وزیراعظم کی اپنی بکل میں چور


کوئی بھی محب وطن، با شعور شہری کسی کرپٹ آدمی کا دفاع کر سکتا ہے اور نہ کرپشن کے خلاف کارروائی کی مخالفت۔ مسئلہ مگر یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہمیشہ کرپشن کے خاتمے کی آڑ میں سیاسی مخالفین کو دیوار سے لگانے کی کوشش ہوتی رہی ہے۔ اس سے انکار نہیں کہ ہمارے ہاں ہر شعبے میں بے پناہ کرپشن ہے اور یہ روز بروز بڑھ رہی ہے لیکن، یہ بھی ماننا پڑے گا کہ کسی بھی دور میں یہاں کرپشن کے خاتمے کی سنجیدہ کوشش کی ہی نہیں گئی اگر سنجیدہ اور بلا امتیاز سعی کی جاتی تو کرپشن ختم بیشک نہ ہوتی قابل ذکر حد تک کمی اس میں ضرور لائی جا سکتی تھی۔

موجودہ حکومت کا بیانیہ ہے کہ اسے مینڈیٹ ہی کرپشن کے خاتمے کے نام پر ملا ہے اور اقتدار میں آنے سے قبل عمران خان صاحب فرماتے تھے وہ ابتدائی سو دن میں کرپشن کا خاتمہ کر دیں گے لہذا اس سے یہ سوال ضرور ہونا چاہیے کہ نیب اور دوسرے تمام ریاستی اداروں کو استعمال کرنے کے باوجود وہ اعلی سطحی کرپشن پر قابو پانے میں بھی کیوں ناکام رہی؟ تحریک انصاف کی حکومت نے جب کرپشن کے خلاف علم اٹھایا تو اس کی توپوں کا تمام رخ مخالف سیاستدانوں یا ان کے قریب تصور ہوتے بیوروکریٹس تک محدود رہا۔

لیکن جب چند افسران کی گرفتاری کے بعد انتظامیہ کام چھوڑ کر بیٹھ گئی تو بیوروکریٹس بھی پھر احتساب سے آزاد کر دیے گئے اور تمام کارروائیاں سیاسی مخالفین تک محدود ہو کر رہ گئیں۔ جس کا ملک کو فائدہ تو کچھ نہیں ہوا الٹا سیاسی محاذ آرائی کے باعث جی ڈی پی کی شرح تاریخ میں پہلی بار منفی ہو گئی۔ اب ثابت ہو گیا یہ بالکل غلط تصور تھا کہ اوپر بندہ درست بیٹھا ہوگا تو نیچے معاملات ازخود بہتر ہو جائیں گے۔ حالانکہ اس تاثر میں پہلے بھی زیادہ جان نہیں تھی، کچھ دیر کے لیے مگر یہ تصور کر بھی لیا جائے کہ خان صاحب بذات خود کرپٹ ہیں نہ ان کی دیانت پر کوئی سوالیہ نشان مگر، ان کی کابینہ کی اکثریت دوسری جماعتوں سے آئے افراد پر مشتمل ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جن پر ماضی میں کرپشن کے سنگین الزامات لگتے رہے ہیں جبکہ بیشتر کے اب بھی کیسز پینڈنگ پڑے ہیں لیکن حکمران جماعت میں ہونے کی وجہ سے ان پر کارروائی نہیں ہو رہی۔

یہ بڑی صنعتوں، کاروباری اداروں اور بے پناہ زرعی جاگیروں کے خود مالک ہیں یا پھر ان کے عزیز و اقارب۔ ہم ایسے پہلے ہی کہہ رہے تھے کہ موجودہ دور میں کوئی میگا کرپشن اسکینڈل سامنے نہیں آیا، تو اس کا سبب دیانتداری نہیں بلکہ یہ ہے کہ پچھلے ڈھائی سال سے ترقیاتی کام ہی بالکل بند پڑے ہیں، ورنہ پشاور بی آر ٹی کی شفافیت پر اتنے سوالیہ نشان نہ ہوتے۔

ویسے بھی آج کے دور میں کک بیکس اور کمیشن جیسے فرسودہ طریقوں سے کرپشن نہیں ہوتی بلکہ یہ کام اب نہایت سائنٹیفک طریقے سے ہو رہا ہے۔ نواز شریف اور آصف زرداری بھی کرپشن کے جو کیس بھگتا رہے ہیں وہ آج کے نہیں بلکہ نوے کی دہائی کے ہیں۔ جبکہ شاہد خاقان عباسی اور سعد رفیق پر الزام بھی مالی غبن کا نہیں غلط پالیسیز کی وجہ سے قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کا ہے۔ جب اعلی عہدوں پر ایسے لوگ بیٹھے ہوں جن کے کاروباری مفادات کا ٹکراؤ ملکی مفاد سے ہو اور جی آئی ڈی سی (Gas Infrastructure Development Cess) کے سینکڑوں ارب خدا کی راہ میں معاف کیے جا رہے ہوں اور احمقانہ پالیسیز کی وجہ سے آئے روز قوم کے خون پسینے کی کمائی کے سینکڑوں ارب ضائع ہونے کی خبریں آ رہی ہوں تو کرپشن کے سوا اسے کیا نام دیا جائے؟

ابھی چند ماہ قبل چینی اسکینڈل کی تحقیقاتی رپورٹ جاری ہوئی تھی۔ اس رپورٹ کے مطابق وفاقی شوگر ایڈوائزری بورڈ نے یہ کہہ کر کہ شوگر ملز کے پاس چینی کا وافر اسٹاک موجود ہے، چینی ایکسپورٹ کرنے کی سفارش کی۔ اس بورڈ کی سفارشات کی روشنی میں ای سی سی نے نہ صرف گیارہ لاکھ ٹن چینی برآمد کی منظوری دی بلکہ صوبوں کو اختیار دیا کہ وہ شوگر ملوں کو تین ارب روپے تک کی سبسڈی دے سکتے ہیں۔ خود وزیراعظم عمران خان اور وفاقی کابینہ نے ان فیصلوں کی توثیق کی اور وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار اور ان کی صوبائی کابینہ کی منظوری سے سبسڈی مل مالکان کو دی گئی۔

جونہی مگر برآمد شروع ہوئی ملک میں چینی کی قلت پیدا ہو گئی اور اس کے نرخ دگنے ہو گئے۔ بعدازاں اپنی چینی اونے پونے باہر بھیجنے اور ملز مالکان کو سبسڈی ادا کرنے کے بعد ڈالرز میں ادائیگیاں کر کے مہنگے داموں چینی واپس امپورٹ کی گئی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف چینی کی مد میں قوم کا ڈھائی سو ارب روپے کا نقصان ہوا۔

ایل این جی امپورٹ میں بھی حکومت کا بہت بڑا اسکینڈل سامنے آیا ہے۔ عالمی منڈی میں ایل این جی کی خرید و فروخت عموماً تین طریقوں سے ہوتی ہے طویل المدت معاہدے، قلیل المدت معاہدے اور اسپاٹ پرچیزنگ کے ذریعے۔ نون لیگ کے دور حکومت میں قطر سے ایل این جی کی جو ڈیل ہوئی وہ طویل المدت معاہدے کے تحت ہوئی جس کے مطابق خرید کنندہ فروخت کرنے والے سے معاہدہ کرتا ہے جس میں لمبے عرصے کے لیے ایل این جی کا نرخ پٹرول کی قیمت کا کتنے فیصد ہو گا طے کر لیا جاتا ہے۔

پاکستان اور قطر میں 15 سالہ معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت قطر اس مدت کے دوران پٹرول کی قیمت کے 13.37 فیصد کے حساب سے ایل این فراہم کرے گا تاہم 10 سال بعد قیمت پر نظر ثانی کی جا سکتی ہے اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی پر قطر کے ساتھ ایل این جی کی خریداری کے اسی 15 سالہ معاہدے میں مبینہ کرپشن کا ریفرنس زیر سماعت ہے۔ تحریک انصاف ہمیشہ سے اسپاٹ پرچیزنگ کی حامی رہی ہے اور اس کا الزام ہے کہ نون لیگ کی حکومت طویل مدتی معاہدہ میں ملک کو پھنسا کر چلی گئی لیکن اس حکومت نے خود کتنا فائدہ کیا؟

ہر شخص جانتا ہے سردی میں گیس کی طلب بڑھتی ہے اور جس چیز کی طلب بڑھے اس کے نرخ میں اضافہ فطری امر ہے۔ اسی سال اگست میں حکومت نے سپاٹ پرچیزنگ کے ذریعے جو ایل این جی خریدی وہ پٹرول کی قیمت کے 5.7395 فیصد کے حساب سے خریدی تھی۔ اسی وقت اگر دسمبر 2020 کے لیے بھی گیس خرید لی جاتی تو آج پٹرول کی قیمت میں اضافے سے ایل این جی کی قیمت معمولی متاثر ہوتی لیکن خریداری میں دانستہ تاخیر کی گئی اور جب طلب میں اضافے سے ملک میں گیس کی قلت پیدا ہوئی تو عجلت میں وہی گیس جو 5.7395 فیصد پر لی جا سکتی تھی 16.987 فیصد کے حساب سے خریدی جا رہی ہے۔

یہ بھی کئی ارب روپے کا ڈاکا ہے قوم کی جیب پر۔ کہا جا رہا ہے کہ ایل این جی امپورٹ میں تاخیر کی وجہ حکومتی مشیروں کے کاروباری مفادات ہیں۔ اس پر تمام ماہرین متفق ہیں کہ ایل این جی کی خریداری میں ہمیشہ طویل مدتی معاہدہ ہی سود مند ہوتا ہے اس کے باوجود شاہد خاقان عباسی پر ریفرنس قائم ہو سکتا ہے کہ انہوں نے معاہدے سے قیمت فکس کیوں کی تو کیا کابینہ کے ارکان سے اس نقصان کے بارے میں باز پرس نہیں ہونی چاہیے؟ جب اتنے بڑے بڑے اسکینڈلز پر نیب کی آنکھیں بند رہیں گی تو احتساب پر کون یقین کرے گا اور کیا احتساب کا عمل متنازعہ نہیں ہوگا؟ وزیراعظم صاحب اب بھی اپنے اردگرد بیٹھے لوگوں کی طرف نظر ڈالنے کے بجائے بدستور راگ الاپ کہ رہے ہیں کہ این آر او دیں گے نہ کسی کو چھوڑیں گے۔ اس پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ ایویں مچا نہ شور۔ تیری بکل دے وچ چور۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).