کامریڈ بھارا بھی چلے گئے


جمعرات 17 دسمبر کو پاکستان میں مظلوم، محکوم اور پسے ہوئے طبقات کے حقوق کی جدوجہد کرنے والے ایک اور روشن ستارے، پاکستان کسان کمیٹی کے جنرل سیکرٹری ملک محمد علی بھارا اپنی 69 سالہ سیاسی جدوجہد اور انقلابی تحریک کے ساتھ وابستگی نبھانے کے بعد انتقال کر گئے۔

وطن عزیز کا سیاسی منظر نامہ تو قیام پاکستان سے ہی دھندلا تھا۔ نہ منزل کا تعین، نہ سفر کا آغاز، نہ کوئی منصوبہ بندی، اور نہ ہی ملک کے 22 کروڑ عوام کی اس میں شمولیت۔ وطن عزیز کی آزادی اور اس کے بعد ابھرنے والے منظر نامے پر غور کریں تو ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی ہی تھی جس نے عوام کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرتے ہوئے قیام پاکستان کی کھل کر حمایت کی تھی، جبکہ جماعت اسلامی سمیت تمام مذہبی جماعتوں نے قیام پاکستان کی بھرپور مخالفت کی تھی۔ مذہبی رہنما تو قائد اعظم کو کافر اعظم قرار دیتے تھے۔ ادھر مسلم لیگ، جس کے بارے میں محسن پاکستان محمد علی جناح کہتے تھے کہ میری جیب میں کچھ کھوٹے سکے ہیں، وہ بالکل درست تھا، کیونکہ جب پاکستان بننے جا رہا تھا تو سب جاگیردار، نواب، وڈیرے اور قبائلی سردار مسلم لیگ میں شامل ہو گئے تھے اور اپنی مالی اور سماجی قوت کی بدولت مسلم لیگ پر اپنی گرفت مضبوط کر چکے تھے۔ یہ وہی جاگیردار، قبائلی سردار، وڈیرے اور نواب تھے، جنہوں نہ اپنی جاگیریں برطانوی سامراج کی خدمت، برطانوی سامراج کی جانب سے برصغیر کے عوام کی لوٹ اور استحصال میں معاونت، اور اپنے وطن سے غداری کے عوض حاصل کی تھیں۔

یہ وہی دور تھا جب برطانوی سامراج دوسری عالمی جنگ کی تباہ کاریوں کی وجہ سے بہت کمزور ہو چکا تھا اور دوسرے ملکوں پر قبضہ رکھنا یا ان کو کنٹرول کرنا اس کے لیے ممکن نہ رہا تھا۔ اس سے بھی اہم بات کہ اس وقت تک امریکی سامراج عالمی منظر نامے پر نئی سامراجی قوت کے طور پر ابھر کر آ چکا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد مسلم لیگ کے علاوہ کمیونسٹ پارٹی ہی تھی جو بڑی تیزی سے سیاسی منظر نامے پر ابھر کر سامنے آ رہی تھی۔ اس سے وابستہ عوامی تنظیمیں جن میں پاکستان کسان کمیٹی، پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن، انجمن ترقی پسند مصنفین، انجمن جمہوریت پسند خواتین اور ڈیمو کریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن شامل تھیں، ملک کے مظلوم، محکوم اور پسے ہوئے طبقات، کسانوں، اور مزدوروں کو متحرک کرنے، انہیں سیاسی شعور دینے اور انہیں ان عوامی تنظیموں کے ذریعے منظم کر کے کمیونسٹ پارٹی کو ملک کے سیاسی منظر نامے پر نمودار کر رہی تھیں۔

ملک میں صنعت نہ ہونے کے برابر تھی، سوائے ریلوے اور ڈاک خانہ کے جہاں پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کے رہنماؤں مرزا محمد ابراہیم اور فیض احمد فیض کا طوطی بولتا تھا۔ اس وقت ملک کے 74 فیصد سے زائد عوام دیہات میں رہتے تھے، جس کی وجہ سے کسانوں کو سیاسی شعور دینے اور سیاسی دھارے میں لانے کے لیے پاکستان کسان کمیٹی کی اہمیت سماجی تبدیلی کے لیے بنیادی اہمیت رکھتی تھی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ بھی تھی کہ ملک پر جاگیر داروں اور قبائلی سرداروں کی گرفت بہت مضبوط تھی۔

دیہاتی آبادی کا بہت بڑا حصہ زرعی زمیں کی ملکیت کے بغیر تھا اور بطور مزارعے یا کھیت مزدور جاگیر داروں اور سرداروں کے براہ راست جبر اور استحصال کا شکار تھا۔ اس طرح دیہاتی عوام مجموعی طور پر ان جاگیرداروں، وڈیروں اور سرداروں کی معاشی، سیاسی اور سماجی غلامی کا شکار تھی۔ پاکستان کے نامور سوشلسٹ راہنما اور پاکستان میں کسان تحریک کے بانی کامریڈ چودھری فتح محمد نے 2016 میں شائع ہونے والی اپنی خود نوشت سوانح ”جو ہم پہ گزری“ میں لکھا ہے کہ 1950 میں ان کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تو پارٹی نے فیصلہ کیا کہ انہیں گرفتاری نہیں دینی بلکہ دوسرے ضلعوں میں جا کر پارٹی کا کام، بالخصوص کسانوں کو منظم کرنا ہے۔

1951 میں انہوں نے وہاڑی کے مختلف دیہاتوں میں کسانوں کے جلسے کرنے کے بعد آخری بڑا جلسہ وہاڑی شہر میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا تو جلسے کے انتظامات میں معاونت کے لیے اوکاڑہ سے کامریڈ عبدالسلام تشریف لے آئے۔ ہم نے شہر میں مختلف شخصیات سے ملاقاتیں کیں تو وہیں ہماری ملاقات غلہ منڈی کے ایک نوجوان آڑھتی سے ہوئی، جس نے کسان تحریک سے متاثر ہو کر غلہ منڈی میں ان کی دکان کے سامنے جلسہ منعقد کرنے کی تجویز دے دی۔

اس زمانے میں تشہیر کا نظام بہت محدود تھا، اس لیے ہم نے شہر میں ٹین بجا کر منادی کی۔ جلسہ بہت کامیاب ہوا اور اس نوجوان آڑھتی نے جس کا نام محمد علی تھا، ہماری تحریک میں شمولیت کا اعلان کر دیا۔ بعد ازاں وہی محمد علی اس قدر متحرک اور کمٹڈ انقلابی بن کر ابھرا کہ وہ میرا سب سے قریبی ساتھی بن گیا اور اب وہ پاکستان کسان کمیٹی کا مرکزی جنرل سیکرٹری ہے اور سیاسی حلقوں میں ملک محمد علی بھارا یا کامریڈ محمد علی بھارا کے نام سے جانا جاتا ہے۔

اسی دوران 1949 میں چین کے عوام نے ملک میں سوشلسٹ انقلاب برپا کر دیا تو امریکہ کے لیے نئے آزاد ہونے والے پاکستان کی جغرافیائی اہمیت بڑھ گئی۔ 1951 تک پاکستان پر امریکہ کی گرفت بڑی حد تک مضبوط ہو چکی تھی اور وہ پاکستان کو قرضوں اور اسلحہ کی فروخت کے جال میں پوری طرح سے پھنسا چکا تھا۔ پاکستان میں امریکی آشیرباد سے ابھرتی ہوئی انقلابی تحریک کو کچلنے کے منصوبے بنائے جانے لگے۔ ایک طرف ملک میں جاگیرداری نظام کو مضبوط کرنا اور اس کا بیوروکریسی کے ساتھ گٹھ جوڑ کروانا امریکہ کے مفادات میں تھا تو دوسری طرف سماجی برابری اور انصاف پہ مبنی معاشرے کے قیام کی تحریکوں کو کچلنا بھی ان کے سامراجی مفادات کے لیے ضروری ہو گیا تھا۔

اس کام کو احسن طریقے سے سرانجام دینے کے لیے مذہبی جماعتوں کا بیوروکریسی سے گٹھ جوڑ کروا کر مذہبی کارڈ کھیلا گیا اور سوشلزم کے خلاف وسیع تر پراپیگنڈہ کا آغاز کر دیا گیا۔ مذہبی جماعتیں براہ راست امریکی سفارت خانے کے ساتھ کام کرنے لگیں اور سماجی برابری اور انصاف پہ مبنی نظم ”سوشلزم“ کی عوام میں ابھرتی ہوئی مقبولیت کو لادینیت ثابت کرنے لگیں۔ ادھر سول و ملٹری بیوروکریسی، اور جاگیر داروں کے ساتھ مذہبی جماعتوں کی ایک ایسی تکون بنا دی گئی جو ملک میں اسٹیٹس کو کو برقرار رکھنے کے لیے خطرناک ہتھیار بن گیا، جو اب تک برقرار ہے۔

پھر آہستہ آہستہ ہمارے ملک کی بیوروکریسی نے مذہب کو سیاسی تحریکوں کو کچلنے اور لنگڑی لولی جمہوری حکومتوں کو بلیک میل کرنے کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا، جو اپنی پوری شد و مد کے ساتھ اب تک جاری ہے۔ 1953 میں ملک میں کمیونسٹ پارٹی اور اس کے ساتھ ملحقہ عوامی تنظیموں جن میں پاکستان کسان کمیٹی بھی شامل تھی، پر پابندی لگا دی گئی اور اس کے تمام اہم راہنماؤں کو راولپنڈی سازش کیس بنا کر گرفتار کر لیا گیا۔ ملک میں ترقی پسند سوچ اور تحریکیں جو کسی بھی سماج میں رواداری، مساوات اور بھائی چارے کی علامت ہوتی ہیں، کو کچلنے کے لیے ہر جائز و ناجائز طریقہ استعمال کیا گیا۔

ترقی پسند سیاسی کارکنوں و راہنماؤں نے اس مشکل وقت میں آزاد پاکستان پارٹی اور دیگر چھوٹی جماعتوں میں شمولیت اختیار کر کے اپنی سیاست کو زندہ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ چونکہ یہ عمل انہوں نی ذاتی حیثیتوں میں کیا، اس لیے نظریاتی کارکنوں میں سیاسی ہم آہنگی کا فقدان ایک قدرتی عمل تھا۔ مرکزی تنظیمی ڈھانچہ کی عدم موجودگی کی وجہ سے ترقی پسندوں کی تنظیمیں شہروں اور علاقوں کی تک محدود ہو کر رہ گئیں جس کی وجہ سے آج تک ایک متحدہ، وسیع تر اور منظم تنظیمی ڈھانچہ نہ بن پایا۔

انڈر گراؤنڈ کمیونسٹ پارٹی منظم تو کی گئی لیکن پنجاب اور صوبہ سرحد کی تنظیم علیحدہ اور کراچی والی علیحدہ رہی، جو آج تک یکجا نہ ہو سکی۔ 1957 میں ڈھاکہ میں نیشنل عوامی پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تو سارے ترقی پسند اس میں شامل ہو گئے، جن میں ملک محمد علی بھارا بھی شامل تھے۔ لیکن بدقسمتی سے یہ ایک دہائی میں ہی دو دھڑوں، ولی گروپ اور بھاشانی گروپ میں تقسیم ہو گئی۔ کراچی والی انڈر گراؤنڈ کمیونسٹ پارٹی پنجاب اور سرحد والی کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ کھڑے ہونے کی بجائے نیشنلسٹوں کے ساتھ ولی گروپ کے ساتھ چلی گئی۔

Muhammad-Ali-Bhara-with-Dr-Shah-Muhammad-Mari

ادھر پنجاب اور سرحد والی انڈر گراؤنڈ کمیونسٹ پارٹی نے 1960 میں ہی سی آر اسلم، سردار شوکت علی، مرزا ابراہیم، عابد حسن منٹو، میجر اسحاق محمد، سید مطلبی فرید آبادی اور چوھدری فتح محمد کی قیادت میں ممنوع قرار دی گئی پاکستان کسان کمیٹی اور پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کو نئے سرے سے لانچ کر دیا اور ان کی تنظم سازی کر کے ملک میں کسان کانفرنسوں اور لیبر کانفرنسوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کر دیا۔ یہی وہ زمانہ ہے جب ملک محمد علی بھارا وہاڑی سے نکل کر پنجاب بھر میں سرگرم ہو گئے اور چوھدری فتح محمد کے ساتھ مل کر ملک بھر میں کسانوں کو منظم کرنے لگے۔

وہ دونوں ساتھی کل وقتی کارکن کے طور پر مختلف علاقوں میں کسان کانفرنسیں کرنے کے لیے میدان میں آ گئے۔ خانیوال، ٹانڈہ، لودھراں، حسن ابدال، چنی گوٹھ اور دیگر کسان کانفرنسوں کے بعد ملک بھر میں کسان کارکنوں کے جتھے بنا کر پھیل گئے اور 23 مارچ 1970 کو ٹوبہ ٹیک سنگھ میں برصغیر کی سب سے بڑی کسان کانفرنس کر دی، جو بھاشانی کسان کانفرنس کے نام سے مشہور ہوئی۔

پاکستانی حکمران اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ کی بے حسی کو دیکھتے ہوئے مولانا بھاشانی اور مشرقی پاکستان کی نیشنل عوامی پارٹی نے مغربی پاکستان کو خدا حافظ کہ دیا تو نیشنل عوامی پارٹی بھاشانی کے مغربی پاکستان کے ساتھیوں نے 23 مارچ 1971 کو خانیوال میں پارٹی ورکرز کنونشن اور ایک بڑی کسان کانفرنس کر کے پاکستان سوشلسٹ پارٹی کی بنیاد رکھی۔ ملک محمد علی بھارا اس کسان کانفرنس کے انتظامات میں پیش پیش رہے۔ پارٹی کارکنوں نے کانفرنس میں اپنی ماضی کی سیاست اور ملک کے بدلتے ہوئے حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے جو نتائج اخذ کیے ان میں ایک اہم یہ تھا کہ ایک ہی وقت میں انڈر گراؤنڈ پارٹی اور ایک اوپن پارٹی چلانا آج کے دور میں ممکن نہیں ہے۔

اس لیے نئی پارٹی جمہوری بنیادوں پر ایک اوپن انقلابی پارٹی ہو گی تا کہ پارٹی کے اندر نظریاتی یکجہتی ہو اور وہ عملی سیاست میں فعال کردار ادا کر سکے۔ ملک کے دولخت ہونے اور نئی پارٹی کے قیام کو ابھی چند برس ہی ہوئے تھے کہ ہمسایہ ممالک ایران اور افغانستان میں بڑی تبدیلیاں ہونے لگیں اور 5 جولائی 1977 کو ہمارے ملک کی مسلح افواج نے اپنا ماضی دہراتے ہوئے ایک بار پھر ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔

ملک میں سیاسی سرگرمیاں محدود ہو گئیں اور مارشل لا کے سائے میں ایک کنٹرولڈ عدالتی کارروائی کے بعد ملک کے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ ہمارے ہمسایہ ممالک ایران اور افغانستان میں تبدیلی کی لہر بے قابو ہونے لگی تو امریکی سامراج نے جلاوطن مذہبی رہنما آیت اللہ خمینی کو ہیرو بنا کر فرانس کی جلا وطنی سے لا کر ایران میں لانچ کر دیا اور سماجی تبدیلی کا رخ بڑے منظم طریقے سے مذہبی تبدیلی کی طرف موڑ دیا۔

مغربی دنیا نے اسے ایک انقلاب کے طور پر پیش کیا اور اتنا جھوٹ بولا کہ وہی سب کو سچ نظر آنے لگا۔ البتہ افغانستان میں عوام نے خلق پارٹی کی قیادت میں 1978 میں شاہ داوٴد کے اقتدار کو ملیامیٹ کر دیا اور شاہی محل کا گھیراؤ کر لیا۔ نور محمد ترکئی اور حفیظ اللہ امین کی قیادت میں خلق پارٹی نے اقتدار سنبھال لیا اور اس قبائلی سماج پر مشتمل ملک میں وسیع تر اصلاحات کا اعلان کر دیا۔ خطے میں اتنی تیزی سے بدلتے ہوئے حالات سے امریکی سامراج کے مفادات کو بہت دھچکا لگا اور اسے تیل کی دولت سے مالا مال خلیجی ممالک میں ان تبدیلیوں کے اثرات کا خطرہ محسوس ہونے لگا۔

امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے نے اپنی تاریخ کا سب سے بڑا آپریشن لانچ کیا جس کے لیے ہمسایہ ممالک کے خلاف پاکستانی سرزمین فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیأ نے سی آئی اے کے حوالے کر دی۔ دنیا بھر سے مذہبی انتہاپسند جہادیوں کی بھرتی شروع ہو گئی جس کے لیے امریکہ، مغربی ممالک اور سعودی عرب نے ڈالروں کی بوریاں کھول دیں۔ اس طرح ہمارے مارشل لائی حکمرانوں نے نہ صرف افغانستان تباہ کروا دیا، بلکہ پاکستان کی بنیادوں کو بھی کھوکھلا کر دیا۔ جہاد کے اس جنون نے وطن عزیز کی تین نسلیں برباد کر دیں اور اپنے ہی ہم وطنوں کی لاشوں کے ڈھیر لگا دیے۔ ہمارے ملک کے 90 ہزار سے زیادہ معصوم اور بے گناہ شہری اپنے ہی ہم وطنوں نے شہید کر دہے۔

ملکی سطح پر تحریک بحالی جمہوریت ”ایم آر ڈی“ قائم ہو گئی، جس نے ملک میں مارشل لا کے خاتمہ، آئین کی بحالی اور جمہوریت کے تسلسل کے لیے تحریک کا اعلان کر دیا۔ اس اتحاد کے راہنماؤں نے پاکستان سوشلسٹ پارٹی کو اس میں یہ کہ کر شامل نہ کیا کہ اس سے تحریک میں سوشلسٹوں کا پلڑا بھاری ہو جائے گا۔ پارٹی نے ملک میں آئینی اور جمہوری حقوق کی بحالی اور سیاسی آزادیوں کے لیے اپنے طور پر حصہ ڈالنے کے پروگرام مرتب کیے۔

پارٹی نے ایک طرف ملک بھر میں کسان کانفرنسوں اور لیبر کانفرنسوں کا پروگرام ترتیب دیا تو دوسری طرف پارٹی کر جنرل سیکرٹری عابد حسن منٹو کی زیر قیادت وکلا کی ملک گیر تحریک کی بنیاد رکھ دی۔ جنہوں نے لاہور میں وکلا کا کل پاکستان کنونشن منعقد کر کے وکلا کی ملک میں مارشل لا کے خاتمے، آئین اور جمہوری اداروں کی بحالی اور جماعتی بنیادوں پر نئے الیکشن کا مطالبہ کر دیا۔ طلبا کے محاذ پر سوشلسٹ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے دوسری ترقی پسند تنظیموں کے ساتھ مل کر پاکستان پروگریسو سٹوڈنٹس الائنس کی بنیاد رکھی، جس کا میں بھی حصہ تھا۔

پھر اچانک ملک میں طیارہ اغوا کا ڈرامہ رچا کر سیاسی رہنماؤں کی گرفتاریاں شروع ہو گئیں۔ ملک بھر میں پیپلز پارٹی کے بعد دوسرے نمبر پر پاکستان سوشلسٹ پارٹی کے راہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کر کے نظر بند کر دیا گیا۔ پارٹی کا اخبار ”عوامی جمہوریت“ بند اور مرکزی و علاقائی دفاتر سیل کر دیے گئے۔ ملک محمد علی بھارا، پارٹی کے مرکزی نائب صدر انیس ہاشمی اور سندھ پارٹی کے جنرل سیکرٹری حسن عسکری پولیس چھاپے کے وقت گھر نہ ہونے کی وجہ سے گرفتاری سے بچ گئے۔

جو پہلے چند ہفتے علامہ اقبال ٹاؤن لاہور میں میرے ساتھ میرے بھائی کے فلیٹ میں رہے، بعد ازاں اور بندوبست کر لیا گیا۔ انیس ہاشمی نے پارٹی اخبار کی ذمہ داری سنبھال لی جس کی اشاعت اور ترسیل کے لیے میں ہاتھ بٹاتا تھا۔ میں ان دنوں انجنیئرنگ یونیورسٹی لاہور میں زیر تعلیم تھا اور سوشلسٹ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم سے سرگرم تھا۔ ملک محمد علی بھارا نے ملک بھر میں پارٹی یونٹس سے رابطوں کی ذمہ داری سنبھال لی اور پہلی مرتبہ پارٹی کے تنظیمی معاملات میں اپنی لگن، محنت، بے لوث کمٹمنٹ سے تنظیمی صلاحیتوں کو منوایا۔

6 ماہ بعد سیاسی رہنما رہا ہوئے تو کسان کمیٹی کے صدر چوھدری فتح محمد، جنرل سیکرٹری ملک محمد علی بھارا نے پنجاب کسان کمیٹی کے صدر مختار چوھری ایڈووکیٹ، صوبائی جنرل سیکرٹری محمد علی سہیول اور پارٹی صدر سی آر اسلم سے مل کر پنجاب میں، اور اسحاق منگریو اور حسن عسکری کے ساتھ مل کر سندھ میں کسان کانفرنسوں کا پرگرام ترتیب دیا، جن سے ضیا دور کی دہشت کے دور میں انقلابی کارکنوں کا مورال بلند ہوا۔ بائیں بازو کے اس فعال کردار نے ملک بھر کے ترقی پسند کارکنوں میں 1953 کے بعد کی بکھری ہوئی ترقی پسند تحریک میں یکجا ہونے کا جذبہ بیدار کر دیا اور ساری ترقی پسند جماعتوں کے کارکن کسان کانفرنسوں میں آنے لگے، اور اپنی پارٹیوں کی لیڈر شپ سے ترقی پسند قوتوں کو یکجا کر کے ایک منظم، متحرک، با عمل اور متحدہ سیاسی جماعت کے قیام کا مطالبہ کرنے لگے۔

اس سارے عمل کا مثبت نتیجہ نکلنا شروع ہو گیا اور بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں نے باہمی ادغام کر کے متحدہ سیاسی جماعت بنانے کی راہ ہموار کی۔ 1986 کے بعد انضمام کے بیشتر مراحل سے گزرنے کے بعد نومبر 2012 میں ورکرز پارٹی، لیبر پارٹی اور عوامی پارٹی کا ادغام ہوا اور عوامی ورکرز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی۔ ملک محمد علی بھارا اس میں فعال کردار ادا کرتے رہے۔

کسان راہنما ملک محمد علی بھارا نے 1951 سے اپنا سیاسی سفر شروع کیا۔ وہ پاکستان کمیونسٹ پارٹی کے سفر سے لے کر عوامی ورکرز پارٹی تک ایک اہم اور سرگرم رکن رہے۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی کسانوں اور مزدوروں کو منظم اور ان کی حکمرانی قائم کرنے کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے گزری۔ ملک محمد علی بھارا نے اپنی جوانی میں سماجی تبدیلی اور استحصال سے پاک معاشرے کا جو خواب دیکھا، اس کی تعبیر کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیا۔ آیسے مخلص اور بے لوث نظریاتی انسان اپنی آنے والی نسلوں کے لیے رول ماڈل ہوتے ہیں اور سماجی تبدیلی اور انصاف پہ مبنی سماج کے قیام کے لیے جاری جدوجہد انہیں ہمیشہ زندہ رکھتی ہے۔

پرویز فتح (لیڈز-برطانیہ)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

پرویز فتح (لیڈز-برطانیہ)

پرویز فتح برطانیہ کے شہر لیذز میں مقیم ہیں اور برٹش ایروسپیس انڈسٹری سے وابستہ ہیں۔ وہ برطانیہ میں ساوتھ ایشین ممالک کے ترقی پسندوں کی تنظیم ساوتھ ایشین پیپلز فورم کورڈینیٹر ہیں اور برطابیہ میں اینٹی ریسزم اور سوشل جسٹس کے لئے سرگرم ہیں۔

pervez-fateh has 55 posts and counting.See all posts by pervez-fateh