میڈیا میں امن صحافت کا کردار


صحافت ایک ایسا شعبہ ہے جو کسی انفرادیت سے منسلک نہیں ہوتا بلکہ یہ پوری دنیا اور معاشرے کی عکاسی کرتا ہے۔ کوئی بھی نئی خبر یا معلومات جمع کر کے اسے لوگوں کے سامنے پیش کرنا شعبہ صحافت کے ضمن میں آتا ہے۔ صحافت میں صحافیوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ درست حقائق پر مبنی معلومات لوگوں تک پہنچائیں تاکہ لوگ خوف اور انتشار سے بچ سکیں صحافت کی وہ شاخ جو لوگوں میں امن و سلامتی پیدا کرے اسے امن صحافت (Peace Journalism) کہا جاتا ہے۔

john galtung

امن صحافت انیسویں صدی کے نصف میں John Galtung نے اپنی تحقیق کے بعد متعارف کروائی۔ انہوں نے اپنی تحقیق میں امن صحافت کے چند اصول متعارف کروائے :

1۔ تنازعات شروع ہونے کی اصل وجہ کو دریافت کریں۔
2۔ تشدد کے پیچھے چھپی وجوہات کیا ہیں؟
3۔ اس میں شامل فریقوں کی انفرادیت چھیننے سے گریز کریں اور ان کے مفادات کو بے نقاب کریں۔
4۔ نچلی سطح پر ہونے والے عدم تشدد کے اقدامات کی اطلاع دیں اور مفاہمت کے مراحل کی پیروی کریں۔

ان کی اس تحقیق کا مقصد یہ تھا کہ وہ صحافیوں کو متوجہ کروانا چاہتے تھے کہ وہ غیر جانبدار ہو کر لوگوں کو کسی بھی خبر یا معلومات کی اصل وجوہات سے آگاہ کریں جس معاشرے میں امن قائم ہو سکے۔ میڈیا عمومی طور پر لوگوں کو قومی اور بین الاقو امی سطح پر متعصب معلومات دے کر وہاں کہ لوگوں میں تصادم اور جنگ کی صورت‌حال پیدا کر دیتا ہے جن کی مثال کچھ واقعات سے لی جا سکتی ہیں۔

اگر پاکستان اور انڈیا کے تعلقات کی بات کی جائے تو بد قسمتی سے اس میں ذرہ برابر بھی امن صحافت کی جھلک نظر نہیں آتی۔ پاکستان اور انڈیا دونوں ملکوں میں گورنمنٹ اخبار اور نیوز چینلز کو منفی پروپیگنڈا کے طور پر استعمال کر رہی ہیں اگر فروری 2019 میں ہونے والے پلوامہ حملہ پر نظر ثانی کی جائے تو اس حملہ کا الزام انڈیا پاکستان پر لگا رہا تھا۔ انڈین نیوز چینلز پر WAR JOURNALISM شروع ہو گئی تھی اور ان چینلز کے اینکرز چیخ رہے تھے کہ پاکستان کو اب اس کا سبق کیسے سکھانا ہے۔

پاکستان جب کہ اس حملہ کی مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ یہ کہہ رہا تھا کہ ہمارا اس حملہ سے کوئی تعلق نہیں میڈیا کے اثرو رسوخ کی وجہ سے پاکستانیوں کے لیے انڈیا کا غصہ بڑھ رہا تھا۔ انڈیا وہاں کے لوگوں میں یہ نقطہ نظر پیدا کر رہا تھا کہ وہ پر تشدد جواب دیں اور یہی وجہ تھی کہ انڈیا کے لوگوں نے پاکستان کے خلاف سزا کا مطالبہ کر دیا تھا۔ انڈین صحافیوں نے امن صحافت کو نظر انداز کر کے لوگوں میں نفرتیں پیدا کردیں۔ میڈیا کی ان وجوہات کی وجہ سے ہی پاکستان اور انڈیا کے درمیان امن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

انڈیا میں کسان اپنے حقوق کے لیے تحریک چلا رہے ہیں جس کی حمایت کینیڈا کے وزیر اعظم نے بھی کی ہے کہ کسانوں کو ان کے حقوق دیے جائیں۔ لیکن وہاں کا میڈیا ایک طرفہ ہو کر صرف گورنمنٹ کی حمایت کر رہا ہے میڈیا کا یہ کردار امن اور لوگوں کی سلامتی کے لیے منفی ہے اور امن صحافت کے برعکس بھی۔

اگر کھیلوں کے میدان میں کرکٹ کی بات کریں جو کہ نوجوانوں کا بہترین مشغلہ ہوتا ہے تو اس میں پاکستانی میڈیا کا مثبت کردار نظر نہیں آتا جس کی مثال ہم بابر اعظم اور محمد عامر جیسے دیگر شاندار کھلاڑیوں کی ریٹائرمنٹ سے لے سکتے ہیں کہ ان کی اچانک ریٹائرمنٹ کے پیچھے کیا راز اور مجبوریاں پوشیدہ ہیں؟ پی سی بی کے یہ فیصلے درست ہیں یا نہیں؟ پی سی بی کے ان فیصلوں پر نہ تو ٹی وی چینلز پر تبصرے کیے گئے نہ ہی ٹاک شوز! اور میڈیا کا یہی کردار نوجوان نسل میں نفرت اور تصادم کا سبب بن سکتا ہے جو کہ امن کے برعکس ہے۔

میڈیا کو ملک کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے میڈیا ہی ایک ایسا واحد پلیٹ فارم ہے جس کی مدد سے ملک میں امن اور انقلاب لایا جا سکتا ہے۔ اگر میڈیا معاشرے میں امن اور استحکام لانا چاہتا تو اسے مثبت کردار ادا کرنا ہو گا اور اگر میڈیا اپنا منفی کردار ادا کرے گا تو معاشرے ہر طرف بگاڑ ہی نظر آئے گا تو لہذا چینلز کو چاہیے کہ وہ اپنی ریٹنگ اور کاروبار کو ایک طرف رکھ کر معاشرے میں امن اور استحکام کے لیے کام کریں تاکہ معاشرہ ترقی کر سکے اور امن صحافت پروان چڑھ سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).