معیشت اور استاذی وجاہت مسعود


پی ڈی ایم کے لاہور میں جلسے کے بعد سے سیاسی منظر نامے پر کہر سا چھایا ہے۔ سنجیدہ اذہان کے لئے مزید بدمزگی غیر اخلاقی ویڈیوز کے اعلان کے بعد سے اور بڑھ گئی۔ وہ تو شکر خدا کا کہ پی ٹی آئی کی حکومت کوئی نہ کوئی لطیفہ چھیڑی رکھتی ہے اور زندگی کا سامان میسر رہتا ہے ورنہ بیانیے والی سرکار تو تو شکیل کی ٹھنڈی چائے کی طرح بدمزہ کرنے پر تلی ہے۔ استاذی وجاہت مسعود صاحب سے ملاقات نہیں ہوئی کبھی، ان کی کالم پڑھ پڑھ ہماری اردو ادب سینکتی ہے، لوگوں نے ہمیشہ ان کے منہ سے خاکسار کے بارے میں اچھا ہی سنا یا۔ اپنے ایک کالم میں انہوں نے معیشت پر اپنے خیالات کا اظہار کیا، بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ اپنے خیالات کی بجائے کچھ رپورٹس کے حوالے سے انتہائی فصاحت و بلاغت پر مبنی تبصرہ کیا کہ الفاظ کے تو شناور ہیں، اور جیسا کہ ایسے مواقع پر طریقہ واردات ہے بندوقیں غریبوں کے کندھوں پر رکھ کر فائر کی گئیں۔ ایسی صورتحال میں ٹیکنیکل نمبر ملیں نہ ملیں، ترحمانہ نمبر ضرور مل جاتے ہیں۔ انتہائی ادب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے استاذی کے فصیح و بلیغ کالم پر تبصرہ سادے سے الفاظ میں حاضر ہے۔

استاذی نے ہماری تالیف قلب کے لئے انسانی ترقی کے انڈیکس میں پاکستان کے درجے کا تقابل بھارت کے ساتھ کیا ہے اور پھر شاید اپنی تالیف قلب کے لئے پاکستان کی معیشت کا تقابل بھی بھارت کے ساتھ ہی کیا ہے۔ معیشت میں جن کو دلچسپی ہے ان کو تو معلوم ہی ہوگا اور باقیوں کے لئے عرض ہے کہ نوے کی دہائی کے اوائل سے ہی بھارت کی معاشی پالیسیاں پاکستان کی نسبت بہتر اور دیرپا تھیں۔ ساٹھ سے اسی کی دہائی میں پاکستان کے معاشی حالات بھارت کے مقابلے میں بہتر رہے مگر نوے کے بعد اور خاص کر دو ہزار کے بعد بھارت کی ترقی کی رفتار پاکستان سے بہت تیز رہی۔ اس میں صرف ایک وجہ ڈھونڈنا اور باقیوں کو تلف کر دینا زیادتی ہوگی مگر یہ چونکہ ہمارا موضوع نہیں ہے تو اس بحث کو پھر کسی وقت کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔

استاذی نے بھارت کی شرح نمو 2020 میں 5.4 فیصد بتائی اور پاکستان کی 0.5 فیصد بتائی۔ ان کے نزدیک بس یہی بتا دینے سے مدعا پورا ہو جاتا ہے، ان کا یقیناً ہو جاتا ہوگا اور ہو بھی جاتا ہے، ہمارا نہیں ہوتا لہذا ہم ذرا اس تناسب پر کچھ تبصرہ کرنا چاہتے ہیں۔ سب سے پہلے تو آپ کو یہ بتا دیں کہ بھارت کا مالی سال مارچ میں ختم ہوتا ہے جبکہ پاکستان کا مالی سال جون میں اختتام پذیر ہوتا ہے (یہ بتانے کی بھی ایک وجہ ہے اور امید ہے جی ڈی پی کی بحث ختم ہونے پر آپ اس وجہ تک پہنچ جائیں گے ) ۔ اب اگر بھارت کی شرح نمو پر نظر ڈالیں تو کچھ اس طرح کا ٹیبل نظر آتا ہے :

2016-17 8.26%
2017-18 7.04%
2018-19 6.12%
2019-20 4.18%
(Handbook of Statistics on the Indian Economy 2019-20 – Reserve Bank of India)

ایک سرسری سی نظر ڈالنے سے بھی صاف دکھ رہا ہے کہ پچھلے چار مالی سال سے بھارت کی شرح نمو مسلسل پچھلے سال کے مقابلے میں کم ہوتی جا رہی ہے مگر پھر بھی ہر سال پاکستان سے زیادہ ہی رہی ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ بھارت بھی اس معاشی سست روی کا شکار ہو رہا تھا جو کہ پوری دنیا پر اثر انداز تھی، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب پوری دنیا اور بھارت کی معیشت کی بڑھنے کی رفتار کم ہو رہی تھی تو پاکستان نے ایسے کیا چاند چڑھائے تھے کہ ہماری بڑھ رہی تھی؟ جواب ہم اس کا بھی تفصیلی بتا دیتے مگر ابھی بہت سی باتیں اور کرنی ہیں۔ اوپر بتائی گئی بھارت کی شرح نمو میں کرونا وائرس کا منفی اثر نہیں شامل جبکہ پاکستان کے شرح نمو میں شامل ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق اگلے مالی سال میں بھارت کی شرح نمو میں دس فیصد سے زائد کی منفی گروتھ ہونی ہے، جبکہ پاکستان کی گروتھ مثبت بتائی گئی ہے۔ امید ہے استاذی اگلے سال بھی ایسا ہی موازنہ پھر کریں گے۔

اس کے بعد استاذی نے 2020 میں افراط زر کا تقابل بھی کیا کہ بھارت میں 3 فیصد جبکہ پاکستان میں 12 فیصد رہا۔ ہم یہاں حالیہ بارہ مہینے کا افراط زر کا تقابل پیش کیے دیتے ہیں، اس کے بعد ہمارے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں رہے گی کیونکہ استاذی کا جو مقصد تھا وہ اس تقابل سے پورا ہوتا نظر نہیں آتا۔

تین فیصد اور بارہ فیصد کے فرق سے جو دکھانا مقصود تھا وہ کم از کم اس والے تقابل سے نظر نہیں آ رہا۔ فرق ضرور ہے اور اس کی وجوہات ہیں جن کی تفصیل کا یہ مضمون متحمل نہیں ہو سکتا۔

اس کے بعد استاذی تین روپے لیٹر پٹرول مہنگا ہونے کا بتاتے ہیں، معلوم نہیں خام تیل کی انٹرنیشنل قیمت کی وجہ سے پٹرول کی قیمت کے اتار چڑھاؤ سے کیا ثابت ہوگا۔ اس کے بعد استاذی نے دو سال میں بستیوں کے اجڑ جانے کا نوحہ لکھا ہے کہ کیسے ایک کروڑ متوسط آمدنی والے پاکستانی شہری غربت کا شکار ہو گئے۔ کہتے ہیں چور لٹیروں نے پانچ برس میں جو بنایا تھا وہ دو برس میں گنوا دیا۔ اس سادگی پر کون نہ مر جائے اے خدا والی بات ہے کہ استاد کو اس سے سخت بات کہنے میں حیا مانع ہے۔ چور لٹیروں سے اگر استاذی کی مراد کسی تاحیات نا اہل سزا یافتہ مفرور مجرم کا دور حکومت مراد ہے تو عرض ہے کہ یہ ان ہی کا ’بنایا‘ ہم بھگت رہے ہیں۔

اس کو سمجھانے کے لئے انتہائی آسان الفاظ میں آپ کو ایک بات بتاتا ہوں۔ آپ دو ارب ڈالر کا قرضہ لیں اور چاہے سب کھا پی کر اڑا دیں، شرح نمو میں بڑھوتی نظر آئے گی۔ آپ جیسے اسے ’بنایا‘ تصور کریں گے، ہم جیسے بتائیں گے کہ اس پالیسی کے کتنے لانگ ٹرم نقصانات ہوتے ہیں۔ یہ جو دو سال میں بقول آپ کے کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے وہ غربت کی لکیر سے نیچے نہیں گئے بلکہ چور لٹیروں کی حکومت کی غلط پالیسیوں کے باعث ڈالر کا ریٹ اچانک بڑھ جانے کی وجہ سے ہوا ہے۔ ڈالر کا ریٹ بڑھ جانے سے ڈالر ٹرمز میں تو میری انکم بھی کم ہو گئی ہے تو کیا میں اب گھر کم پیسے لاتا ہوں؟ اس سے زیادہ آسان الفاظ میں سمجھا نہیں سکتا، اور غریبوں کے کندھے سے طعنوں کا فائر چور لٹیروں کو ہی سزاوار ہے۔ ڈالر کے بڑھ جانے پر بہت تفصیل سے اپنے ایک بلاگ میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں، اعادہ کی ضرورت نہیں۔

اس کے بعد استاذی ڈالر میں جی ڈی پی کے حجم کو اپنی دانست میں کرونا سے پہلے والے تخمینے سے موازنہ کر کے جلی کٹی سناتے ہیں کہ ایک عشرے کی ترقی دو برس میں ڈبو دی۔ حضور اس سے بہتر تھا آپ پی ڈی ایم کی خفی خوبیوں کو اجاگر کرتے، مریم نواز کے اپنے باپ کی بیماری کے بعد عظیم ترین لیڈر ہونے پر دلائل کے انبار لگاتے، بلاول بھٹو زرداری پر شہادتوں کے بدلے بادشاہت نچھاور کرتے تو شاید ہم پی جاتے، مگر حضور ہماری کھولی پر پتھر ماریں گے تو ہمیں بتانا پڑے گا کہ یہ پتھر بھی انہی چور لٹیروں کے ہیں کہ جن کی بے جا حمایت میں یہ مضمون لکھنا پڑا۔

ڈالر کے مہنگا ہونے پر تفصیلی مضمون پہلے ہی لکھ چکا ہوں، ناگزیر تھا کہ ڈالر کو مہنگا نہ کیا جاتا کیونکہ چار سال سے مصنوعی طور پر روک کر معیشت کو دیوالیہ کرنے تک پہنچا دیا گیا تھا۔ جیسے ہی ڈالر روپے کے مقابلے میں مضبوط ہوا تو پاکستانی روپے میں جو چیز بھی ڈالر میں تبدیل ہوگی اس کے ڈالر کم ہو جائیں گے۔ تو جب ڈالر ہی چالیس فیصد گر گیا تو جی ڈی پی ڈالر ٹرمز میں پہلے سے کم ہی ہوگا، مگر آپ کی تالیف قلب کے لئے عرض ہے کہ پاکستانی روپے کے کرنٹ پرائس کے حوالے سے جی ڈی پی میں دونوں سالوں میں دس دس فیصد کی گروتھ ہی ہوئی ہے، حتی کہ کونسٹینٹ بیسک پرائس کے حوالے سے بھی جی ڈی پی میں گروتھ ہی ہوئی ہے۔ بات تو سادہ سی ہے مگر جب کھپت کی بنیاد پر امپورٹس والے گروتھ ماڈل سے نکل کر انڈسٹری کی بنیاد پر ایکسپورٹ ماڈل پر جائیں گے تو لامحالہ اس منتقلی کے منفی اثرات آنے تھے اور وہ ضروری بھی تھے ورنہ دیوالیہ ہونے کا خطرہ تھا۔

استاذی نے یہ کہہ کر اپنے اوپر اقبالی ڈگری کروا لی کہ ساڑھے چار ارب ڈالر کا قرضہ لیا گیا اور یہ ترقیاتی کاموں کے لئے نہیں لیا گیا بلکہ گزشتہ قرض کی ادائیگیوں اور زر مبادلہ کے ذخائر کو مستحکم رکھنے کے لئے لیا گیا۔ یہ گزشتہ قرضہ کس نے لیا استاذی؟ اسی چور لٹیروں کی حکومت نے؟ استاذی، کہیں ایسا تو نہیں ہوا کہ یہ پچھلی حکومت کے لئے قرضے تھے جن میں سے بہت سارا صرف ڈالر کے ریٹ کو مصنوعی طور پر ایک جگہ رکھنے کے لئے مارکیٹ میں پھینک دیا جاتا تھا، اور اب یہ حکومت وہ قرضے واپس کر رہی؟

لفاظی سے معیشت چلتی ہوتی تو لاہور پیرس اور کراچی نیو یارک بن چکا ہوتا۔ اس سے زیادہ دور کی کوڑی نہیں ہو سکتی کہ برامدات پر بھی خوش ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ بندرگاہوں پر رکے ہوئے سامان کے نکاس کے باعث عارضی سرخی کی جھلک ہے۔ عارضی جھلکیاں ایک دو مہینے ہو جاتی ہیں، مسلسل ہر مہینے نہیں ہونا شروع ہو جاتیں۔ میں اپنے اس مضمون میں لکھ کر دے رہا ہوں کہ جب بھی یہ سرخی دن کی روشنی میں بدلنی ہے تب بھی آپ کے پاس فصیح و بلیغ الفاظ کا ذخیرہ ہونا ہے اس دن کی روشنی کو اندھیرا ثابت کرنے کے لئے۔ میرے ان الفاظ کو فریم کروا لیں، کچھ سالوں میں ان کا ریفرنس دینے کا موقع آیا چاہتا ہے۔

مضمون پہلے ہی بہت لمبا ہو گیا ہے اس لئے تھوڑے لکھے کو بہت جانیں۔ کسی بھی قسم کی گستاخی کی معذرت، مگر ریکارڈ بھی تو درست رکھنا ہے۔

ایکسچینج ریٹ، آخر کہانی کیا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).