ڈاکٹر عارفہ شہزاد کا ناول ’میں تمثال ہوں‘ کئی اعتبار سے ایک منفرد ناول ہے


یہ کہانی ایک مشرقی مسلمان عورت کی کہانی ہے جو ایک شاعرہ ہے۔ تمثال کسی بھی تخلیق کار کی طرح رومان پرور ہے اور ہم مزاج افراد سے گفتگو اور ہلکی پھلکی دل لگی سے توانائی کشید کرتی ہے۔ ایکسٹرا میریٹل افئیرز کے تجربات سے گزرتی ہے۔ شوہر کی بے توجہی کے باعث وہ اپنی ناآسودہ جنسی خواہشات بھی کسی اور مرد کے ساتھ پوری کرتی ہے۔ مگر دلی ناآسودگی ہے کہ تھم کے نہیں دیتی۔ تمثال کی فکری تربیت مذہب کے زیر سایہ پروان چڑھی ہے اس لئے وہ ان تمام معاملات کا مذہبی نظریے سے بھی جائزہ لیتی ہے۔ جذبات اور مذہب کی کشمکش اسے ذہنی تشویش کا شکار کر دیتی ہے۔ وہ دھیرے دھیرے اس بات کو قبول کر لیتی ہے کہ عشق اور جسمانی تعلق دو الگ باتیں نہیں۔ لہٰذا ان تجربات سے گزرتی چلی جاتی ہے مگر قرار نہیں پاتی۔

قاری عجیب مخمصے میں پڑ جاتا ہے کہ وہ اس کردار سے ہمدردی کرے یا نفرت۔ اگر ایسی کہانی کسی مرد کی ہو تو اس پہ تبصرہ کرنا یا اس کی توجیہہ دینا کچھ عجیب نہیں مگر یہاں تو روایت سے ہٹ کر ایک عورت کے عشق کے قصے ہیں وہ بھی ایک نہیں۔ دو نہیں۔ چار نہیں۔ سات عشق۔ اور غضب یہ کہ شادی کے بعد عشق۔ اور پھر اس پہ ستم یہ کہ اس عشق میں دیوانگی اور اس کا بے باک اظہار۔ سوال یہ ہے کس کسوٹی پہ پرکھا جائے اس کہانی کو۔ انسانی نفسیات کی؟ مذہب کی؟ یا سماج کی؟

ڈاکٹر عارفہ کا تخلیق کردہ کردار ’تمثال‘ ہمارا تعارف معاشرے میں موجود کئی انسانی رویوں سے کرواتا ہے۔ قاری پہ انسانی نفسیات کے کئی پہلو عیاں کرتا ہے۔ تمثال ایک سچے عاشق کی تلاش میں کئی چہروں سے نقاب ہٹا کر دیکھتی ہے۔ اس عمل میں وہ کسی اصول، پیمانے یا معیار کی بجائے اپنے نفس پہ بھروسا کرتی ہے۔ پردہ ہٹتے ہی کسی قاری کو اگر اپنی جھلک دکھ جائے تو اچنبھے کی بات نہیں۔ ساتویں عشق تک پہنچتے پہنچتے تمثال کا کردار خود انتہا درجے کی جذباتی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا ہوتا ہے۔

مگر یہاں بھی اس کا پالا ایک ایسے مرد سے پڑتا ہے جو نرگسیت کا شکار ہے۔ جس میں محبت کی فطری صلاحیت ہی موجود نہیں۔ تمثال پہ آشکار ہوتا ہے کہ تعلقات کے اس کھیل میں اپنے جذبات سے زیادہ اہم دوسرے کی نفسیات کو سمجھنا ہے۔ خارجی طور پہ جو رویے ہمیں بے اعتنائی، بے وفائی اور دھوکہ دہی جیسے دکھ رہے ہوتے ہیں ان کا اگر داخلی طور پہ جائزہ لیا جائے تو ممکن ہے وہ کسی فرد کی احساس کمتری، نرگسیت، یا پھر فرائیڈ کے بیان کردہ دفاعی رویوں میں سے ایک ہو۔ شاید کہ اسی لئے کہا گیا ہے۔ یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجے۔ تمثال کی خود احتسابی کا عمل ہر قاری کو غیر محسوس طریقے سے اپنی کوتاہیوں پہ نظر ڈالنے کا موقع فراہم کرتا چلا جاتا ہے۔

ناول کا مرکزی خیال عشق سے عبارت ہے۔ یوں تو ہزار رنگ عشق کے ہیں مگر عشق کے جس رنگ کا تذکرہ یہاں ملتا ہے وہ پڑھتے ہوئے چارلز ڈکنز کے ناول ’گریٹ ایکسپیکٹیشنز‘ میں مس ہیوی شم کے الفاظ یاد آ جاتے ہیں۔ ’میں بتاؤں عشق کیا ہے۔ عشق۔ اندھے اعتماد، مکمل سپردگی، اور بلا تامل اپنی ذات کی تذلیل برداشت کرنے کا نام ہے۔‘ ۔ کہانی کا مرکزی کردار تمثال بھی اپنے ساتویں عشق کے دوران ہتک ذات کے اذیت ناک تجربے سے گزر رہی ہے۔ وہ سٹاک ہوم سنڈروم کا شکار نظر آتی ہے۔ وہ عشق کی راہ سے گزرتی ہوئی خود اذیتی کے صحرا میں اتر چکی ہے۔ یہ مجنوں کا عشق نہیں جسے ایقان حاصل تھا، یہ لاحاصل کا دکھ ہے جس میں تذلیل ذات کا زہر گھلا ہے۔

ایک زاویے سے یہ کہانی ہمارے معاشرے میں عورت کے جذبات سے کھیلتے مردوں کی کہانی ہے۔ مگر ڈاکٹر عارفہ کے قلم کا کمال یہ ہے کہ روایتی انداز میں مردانہ رویوں پہ تبصرے کی بجائے عورت کی ذات ہی کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ یہ ناول عورت کے عشق، اس کی جذباتی و نفسیاتی کشمکش، اس کی جنسی و روحانی ناآسودگی اور اس کے اندر موجود محبت کے ایک نہ بھر پانے والے خلا ء پہ بحث کرتا ہے۔ تمثال اپنی کوتاہیوں کو جانتے ہوئے خود اپنے آپ سے لڑ نہیں پا رہی، سماج سے کہاں لڑ سکتی ہے۔ ہمارے معاشرے کی بیشتر خواتین کی طرح اسے ایک بے ذائقہ شادی نبھانا سماج سے ٹکر لینے سے کہیں زیادہ سہل لگتا ہے۔ مذہب، روایات، اور نفسیات جب ایک دوسرے سے متصادم ہو جائیں تو انسان کی شخصیت شکستگی کا شکار ہونے لگتی ہے۔ یہ ناول اسی کشمکش کی پرتیں کھولتا ہے۔

تکنیکی اعتبار سے یہ ناول انتہائی سادہ ہے۔ صیغہ واحد متکلم اختیار کرنے سے مصنفہ مرکزی کردار کی تمام الجھنیں نہایت آسودگی اور روانی سے بیان کرتی چلی جاتی ہے اور اپنے قاری کو براہ راست کردار سے تعلق محسوس کرنے اور اس کو سمجھنے کے قابل بناتی ہے۔ زبان عام فہم ہے۔ بنت میں کوئی الجھاؤ نہیں البتہ کہیں کہیں کہانی قاری کی یادداشت سے کھیلتی ہوئی آگے بڑھتی ہے مگر جلد ہی قاری دوسرے، پانچویں اور ساتویں عشق میں واضح فرق کرنے لگتا ہے۔

زبان و بیان کی یہ سادگی یقیناً اس پیچیدہ مرکزی کردار کی نفسیات بیان کرنے کے لئے ایک موزوں انتخاب ہے۔ قاری پہ مرکزی کردار ’تمثال‘ کا احوال اس کے ڈائری کے اوراق سے کھلتا ہے جو ایک دلچسپ تکنیک ہے۔ زمانہ حال کے مطابق ای میل، سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارم کا ذکر بلکہ مرکزی کردار کی زندگی میں ان ذرائع کے اثرات کا ذکر ہمارے معاشرے میں مرد اور عورت کے بڑھتے تعلقات اور تجربات پہ روشنی ڈالتا ہے۔

یہ ناول مخلوط معاشروں کے آداب سے واقفیت حاصل کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ ’سنا ہے تخلیق کار مرد لکھنے کے لئے معاشقے ضروری خیال کرتے ہیں۔ اس لئے لو ہنٹنگ ان کا شغل ہوتا ہے ‘ ۔ تمثال ایک جگہ یہ سوال اٹھاتی ہے تو دوسری طرف خود اپنے اندر بحیثیت ایک تخلیق کار کے یہی رجحان پاتی ہے کہ اسے بھی یہ جذباتی تھرل کسی ہم نفس کی چاہ کے لئے اکساتا ہے۔ وہ بھی اپنے ہم خیال و ہم نفس سے توانائی کشید کرنا چاہتی ہے۔ صنف مخالف کے ساتھ ادبی تعلق کب جذباتی تعلق میں ڈھل جاتا ہے، اکثر وہ لمحہ ہاتھ نہیں آتا۔ یہ ناول اس لطیف پہلو کو بھی اجاگر کرتا ہے ساتھ ہی ساتھ ادب کی حساس دنیا میں بے حسی، خود پرستی اور دکھاوے کی جھلک بھی دکھا جاتا ہے۔

قاری اپنی استعداد کے مطابق اس ناول کا اثر قبول کر سکتا ہے۔ تمثال کے کردار سے جو چاہے اخذ کیجئے۔ عورت میں پولی گیمس ہونے کا رجحان کہئے، عزت نفس کا فقدان کہئے، شخصیت کی شکستگی مانئے، یا عاشق مزاجی کا تاثر لیجیے۔ یہ تحریر ایک بار آپ کو چونکا ضرور جاتی ہے۔ اس کا سچ ایسے کیمیائی مادے کی طرح ہے جو ہوا لگتے ہی آگ پکڑ لیتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).