاں غیر ملکی قرضوں کا حصول ہمیشہ سیاسی مخالفین کے خلاف پروپیگنڈے کے طور پر استعمال ہوتا رہا۔ اکثر اوقات تو یہ موثر بھی ثابت ہوا، اس کے باوجود کوئی ایک بھی فوجی یا سویلین حکومت ایسی نہیں جو غیر ملکی بینکوں کے سامنے جھولی پھیلانے سے خود کو بچا سکی ہو۔ عمران خان نے بھی انتخابی مہم کے دوران سابق حکومت کے خلاف یہی ہتھیار استعمال کیا، بلکہ انہوں نے تو یہاں تک کہہ دیا، وہ خود کشی کر لیں گے لیکن بیرونی قرض کو ہاتھ نہیں لگائیں گے مگر آج وہ اس بات پر ہاتھ ملتے ہیں کہ یہ مبارک کام انہوں نے وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے اگلے ہی دن کیوں نہ کیا، بلکہ اسی جرم میں وزیراعظم نے اپنے ”معاشی ارسطو“ اسد عمر کو وزارت خزانہ ہی سے چلتا کر دیا۔ اعداد و شمار میں جائے بغیر اتنا سمجھنا ہی کافی ہوگا کہ گزشتہ دو سال میں لیے گئے قرضے پچھلی حکومت کے پانچ سالہ دور سے بھی زیادہ ہیں یعنی 23 ارب ڈالر سے بھی زیادہ۔ یہ طے ہے قرض کی مے کا یہ دور حکومت کے آخری دن تک چلتا رہے گا۔ پاکستان کی معاشی گروتھ کا تو تذکرہ کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ اس وقت ہماری معاشی نمو صفر سے بھی نیچے ہے۔ اس میدان میں جنگ زدہ افغانستان بھی ہم سے آگے ہے۔ یقین کریں اگر یہ معاشی دکان ریاست کی جگہ کوئی عام شہری چلا رہا ہوتا تو کب کا تالا لگا کر بھاگ جاتا۔ سادہ الفاظ میں پاکستانی معیشت ایسا ریگستانی اونٹ ہے، جس کی کوہان بالکل خشک پڑی ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اب تک اس بات کا تعین ہی نہیں کر سکی کہ اس ملک کو کون سے نظام اور طریقے سے چلانا ہے؟ وزیراعظم عمران خان ریاست مدینہ کی تو بات کرتے ہیں لیکن یہاں بھی وہ مخمصے کا شکار ہیں۔ کبھی ایرانی انقلاب، کبھی ترکی کا موجودہ جدید سیکولرازم، کبھی ملائیشیا کی جمہوریت اور کبھی اپنی ہی نوعیت کا چینی کمیونزم ان کا آئیڈیل ہوتا ہے۔ اب یہ سارے نظام ریاست مدینہ میں کیسے سمائیں گے یہ عمران خان خود بھی نہیں جانتے۔ موجودہ ”انداز حکمرانی“ ایک ایسی کاک ٹیل ہے، جس میں اتنے مختلف قسم کے پھلوں کا رس نچوڑا گیا کہ اس کا اپنا کوئی ذائقہ ہی نہیں بچا۔

وزیراعظم عمران خان نے عوام کو اور خاص طور پر نوجوانوں کو ایک ایسے پاکستان کا خواب دکھایا جو زیادہ تر خواہشوں اور تصورات پر مبنی تھا۔ افلاطون کی ”ری پبلک“ میں پیش گئی گئی ایسی تصوراتی ریاست، جس کی تشکیل صرف جنت ہی میں ممکن ہے۔ نوجوان ہمیشہ جذباتی ہوتے ہیں، انہیں لگا عمران خان ہی وہ مسیحا ہے جس کے وہ منتظر تھے، بس کپتان کے جادوئی لمس کی دیر ہے ملک کا کوڑھ زدہ نظام تندرست و توانا ہو جائے گا۔ کسی نے ایک لمحے کو نہیں سوچا جس طرح شیطان کو بھگانے کے لیے شیطان کا نام نہیں لیا جاتا، اسی طرح نسل در نسل اقتدار پرست ٹولے کو ساتھ ملا کر تبدیلی بھی نہیں لائی جا سکتی۔

سیاسی وعدے قرض کی طرح ہوتے ہیں جنہیں چکانا فرض ہوتا ہے۔ موجودہ حکومت اپنے وعدوں کے بھاری بوجھ تلے دبی ہے، اب جیسے جیسے وقت ہاتھ سے پھسل رہا ہے یہ بوجھ مزید بڑھتا جا رہا ہے، ہمت سے زیادہ بوجھ اٹھائے کسی مزدور کی طرح حکومتی سسکیاں صاف سنائی دے رہی ہیں۔ پاکستانی عجیب قوم ہیں، وہ شاید یہ تو بھول سکتے ہیں انہوں نے ناشتے میں کیا کھایا تھا لیکن وہ یہ کبھی نہیں بھولتے انہوں نے کون سی پارٹی کو کس وعدے پر ووٹ دیا تھا۔ ایک معاشی تجزیہ کار کی یہ بات درست لگتی ہے ”جس طرح اب تک ملک چلایا جا رہا ہے ایسے تو سمندری گھونگھوں اور سیپیوں کا کھوکھا بھی نہیں چلایا جاتا۔“ حکومت کی مسلسل وعدہ خلافیوں اور کھوکھلی تسلیوں نے عوام میں حکومت کے خلاف ناپسندیدگی اور بیزاری کے جذبات ابھارے ہیں۔ تحریک انصاف سے جتنی زیادہ توقعات تھیں مایوسیاں اس سے بھی زیادہ شدید ہیں۔ اس کا اندازہ دکانوں، مارکیٹوں اور یوٹلیٹی اسٹورز سے خریداری کرنے والوں کو دیکھ کر لگایا جاسکتا ہے، جہاں آپ کو بہت سارے ایسے لوگ بھی ملیں گے جو نئے پاکستان کی جنت کے خوشبودار میووں کے بجائے پرانے پاکستان کے جہنم میں جلنے کو پسند کریں گے۔

بدقسمتی سے وزیراعظم عمران خان کو اپنے ہر اس وعدے سے پھرنا پڑ رہا ہے جو وہ ماضی میں کرتے رہے ہیں۔ سیاسی مخالفین کے علاوہ انہیں ہر جگہ سمجھوتے کرتے دیکھا جا رہا ہے۔ وہ بغیر شرمائے ”یو ٹرن حکمت عملی“ کا دفاع کرتے ہیں، جس سے عوام میں غصہ اور مایوسی اور بڑھ جاتی ہے۔ ایک شخص نے تو یہاں تک کہا۔ ”میں تو آئندہ اس حکومت کو لمبے بانس سے بھی چھونا پسند نہیں کروں گا، اس کی واحد وجہ عمران خان ہیں، وہ جب سے وزیراعظم بنے ہیں انہیں“ مکر جاؤ ”(اپنے وعدوں سے ) کے علاوہ کچھ اور کرتے نہیں دیکھا۔“

موجودہ حکومت تضادات کا مجموعہ لگتی ہے، جو کل غلط تھا آج درست ہے، ٹیکس جمع کرنے کی پالیسیوں سے متعلق بھی کل کچھ کہا جاتا تھا آج کچھ اور کہا جا رہا ہے۔ تحریک انصاف کا موقف رہا ہے ٹیکس میں اضافے کے بجائے ٹیکس نیٹ میں اضافہ کیا جانا چاہیے لیکن اب تک اس معاملے میں بھی کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی۔ اب حال یہ ہے کہ اکثر ٹیکس دہندگان کو ٹیکسوں کی ادائیگی کے احکامات بھی دراز دستی لگتے ہیں۔ ایف بی آر کے پاس آٹھ دسمبر 2020 کی ڈیڈ لائن تک 17 لاکھ انکم ٹیکس گوشوارے جمع ہوئے ہیں، پچھلے سال کے مقابلے میں یہ گوشوارے 40 فیصد کم ہیں، عمران خان کے اپنے الفاظ تھے ”لوگ ٹیکس اس لیے نہیں دیتے وہ حکمرانوں کو بدعنوان اور چور سمجھتے ہیں۔“ مگر حکومتی ترجمان آج بالکل مختلف دلیلیں پیش کرتے ہیں، صادق و امین کے عدالتی سرٹیفکیٹ کے پیچھے چھپتے ہیں۔

کسی بھی ملک میں سیاسی استحکام سرمایہ کاری کی پہلی شرط ہوتی ہے، سادہ سی بات ہے جب جھکڑ چل رہے ہوں، طوفانی ہوائیں درختوں کو جڑوں سے اکھاڑ پھینک رہی ہوں، ایسے میں کون احمق ہوگا جو پھل توڑنے کے لیے درخت پر چڑھے گا۔ ملک میں سیاسی انتشار آج عروج پر ہے۔ اپوزیشن جماعتیں دارالحکومت پر چڑھائی کے لیے تسمے کس چکی ہیں۔ کسی کو کچھ نہیں پتا کل کیا ہو جائے؟ غیر یقینی کی گھٹائیں چھائی ہیں، سیاسی افواہیں کھمبیوں کی طرح پھوٹ رہی ہیں۔ اب کون سرمایہ کار ہوگا جو اپنا پیسہ لگانے کا خطرہ مول لے گا؟ بلکہ پہلے سے موجود سرمایہ کار الٹا اپنا پیسہ نکال رہے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کی اپنی رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے پانچ ماہ میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں 81 فیصد کمی ہوئی۔ نومبر میں نئی سرمایہ کاری کی بجائے غیر ملکی اپنی پہلے سے موجود سرمایہ کاری سے بھی تین کروڑ 62 لاکھ ڈالر نکال لے گئے، یہ صورت حال پاکستان کی نیم مردہ معیشت پر سو درے ثابت ہو رہی ہے۔

معروف فرانسیسی مفکر پی جے پرودھوں کا نظریہ تھا ”جائیداد چوری کا مال ہے“ اب پرودھوں سے تھوڑا سا مختلف نظریہ ہمارے وزیراعظم عمران خان نے بھی دیا ہے۔ ”جائیداد چوری کا مال ہے لیکن صرف وہ جائیداد جس کے مالک سیاسی مخالفین ہوں۔“ موجودہ تمام تر احتسابی عمل صرف اسی سوچ کے تابع دکھائی دیتا ہے۔ سپریم کورٹ کے اپنے الفاظ ہیں ”ایک بندہ ایسا نہیں ملتا جو نیب کی تعریف کرتا نظر آئے۔“ وزیراعظم عمران خان کو سمجھنا ہوگا، یہ نہیں ہو سکتا ایک گناہ پر تو آپ سیاسی مخالفین پر شیر کی طرح دھاڑیں لیکن وہی جرم اگر اپنا ساتھی کرے تو آنکھیں پھیر لیں یا آپ کی آواز نکلے بھی تو اس پر فاختہ کی ”گھگو گھو“ یا کبوتر کی بے ضرر ”غٹرغوں“ کا گمان ہو۔ کوئی مانے یا نہ مانے وزیراعظم کا اب تک یہی رویہ رہا ہے۔ اس سے بڑی نا انصافی کوئی اور ہو نہیں سکتی، ایسی جماعت جس کے نام کے ساتھ ”انصاف“ نتھی ہے اس نے جانتے بوجھتے بھی موجودہ ”نظام انصاف“ کی غلاظت دھونے کی نمائشی کوشش بھی نہیں کی، اگر آپ کو عدالتوں سے واسطہ پڑا ہے تو آپ جانتے ہوں گے وہاں کا ماحول دیکھ کریہ تصور کرنا بھی مشکل ہے کہ ساری مشق انصاف کی فراہمی کے لیے ہو رہی ہے۔ آپ ایک ہی خیال لے کر لوٹتے ہیں، جو کچھ ہو رہا ہے اس کا ایک ہی مقصد ہے بس ”کاروبار حیات“ چلتا رہے۔ پولیس رشوت سے پیٹ بھرتی رہے، ڈاکو وارداتیں کرتے اور ضمانتیں لیتے رہیں۔ وکیل کا چیمبر آباد رہے اور جج ایماندار ہے تو تنخواہ اور مراعات سے فیضیاب ہوتا رہے۔ یہاں آپ کو سب کچھ ہوتا دکھائی دے گا سوائے انصاف کے۔ کیا ان ڈھائی برسوں میں حکومت نے عدالتی نظام کی اصلاح کے لیے کوئی ایک قدم بھی اٹھایا؟ کوئی ایک شق بھی اسمبلی میں پیش کی؟ جواب ہے نہیں بالکل نہیں۔ آج موجودہ نظام انصاف سے لوگ اس قدر بے زار ہیں کہ ایک شخص نے یہاں تک کہا ”اگر کوئی شخص موجودہ“ نظام انصاف ”کو اٹھا کر کسی کباڑیے کو بیچ ڈالے، کسی عجائب گھر میں پڑے چرخے، چکی یا گراموفون کے پہلو میں رکھ دے تو یہ عوام اور خود نظام انصاف کے ساتھ زیادہ انصاف ہوگا۔“

 ”فوج اور حکومت ایک پیج پر ہے“ یہ وہ جملہ ہے جو وزیراعظم عمران خان سے لے کر تمام وزیر، مشیر دن رات چیونگم کی طرح چباتے ہیں۔ ایک ماہر نفسیات کے الفاظ میں ”اگر دو افراد سو فیصد ہم آہنگی کا دعویٰ کریں تو سمجھ لیں کسی ایک کی اپنی کوئی رائے نہیں ہے۔“ جب دو انسان ایک جیسا نہیں سوچ سکتے تو دو ادارے تو پھر بڑی دور کی بات ہے، ادارے بھی ایسے جہاں طاقت کا پلڑا ہمیشہ ایک ہی طرف کو جھکا رہا ہے، بقول ایک بزرگ سیاست دان ”پاکستان وہ ملک ہے جہاں حکومت کو فارغ کرنے کے لیے جوانوں کا ایک ٹرک ہی کافی ہوتا ہے۔“ یہ کوئی مفروضہ نہیں، قوم نے ایسے مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ فوج کی جانب سے موجودہ حکومت کی کھلی حمایت کے باوجود بھی ایسی ریاست، جہاں بے پناہ طاقت کا مقابلہ بے پناہ کمزوری سے رہا ہو، وہاں ایک صفحے پر ہونے کے دعووں پر کون یقین کرے گا؟ البتہ یہ ضرور ہے فیصلہ ساز اداروں نے جس طرح اپنا وزن موجودہ حکومت کے پلڑے میں ڈالا اس کی مثال کم ہی ملتی ہے، یہی وجہ ہے کہ حکومت کو دن رات ”کٹھ پتلی“ کے طعنے سننا پڑ رہے ہیں جو کافی حد تک جائز بھی لگتے ہیں۔ اسی بات کو جواز بنا کر اپوزیشن حکومت کی ناکامیوں کا بوجھ فوج کے کندھوں پر ڈال رہی ہے۔ خاص طور پر مسلم لیگ نون اپنے ووٹرز اور بالخصوص پنجاب میں یہ تاثر گہرا کرنے میں کامیاب رہی ہے کہ عوام پر نازل ہونے والی تمام مصیبتوں کے ذمے دار عمران خان نہیں بلکہ وہ طاقتیں ہیں جو موجودہ ”بندوبستی نظام“ کی بانی ہیں۔ پنجاب جیسے ”ملٹری بریڈنگ“ صوبے میں بھی فوج کے سیاسی کردار پر آج اونچی آواز میں سوالات ہو رہے ہیں، اس سے ایک بات ظاہر ہے، یہاں لوگ ”فوج سے جذباتی لگاؤ تو رکھتے ہیں لیکن سیاسی نہیں۔“ لہذا ایک صفحے کی گردان سے بہتر ہے مہذب جمہوری ملکوں کی طرح اپنے اپنے صفحے پر رہا جائے۔ یہ ایک صفحے کی خواہ مخواہ کی تکرار سے زیادہ قابل عزت بات ہوگی۔

تحریک انصاف نے جہاں کئی دلفریب انتخابی نعرے دیے وہاں نئے پاکستان کے ساتھ ”دو نہیں ایک پاکستان“ کی خاصی اونچی گونج سنی گئی، ایک ایسی ریاست جہاں تمام شہریوں کے حقوق برابر ہوں گے، ، جہاں انصاف کا بول بالا ہوگا۔ جہاں طاقت ور افراد کے ہاتھوں غریب اور کمزور طبقے کا استحصال نہیں ہوگا۔ سیاسی تعصبات کو ایک طرف رکھ کر ایمانداری سے بتائیں کیا اب تک ہم ایسی ریاست کی کمزور سی جھلک بھی دیکھ پائے ہیں؟ کہتے ہیں بد ہیئت سے بد ہیئت، بجلیوں کا مارا ٹنڈ منڈ شاہ بلوط بھی دو ڈھائی سال بعد چند ایک ٹہنیاں تو نکال ہی لیتا ہے لیکن یہاں تو اتنی سی ہریالی بھی نظر نہیں آئی۔ روسی فلسفی پرنس پتر کوروپوتکین کے نزدیک ”ریاست ایسے معاشرے کا نام ہے جہاں زمین دار، عسکری کمانڈر، جج، پادری (علامتاً مذہبی جماعتیں) اور سرمایہ دار مل کر ایک دوسرے کے مفادات کو سہارا دیتے ہیں۔ یوں کمزور طبقے کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر دولت سمیٹی جاتی ہے۔“ اس وقت ہم عمران خان کی پیش کردہ فلاحی ریاست میں رہ رہے ہیں یا پوتکین کی؟ فیصلہ آپ پر چھوڑا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).