’غگ‘ یا ’ژغ‘ کی قبائلی رسم: فائرنگ کرنے والے کو شادی کا اعلان مہنگا پڑ گیا


غگ
فائل فوٹو
صبح کا وقت تھا، سب لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے کہ اچانک گھر کے باہر دروازے پر زور دار فائرنگ ہوئی، ہر طرف سناٹا چھا گیا اور خوف پھیل گیا، ایسا لگا شاید کسی کو مار دیا گیا ہے۔

یہ ہوائی فائرنگ دراصل ایک اعلان تھا اور فائرنگ کرنے والا شخص بظاہر ’غگ‘ یا ’ژغ‘ کی روایت پر عمل کر رہا تھا۔

اعلان کچھ یوں تھا: ’اس گھر میں جو خاتون رہتی ہے میں اس سے شادی کروں گا اور کسی اور کو اس سے شادی نہیں کرنے دوں گا۔ اگر کسی اور نے اس سے شادی کرنے کی کوشش کی تو میں اسے مار دوں گا۔‘

لیکن اس شخص کو یہ اعلان بھاری پڑ گیا۔ اس خاتون اور ان کے والد نے پولیس کو رپورٹ درج کرا دی اوروہ شخص اب پولیس کی حراست میں ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقوں میں ماضی کی یہ رسم اب قابل گرفت جرم ہے۔

یہ روایت قبائلی علاقوں میں ژغ یا غگ کے نام سے رائج تھی۔ ژغ یا غگ پشتو زبان کے الفاظ ہیں جس کے معنی آواز یا اعلان کے ہوتے ہیں اور یہ روایت کسی لڑکی سے شادی کرنے کے لیے مرد کیا کرتے تھے۔

اس روایت کے تحت اکثر اوقات کوئی بھی مرد کسی مکان کے باہر اگر یہ اعلان کردے کہ اس گھر میں مقیم فلاں خاتون سے وہ شادی کرے گا تو پھر کوئی اور اس سے شادی نہیں کر سکتا تھا اور پھر وہ خاتون اکثر ساری زندگی ایسے ہی گزار دیتی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

بندوق کے زور پر زہر کا پیالہ

غگ: فرسودہ قبائلی روایت سے خواتین آج بھی پریشان

’بلوچستان میں خواتین کو احترام تو ملتا ہے، حقوق نہیں‘

تین برس میں 2000 سے زیادہ خواتین ’غیرت‘ کے نام پر قتل

یہ واقعہ کیسے پیش آیا ؟

یہ واقعہ جنوبی وزیرستان میں وانا شہر سے تقریباً 35 کلومیٹر دور اور پاک افغان سرحد کے قریب اعظم ورسک کے نزدیکی دیہات میں پیش آیا۔

پولیس کو درج رپورٹ میں بادشاہ گل نامی شخص نے بتایا کہ چند روز پہلے صبح تقریباً نو بجے وہ اپنی بیٹی اور دیگر اہل خانہ کے ساتھ گھر میں موجود تھے کہ اچانک باہر والے دروازے کے قریب فائرنگ ہوئی۔

رپورٹ کے مطابق فائرنگ کرنے والا شخص عمر خان تھا جس نے غگ یعنی اعلان کیا کہ وہ مدعی کی بیٹی سے شادی کرے گا۔ عمر خان نے یہ بھی اعلان کیا کہ اگر کسی اور سے اس لڑکی کی شادی ہوئی تو وہ اسے مار دے گا۔

لڑکی کی عمر کم از کم 15 سال بتائی گئی ہے۔

پولیس رپورٹ کے مطابق لڑکی کی منگنی پہلے سے ہی ایک رشتہ دار کے ساتھ ہو چکی ہے اور غگ کرنے والے شخص کے ساتھ پرانی دشمنی بھی چلی آ رہی ہے۔

اعظم ورسک تھانے کے انسپکٹر ذبیح اللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور انھوں نے مقامی سطح پر لوگوں سے کہا ہے کہ اس طرح کی فرسودہ روایتوں کی اجازت نہیں ہے۔

پاکستان، قبائلی جرگہ

قبائلی جرگہ (فائل فوٹو)

غگیا ’ژغ‘ کی رسم کیا ہے؟

غگ پشتو زبان کا لفظ ہے جس کے معنی آواز لگانے یا اعلان کرنے کے ہیں۔ یہ قدیم روایت بیشتر قبائلی علاقوں میں رائج تھی اس روایت کے تحت جس بھی مرد کو کوئی خاتون پسند آ جاتی تھی تو وہ اس خاتون کے گھر آ کر شادی کا اعلان کر دیتا تھا کہ یہ خاتون اب میری ہے، اسے غگ یا ژغ کہتے تھے۔

اس قسم کے تحت اگر برادری کا کوئی شخص کسی خاتون سے شادی کا اعلان کرتا تھا تو برادری کا کوئی اور شخص اس خاتون کے لیے رشتہ نہیں بھجواتا اور اس خاتون کے لیے شادی کے رشتے آنا بند ہو جاتے تھے۔

اس روایت یا رسم کے زیادہ تر واقعات بھی جنوبی علاقوں خاص طور پر جنوبی وزیرستان میں پیش آتے رہے ہیں۔

اس روایت کے تحت اس میں خاتون، اس کے والدین یا رشتہ داورں کی رضامندی کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی تھی۔

اس فرسودہ روایت کے تحت بعض اوقات لوگوں کا مقصد خاتون سے شادی کرنا نہیں ہوتا تھا بلکہ خاتون کے خاندان کو تنگ کرنا یا اپنی شرائط پر ان سے معاملات طے کرنا ہوتا تھا۔

یہ رسم بنیادی طور پر جنوبی وزیرستان سے شروع ہوئی اور پھر صوبے کے دیگر علاقوں تک پھیل گئی۔

شیر عالم شنواری کلچر ثقافت اور تاریخی واقعات پر گہری نگاہ رکھتے ہیں اور ان سے متعلق ڈان اخبار میں لکھتے رہتے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ ایک انتہائی بد ترین رسم تھی جسے 2012 میں ایک قانون کے تحت قابل گرفت جرم بنا دیا گیا ہے۔

خواتین

(فائل فوٹو)

شادی کا کیا طریقہ ہوتا ہے؟

قبائلی علاقوں خاص طور پشتون علاقوں میں یہ رسم پائی جاتی تھی۔ اس کے تحت لڑکے کے گھر والے پہلے تو رشتہ مانگنے کے لیے لوگ بھیجتے تھے جسے جرگہ بھی کہا جاتا تھا۔ شیر عالم شنواری کے مطابق لڑکی والوں کی جانب سے انکار کی صورت میں لڑکے والے پھر غگ یعنی پکار یا اعلان کرتے تھے جس میں لڑکی کے گھر والوں کے فیصلے کو چیلنج کیا جاتا تھا۔

اس غگ کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ علاقے کے کوئی اور لوگ پھر اس لڑکی کا رشتہ نہیں بھیجتے اور اگر کوئی بھیجے تو پھر دشمنیاں شروع ہو جاتیں اور لوگ قتل کیے جاتے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ غگ بظاہر عوامی سطح پر اعلان ہوتا تھا کہ باقی لوگ رشتہ نہ بھیجیں۔

شیر عالم شنواری کے مطابق ایسی صورتحال میں خاتون اور اس کے گھر والے بری طرح متاثر ہوتے تھے۔ اور یا تو وہ خاتون ہمیشہ کے لیے گھر بیٹھ جاتی اور اس کا رشتہ کہیں نہیں ہو پاتا تھا یا ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ لڑکی کو کوئی نقصان پہنچا دیا جاتا جس سے اس لڑکی کے رشتے سے باقی لوگ گریز کرتے۔

اس قانون یعنی غگ ایکٹ کے بعد اور قبائلی علاقوں کے انضمام کے بعد اس طرح کے واقعات میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن پھر بھی کہیں اکا دکا ایسے واقعات پیش آ ہی جاتے ہیں۔

قتل و غیرت

کیا یہ پہلا واقعہ ہے؟

ماضی میں یہ روایت عام تھی لیکن سول سوسائٹی اور لوگوں میں شعور پیدا ہونے کے بعد ان واقعات میں کمی واقع ہونا شروع ہوئی۔

جنوبی وزیرستان کے ضلعی پولیس افسر شوکت علی نے بتایا کہ واقعہ کے خلاف غگ ایکٹ کے تحت کارروائی کی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سال اب تک اس طرح کے چار واقعات پیش آ چکے ہیں جن میں لڑکوں نے اسی طرح سے غگ یعنی شادی کے اعلانات کیے۔

انھوں نے بتایا کہ اسی طرح کے دو واقعات سپین تھانہ میں اور ایک واقعہ راغزئی میں ہوا تھا۔ ان کا کہنا تھا ان واقعات کے خلاف مہم شروع کر دی گئی ہے اور علاقے میں معتبرین اور مشران سے رابطے کرکے انھیں بتایا گیا ہے کہ یہ غیر اخلاقی اور غیر شرعی روایت ہے جس کی اجازت نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ سپین تھانہ کے واقع میں غگ کرنے والے دونوں افراد کو جب گرفتار کیا گیا تو انھوں نے اپنے دعوے واپس لے لیے اور آئندہ اس طرح کی کوشش نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ اس سے پہلے رغزئی واقعہ میں بھی گرفتاری عمل میں آئی تھی۔

غگ ایکٹ کب منظور ہوا؟

اس روایت کے خاتمے کے لیے اگرچہ مختلف ادوار میں آواز اٹھائی گئی لیکن سال 2013 میں پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت نے اس فرسودہ روایت کے خلاف عملی اقدامات کرتے ہوئے قانون سازی کی اور صوبائی اسمبلی سے یہ قانون منظور کروایا تھا۔

اس قانون کے تحت جرم ثابت ہونے پر زیادہ سے زیادہ سات سال اور کم سے کم تین سال قید اور پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔

غگ ایکٹ کے قانون کی منظوری میں عوامی نیشنل پارٹی کی سابق رکن صوبائی اسمبلی ستارہ ایاز نے اہم کردار ادا کیا تھا۔

سنہ 2019 میں انھوں نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ اس فرسودہ رسم کے بارے میں بہت شکایات آ رہی تھیں جس پر سنہ 2012 میں اس کے خلاف قانون سازی پر کام شروع کیا گیا تھا۔

ستارہ ایاز کے مطابق اب بھی اس بارے میں آگاہی نہیں ہے کہ یہ رسم قابل سزا جرم بن چکی ہے اور حکومت کو اس سلسلے میں آگاہی مہم شروع کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ پولیس تھانوں اور متعلقہ محکموں کو بھی معلومات ہونی چاہییں کہ غگ اور ژغ اب ایک قابل گرفت جرم ہے۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32500 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp