مجھے کام نہیں آتا


وزیر اعظم عمران خان نے شاید ہی ایسی کوئی بات کی ہو جس پر مسلسل قائم رہے ہوں۔ وہ خود کہتے ہیں جو یو ٹرن نہ لے وہ بڑا لیڈر ہی نہیں۔ اب اپنے تازہ خطاب میں فرماتے ہیں کہ حکومت میں آنے کے بعد تین ماہ تک تو ہمیں ہوش ہی نہیں آیا۔ کسی کو بغیر تیاری کے حکومت میں نہیں آنا چاہئے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ڈیڑھ سال گزر جانے کے باوجود ان کی حکومت کو بجلی کے معاملات کا پتہ نہیں چلا۔ صرف اپوزیشن ہی نہیں حکومت کے کئی ناقدین یہ کہتے آرہے ہیں کہ عمران خان کو ان کے اپنے ارشادات کی اگلی۔ پچھلی ویڈیو ریکارڈنگز دکھا دی جائیں تو ان کے تمام تر دعوؤں کا پول کھل جاتا ہے۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ عمران خان کو یاد ہی نہیں رہتا کہ ایک ہی معاملے پر وہ پہلے کیا کہتے تھے اور اب کیا کہہ رہے ہیں۔

یہ صورت حال صرف ملک کے اندرونی حالات کے متعلق نہیں۔ بعض بین الاقوامی فورموں پر بھی عمران خان ایسے خیالات کا اظہار کر چکے ہیں پھر انہیں وضاحتیں دینا پڑیں۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ تاہم یہ بات خوش آئند ہے کہ وزیر اعظم نے اپنی پوری حکومتی مشینری کو مخاطب کر کے کہا کہ اب ہمارے پاس صرف سوا دو سال رہ گئے ہیں۔ اس لیے ہر حال میں ڈیلیور کرنا ہوگا۔ بات تو یہ بھی نئی نہیں۔ پی ٹی آئی حکومت بننے کے فوری بعد سے وزیر اعظم کہتے آئے ہیں کہ وزرا کی کارکردگی باقاعدگی سے مانیٹر ہوگی۔ جو اچھا کام نہیں کرے گا وہ فارغ ہو جائے گا۔ ایسا کچھ نہیں ہوا اور جو وزراتیں تبدیل کی گئیں اس کی وجوہات کچھ اور تھیں۔

تازہ ترین مثال حاضر ہے۔ ریلوے کا کباڑہ کرنے والے شیخ رشید کو داخلہ جیسی اہم ترین وزارت سونپ دی گئی۔ شیخ رشید کی کارکردگی پر صرف عوام نہیں حکومت کے اپنے اندرونی حلقے بھی انگلیاں اٹھاتے رہے ہیں۔ معیشت اور دیگر معاملات سے لاعلمی کے بارے میں عمران خان کی تازہ گفتگو عوام کو آگے چل کر پیش آنے والی مزید مشکلات کے تناظر میں پیش بندی کی ایک کوشش بھی ہوسکتی ہے۔ اگر یہ بات ناراضگی میں کی گئی ہے تو ان سلیکٹر صاحبان کو سنایا گیا ہے جن کا دعویٰ ہے کہ وہ دنیا کا ہر کام جانتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انہی کی گارنٹی تھی کہ کپتان فرنٹ پر ہوگا ہم پیچھے رہ کر معیشت کو بھی چار چاند لگا دیں گے۔ اب آئی ایم ایف پروگرام جاری رکھنے کے لیے بجلی کے نرخ مزید 7 فیصد اور گیس کی قیمت 10 فیصد بڑھانا ہوگی۔ اس طرح فی یونٹ اضافہ بہت زیادہ ہوجائے گا۔ ٹیکسوں میں 8 سے 10 فیصد تک اضافے کی شرط بھی پوری کرنا ہوگی۔ ٹیکسوں کی وصولی کا ٹارگٹ پہلے ہی پورا نہیں ہو رہا۔

کاروباری سرگرمیوں میں مندی کی صورتحال ہے۔ پراپرٹی بزنس بھی گر رہا ہے۔ بھارت اور بنگلہ دیش میں کورونا لاک ڈاؤن سے ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری کو جو عارضی فائدہ ہوا ہے وہ کپاس کے بحران کی نذر ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ سعودی اور امارتی قرضوں کی واپسی کے لیے چین سے جو رقم ادھار لی گئی اس پر شرح سود 14 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ اب قرضے خیر کیا واپس ہونگے۔ سود چکاتے چکاتے حشر ہو جائے گا۔

ایک طرف تو معیشت کی یہ تصویر ہے۔ دوسری جانب اندرونی اور بیرونی محاذ وں پر چیلنج بڑھتے جارہے ہیں۔ چند روز قبل مولانا عبدالغفور حیدری نے ایک نجی ملاقات میں بتایا تھا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے ہوم ورک پوری رفتار سے جاری ہے۔ پہلے پہل لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب اور مقتدر حلقوں سے قربت رکھنے والے دو اینکروں نے یہ معاملہ اٹھایا۔ حکومت نے بظاہر اب تک یہی موقف اختیار کر رکھا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے باوجود منظم انداز میں بحث جاری رہی۔ اب اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے دھواں دھار حملہ جے یو آئی کے سائیڈ لائن ہونے والے رہنما مولانا شیرانی سے کرایا گیا ہے۔ یہ وہی مولانا شیرانی ہیں جو جنرل مشرف کے دور میں باوردی سربراہ حکومت کی وکالت کیا کرتے تھے۔ سو مولانا شیرانی کو استعمال کرنے والوں نے اپنے طور پر پی ڈی ایم بالخصوص مولانا فضل الرحمن کو بھی ہٹ کرنے کی کوشش کی ہے۔ لگتا نہیں کہ مولانا شیرانی اینڈ کمپنی جے یو آئی میں کوئی بڑا ڈینٹ ڈال سکے۔

یہاں مولانا فضل الرحمن کی سیاسی بصیرت کو بھی داد دینا چاہیے کہ انہوں نے صورتحال کا بروقت ادراک کرتے ہوئے مولانا شیرانی اور حافظ حسین احمد وغیرہ کو غیر موثر کردیا۔ ان تمام چالوں کے باوجود اب تک اصل سوال یہی ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں اپنے احتجاجی عزائم پر من و عن قائم رہتی ہیں یا نہیں۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ پی ڈی ایم کے احتجاجی شیڈول میں شامل نکات پر عمل ہو اور حالات جوں کے توں رہ جائیں۔ یہ تحریک کا ہی اثر ہے کہ شیخ رشید اپوزیشن کی اہم شخصیات کو جان کے خطرات کا ڈھول پیٹ رہے ہیں۔ چیئرمین نیب شہباز شریف کے متعلق چھٹی والے دن بیان جاری کرتے ہیں کہ دھیلے کی نہیں، اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کی گئی۔

اس کے ساتھ ہی پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے ڈپٹی چیئرمین سینٹ کو دباؤ میں لانے کے لیے مقدمات میں ملوث کیا جارہا ہے۔ جہاں تک حکمرانوں کے اس دعوے کا تعلق ہے کہ اب انہوں نے کام سیکھ لیا ہے تو بات بھی اتنی بار دھرائی جا چکی کہ کوئی یقین کرنے پر تیار نہیں۔ ویسے بھی حکمرانوں کی آج کی حالت بھی سب کے سامنے ہے ۔ سلطنت شغلیہ بنی ہوئی ہے۔

جس میں کسی کو اپنا کام نہیں آتا۔ حکومتی ٹولے کے روزمرہ ایک جیسے ڈائیلاگ اب سب کو یاد ہوگئے ہیں

وزیر اعظم۔ پھر اور کیا کروں؟

وزیر داخلہ۔ دھماکے ہوں گے

وزیر خارجہ۔ انڈیا حملہ کردے گا

وزیر ریلوے۔ یہ کمپنی نہیں چلے گی

وزیر خزانہ: مہنگائی مافیا نے بڑھائی

وزیر ہوابازی: پائلٹ جعلی ہیں

وزیر مواصلات: دوسو ارب ڈالر آئیں گے

وزیر امور کشمیر۔ کلبھوشن نکل گیا

وزیر گیس: چولہے ٹھنڈے رہیں گے

وزیر مذہبی امور: حج اور مہنگا ہوگا

بشکریہ: روز نامہ پاکستان


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).