سمیع چوہدری کا کالم: پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان پہلے ٹیسٹ میں نمبر سات پر کون کھیلے گا؟


بابر اعظم
کرکٹ میں ٹیم بنانا سب سے مشکل کام ہے۔ جب تک کوئی ٹیم ایک مربوط یونٹ کی شکل اختیار نہیں کر جاتی، تب تک اسے اصطلاحاً تو ٹیم کہا جا سکتا ہے مگر درحقیقت وہ ٹیم نہیں، ایک گروہ ہوتا ہے۔

ٹیم بنانے کو صرف وسائل کی دستیابی ہی کافی نہیں ہے، درست صلاحیت کا برمحل استعمال زیادہ اہم ہے۔ ہو سکتا ہے آپ کے پاس بہترین وسائل موجود ہوں مگر قیادت میں ہی کوئی ایسی کمی رہ جائے کہ ٹیلنٹ اندرونی انتشار کی نذر ہو جائے۔

ماضی قریب میں جنوبی افریقہ کی ٹیم کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ گریم سمتھ کی ریٹائرمنٹ کے بعد جب کپتانی ڈی ویلیرز کو دی گئی تو ان کے پاس پلیئنگ الیون تو لگ بھگ وہی تھی جو سمتھ کے پاس تھی مگر قیادت کا فقدان آڑے آتا رہا اور ایک بہترین ٹیسٹ ٹیم اوسط درجے کی دکھائی دینے لگی۔

اسی بیچ ڈی ویلیئرز انجرڈ ہوئے تو عبوری طور پر ذمہ داری فاف ڈوپلیسی کو دی گئی اور انھوں نے ایک دم بے جان الیون میں نئی روح پھونک دی۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستانی کرکٹ ٹیم میں شامل ہونے والے نئے چہرے کون ہیں

کیا پاکستانی ٹیم کے ساتھ نیوزی لینڈ میں وہی ہو گا جو انڈیا کے ساتھ ہوا

پاکستان کی کپتانی کا میوزیکل چیئر گیم اور بابر اعظم کا ستارہ

پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم جب مصباح و یونس کی ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے دو بہترین مڈل آرڈر بلے بازوں سے محروم ہوئی تو بحران صرف قیادت کا ہی نہیں پیدا ہوا، بلکہ جو مڈل آرڈر اطمینان اور استحکام کی عملی تصویر تھا، وہ اضطراب اور گھبراہٹ کی مثال بن کر رہ گیا۔

حالیہ دورۂ انگلینڈ میں اظہر علی کی ٹیم نے بہت زبردست کرکٹ کھیلی مگر اظہر علی کی قائدانہ صلاحیتیں یوں آڑے آئیں کہ جیتا ہوا میچ صرف ایک سیشن میں ضائع کر بیٹھے۔ میچ کی ہار کے ساتھ ساتھ سیریز بھی گنوا بیٹھے اور کپتانی بھی ہاتھ سے گئی۔

بابر اعظم کو قیادت تھمانے کا فیصلہ بادی النظر میں اعتماد اور استحکام کی علامت ہے۔ نوجوان کپتان کا تقرر ویسے بھی طویل المعیاد منصوبہ بندی اور دور اندیشی کا اظہار ہے۔ مگر شومئی قسمت کہ بابر کو بطور ٹیسٹ کپتان اپنے کریئر کا آغاز کرنے کے لیے ابھی مزید انتظار کرنا پڑے گا۔

بابر اعظم

بابر کی انجری نے پاکستان کے اس دورے کو یکسر گہنا دیا ہے۔ ایک تو اس کے سبب ٹیم کی کارکردگی کا درست تجزیہ کرنا مشکل ہے، دوسرا یہ ڈریسنگ روم میں اضطراب پیدا کرنے کا بھی سبب بن سکتا ہے۔

محمد رضوان کس طرح سے قیادت کریں گے، اس کا تخمینہ لگانے کے لیے ہمارے پاس ایسی کوئی نظیر موجود نہیں جس کی بنیاد پر تعین کیا جا سکے کہ وہ کل صبح کیسے کپتان ثابت ہوں گے، مگر مثبت پہلو یہ ہے کہ رضوان اپنے کریئر کی بہترین بیٹنگ فارم میں ہیں۔

بابر، امام الحق اور شاداب کی عدم موجودگی کے باوجود پاکستان کے لیے تشفی بخش پہلو یہ ہے کہ چھ مستند بلے باز بیٹنگ آرڈر کا بوجھ اٹھانے کو موجود ہیں۔ اس کے علاوہ محمد عباس، شاہین آفریدی، نسیم شاہ اور یاسر شاہ کی شکل میں ایک دلچسپ بولنگ اٹیک بھی دستیاب ہے۔

مخمصہ صرف یہ ہے کہ نمبر سات پر کس کو کھلایا جائے۔ روایتی دفاعی سوچ کا تقاضا تو یہ ہے کہ پاکستان سات بلے بازوں کے ساتھ میدان میں اترے مگر نسیم شاہ اور شاہین شاہ کے ورک لوڈ کا خیال رکھنا مقصود ہو تو نمبر سات کا سوالیہ نشان خاصا پریشان کن بن جاتا ہے۔

اگر پاکستان نمبر سات پر آل راؤنڈر کو کھلانا چاہتا ہے تو فہیم اشرف بہترین انتخاب ہو سکتے ہیں۔ لیکن اگر ٹاپ آرڈر کسی بحران کا شکار ہو جاتا ہے، جو کہ ناممکن نہیں، تو شاید چھ بلے باز کھلانے کا فیصلہ کافی مہنگا پڑے۔

لیکن اگر نمبر سات پر کسی بلے باز کو رکھا جاتا ہے تو بولنگ یونٹ کا ورک لوڈ بڑھنے کا خدشہ ہے۔ عموماً جب پارٹنرشپس لگتی ہیں اور پرائمری اٹیک بولرز کچھ حاصل نہیں کر پاتے تو آل راؤنڈرز اکثر کام آ جاتے ہیں۔

دوسرا یہ الجھن بھی موجود ہے کہ پاکستان چار پیسرز کے ساتھ جائے یا نسیم شاہ، شاہین شاہ اور عباس کے ساتھ یاسر شاہ کو کھلائے۔

یاسر شاہ ان کنڈیشنز میں کیا نتائج پیدا کریں گے، یہ کہنا قبل از وقت ہے۔ مگر کنڈیشنز کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل ہے کہ گرین ٹاپ وکٹ پر لیگ سپنر اپنا جادو جگانے کے لیے کتنے سیشنز تک انتظار کرے گا۔

پاکستان کی انگلینڈ سیریز کو اگر سامنے رکھا جائے تو توقع یہی ہے کہ پاکستان بہتر کرکٹ کھیلے گا۔

اگر پاکستان صرف ولیمسن کا ہی توڑ لا پایا تو کوئی حیران کن نتیجہ آنا بھی عین ممکن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32295 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp