مہانوں کی بستی میں بسرام کرتے: سید نجم الحسن


تصویر کی تعریف میں تصور کو جس طرح معدوم کر کے صورت و نقش کو اہم بنایا گیا یہ بالکل ایسا ہی تھا جیسا کہانی سے اہم کردار کو جانا گیا۔ تصویر ایک دھڑکتے لمحے کو ساکت شکل میں زندگی کی گرمی بخشتے ہوئے وہ دھڑکتا لمحہ ہمیشہ کے لئے امر کر دیتی ہے، لیکن کہانی یہاں اختتام پذیر نہیں ہوتی، بلکہ یہ تو کہانی کی ابتداء ہے۔ وہ دھڑکتا لمحہ بالکل اس اچھوتے خیال جیسا ہوتا ہے جو کہانی کے تصور سے پہلے کسی بھی کہانی کار کے ذہن میں آن گھستا ہے۔ باعین ایسے ہی ایک منظر اس عکس اتارنے والے فوٹو گرافر کے لئے پہلا خیال ہوتا ہے جو اس لمحے، موقعے یا وقوعے کے گرد ایک کہانی بنا دیتا ہے۔ یعنی ہر عکس، ہر نقش اور ہر تصویر ایک کہانی ہے۔

اس کہانی میں انجام یا کلایمیکس کی گنجائش تو نہیں ہوتی مگر کردار، فضا، بنت اور تاثر کا خیال ویسے ہی برتنا پڑتا ہے جیسے کسی کہانی کے پلاٹ کے لئے درکار ہو۔ کہانی آپ سے تصویر یں بنواتی ہے اور تصویر آپ سے کہانیاں۔

بد قسمتی سے ہماری تصویروں میں جو کہانیاں قید ہوئیں وہ یا تو خون، جبر، تشدد اور مایوسی کے گرد گھومتی رہیں یا اشرافیہ کی من چاہی تاریخ کے کرداروں کی داستان سناتی رہیں۔ ہماری بصری تاریخ ہمارے ہی کرداروں سے خالی نظر آتی ہے۔ وہ کردار جو اس مٹی اور اس تہذیب کے حقیقی سپوت ہیں۔ تصاویری یا بصری ڈاکومنٹیشن نے ہماری ثقافتی ورثہ کو کبھی اس طرح توجہ نہیں دی جس کا وہ متقاضی تھا۔ بس قید کیا تو صرف حسین مناظر کو، چٹانوں اور صحراؤں کو۔

مہانوں کی تاریخ شاید اتنی ہی پرانی ہو جتنی پانی اور دریا کی ہو گی۔ وقت کے ساتھ انسان ان پانیوں سے دور ہوتا گیا اور اپنی آبادیوں کو ان کی نمی کی کمی میں خوشحال بنانے کی کوشش میں لگ گیا۔ مگر آج بھی کچھ لوگ ہیں جو انہی پانیوں میں آباد ہیں، یہیں وہ دھوپ کی تمازت اور تپش سینکتے ہیں اور انہیں پانیوں میں چاندنی جذب کرتے ہیں۔ ان لوگوں میں بھی خوب وہ ہیں جن کا بسیرا ساگروں کے ساگر مہان دریا سندھ کی کوکھ میں ہے، جس کا جمال و جلال کسی سے پوشیدہ نہیں جس کا پانی یہاں کے انسان کی زندگی کی علامت ہے۔ وہ پھیلنے پر آئے تو خشکی شرما جائے اورخود کو سمیٹے تو سوئی کے نکے سے گزر جائے۔

سید نجم الحسن نے اسی سند ہ کے دامن میں آباد مہانوں کی زندگی کی کہانی سنانے کی ٹھانی ہے، وہ ایک دہائی سے ان مہانوں کی دنیا کا باسی بنا ہے جن کی زندگی کبھی قابل غور نہیں رہی۔ نجم صاحب نے صرف اپنے شوق کی تسکین کے لئے ان کی تصاویر نہیں اتاری بلکہ اس عرصے میں ان کے طرز زندگی اور محسوسات کو جذب کیا ہے اور کئی طرح کے پہلوؤں کو عکس بند کرنے کے لئے ان کی زندگی کا حصہ بنے ہیں۔ ان کی تصاویر میں کردارنظر نہیں آتے بلکہ دیکھنے والے سے ملتے ہیں اور یوں ملاقات کرانا ایک فوٹو گرافر کے لئے تب ہی ممکن ہوتا ہے جب وہ اپنی تصویر کے کردار کو اپنی زندگی کے ایک کردار کے طور پر پیش کر رہا ہو۔

پھر اس تعارف کے ساتھ ہی وہ ان کی زندگی کی شب و روز کی داستان سنانے لگتے ہیں۔ کہیں مائیں بچوں کو نہلاتی نظر آتی ہیں تو کہیں دریا کے پانی سے ڈھول بھر کر روٹیاں بناتی۔ کہیں بچے مسکراتے ملتے ہیں تو کہیں ان کی انکھوں میں بھوک عیاں ہے۔ کہیں جال پھیلاتے جوان ہیں تو کہیں ہاتھ اٹھائے بزرگ۔ کہیں دریا اپنی پوری جولانی میں پر سکون بہتا دکھائی پڑتا ہیں تو کہیں بوڑھے پیپل اور برگد کے سائے میں سناٹا اونگھ رہا ہے۔ کہیں بچے پینکیں پینک رہے ہیں اور کہیں کنول کے پھولوں نے پانی پر سبز چادر پھیلائی ہے۔

ان انسانوں کے ساتھ نجم سید کی تصاویر میں پرندے، جانور، مٹی، پانی اور درخت بالکل الگ مقام رکھتے ہیں جو اپنی کہانی خود سنا رہے ہیں اور کچھ تصاویر میں ان کی اہمیت انسانوں سے کہیں زیادہ دکھائی دیتی ہے۔ اور ان تصاویر کا سکیل باقی تصاویر سے کہیں زیادہ پھیلا ہوا محسوس ہوتا ہے۔

مہانے جو خشکی پر اترنے سے کتراتے ہیں جن کا گھر پانی اور چار دیواری کشتی سمجھی جاتی ہے اپنی زندگی دریا کے دامن اور کناروں پر گزار دیتے ہیں اور جب صدیوں کے سفر میں دریا اپنا راستہ بدلتا ہے تو وہ مٹی کی بجائے پانیوں کا ساتھ دیتے ہیں۔

سید نجم الحسن نے اپنی فوٹوگرافی کے فن کا بیشتر حصہ مہانوں کے ساتھ پانیوں میں گزار دیا۔ اور ان کے پاس مہانوں کی سینکڑوں تصاویر ہوں گی، جو گزشتہ دس بارہ سال کے دوران اتاری گئی۔ اور اب ان تصاویر کا انتخاب کتابی شکل میں ”Mohanas of Indus (A photographic Odyssey)“ کے نام سے شائع ہوا ہے۔ اس کتاب کی تصاویر کا انتخاب یقیناً مشکل امر تھا مگر نجم سید کی کامیابی یہ ہے کہ انہوں نے ایک کتاب کی تصاویر سے مہانوں کو بطور ایک کمیون ایک کہانی میں ڈھال دیا ہے۔ اس کتاب کی ہر تصویر ایک کہانی ہے۔ اگر انہیں کسی خاص ترتیب سے پیش کر دیا جاتا تو یہ کتاب بآسانی ایک تصویری ناول میں ڈھل سکتی تھی۔ ان بولتی، روتی، ہنستی گاتی تصاویر میں مسکراتے چہرے اور گاتے پرندے کچھ پوشیدہ نہیں رہنے دیتے مگر بقول نجم سید ان کرداروں کی زندگی کے کچھ رخ بطور

تصویر بہت اچھے ہو سکتے تھے مگر میں انہیں کردار کے روپ میں کسی صورت پیش نہیں کر پایا، یہاں سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان تصاویر میں چھپی زندگی ہماری زندگی سے کتنی مختلف ہے۔ ان کا ارادہ ہے کہ مہانوں کی زندگی کے اس ڈھلتے ہوئے طرز زندگی کو ثقافتی مباحث کا حصہ بنایا جائے۔

ان میں سے بیشتر تصاویر تونسہ بیراج (کوٹ ادو) اور اس کے گرد پھیلے دریا کے علاقے (بیٹ) میں کھینچی گئی جہاں سے یہ دریا باقی پانیوں کو لیتا ہوا پنجند (علی پور) سے ہوتا ہوا خواجہ فرید کی نگری مٹھن کوٹ میں اپنا آپ پھیلا دیتا ہے۔ جنوبی پیجاب کے اس پورے خطے اور سندھ میں دریا کے کناروں میں کئی جگہ مہانے یوں ہی اپنے قبائل میں صدیوں سے پانی میں زندگی کر رہے ہیں، کتاب کے ابتداء میں اشولال کے کچھ اشعار ان تصاویر کے لئے پہلے ہی تیار کر دیتے ہیں :

دریا او دریا پانی تیڈے ڈونگے
توں ساڈا پیو ماء اساں تیڈے پونگے
دریا او دریا، پانی تیڈے ساوے
اوہو ویلا ہر دم جیڑھا نال راہوے
دریا او دریا، دھپ تیڈی تکھڑی
بیڑیاں وچ لنگھ گئی عمراں دی لکھڑی

جیسے جیسے ان تصاویر کو دیکھتے ہوئے صفحے پلٹتے ہیں، اور دریا کی پوری جولانی میں ان دریا باسیوں کے چہرے پر وہی سندھ کے پانی جیسا سکون نظر آتا ہے، ویسے ویسے ممتاز اطہر کی ایک نظم کی سطریں گونجنے لگتی ہیں۔ آپ بھی سنتے جایئے :

خدا کے لئے ایک نظم
دریچوں میں بجھتے چراغوں کے چہرے
منڈیروں سے لپٹی ہوئی
زرد بیلوں پہ شبنم کے قطرے
تمہارے بہت دیر سے منتظر ہیں
کبھی شاخچوں پر
شگوفوں کی صور ت میں
تم اپنے ہونے کا اظہار کرتے
تو پتوں میں پوشیدہ خوشبو کے پر پھڑ پھڑاتے
یہاں ان فضاؤں سے مانوس اجلے پرندے
تمہارے بہت دیر سے منتظر ہیں
کبھی چاند کے رتھ پر بیٹھے ہوئے تم
ادھر سے گزرتے،
ہوا اور شجر تم کو بانہوں میں لیتے
”مہانوں“ کی بستی میں بسرام کرتے
تو دریا کناروں سے باہر
تمہارے چرن چھونے آتا
خموشی تمہیں ہجر کے غم سے آگاہ کرتی
اداسی میں بھیگی ہوئی ریت پر
کشتیاں اور ستارے
تمہارے بہت دیر سے منتظر ہیں
کبھی شب کی کالی گپھا سے، انا سے،
نکلنے کی کوشش تو کرتے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).