یہ استادوں کا مسئلہ کیا ہے!


ہیلو استاد!
آپ کے پاس کچھ وقت ہے۔
اگر ہے تو میں آپ کو استادوں کا مسئلہ سمجھا دوں۔ کون سے استاد!

قوم کے وہ استاد جن کی اسلام آباد پولیس نے خوب پھینٹی لگائی۔ بالکل جیسے دھوبی کپڑے پھینٹتا ہے۔ اور ہاں، ساتھ دھوئیں والے بمب مار مار کر ان استادوں اور استانیوں کو ادھ موا کر دیا۔ ہائے یہ میرے بچوں کے استاد!

ہائے یہ میری نسلوں کے معمار!
ہم استاد ہی تھے جنہیں تبدیلی کا پورا تاپ چڑھا ہوا تھا۔ ہم نے

آدھا پاکستان عمران خان کا مرید کروا دیا تھا۔ کیا سکول، کالج، یونیورسٹی، ٹیوشن سنٹر ہم نے اپنے شاگردوں کو ایک ہی وظیفہ پڑھایا تھا کہ کوئی اور نہیں بس تحریک انصاف۔ سوشل میڈیا گروپوں میں لڑ لڑ کے ہلکان ہوتے رہتے تھے کہ سمارٹ لیڈر وزیر اعظم بنے گا تو ملک میں دودھ کی نہریں بہہ نکلیں گی۔

ہر شہری سر اٹھا کے جئیے گا۔
بیرونی ممالک سے لوگ یہاں نوکری کرنے آئیں گے۔
ملک دن بدن قعر مذلت میں گرتا چلا گیا مگر ہم اب بھی کہاں مان رہے تھے۔ پر
صدقے جاواں تیتوں پرائم منسٹرا میں
اکو جھٹکے وچلی گل سمجھا دتی اے
وزیر تعلیم صاحب نے گل سمجھائی ہی نہیں سرے سے مکا ہی دی کہ
یہ نون لیگ کے لوگ ہیں۔
مار الگ سے کھائی، الزام اضافی لیا۔

ہم استاد لوگ ابھی تک سکتے میں ہیں کہ یہ وہی حکومت ہے جس کے لیے اپنوں سے لڑائیاں مول لیں تھیں، بیگانوں سے بیر پالا تھا۔

استاد طبعا شریف لوگ ہوتے ہیں۔ بچوں کو پڑھاتے، نکتے سمجھاتے، زندگی گزار دیتے ہیں۔ لڑنے، جھگڑنے، رنگ بازی کرنے کا ان کے پاس وقت ہی کہا ہوتا۔

عظیم ہیں وہ قومیں جو اپنے استادوں کو سر آنکھوں پہ بٹھاتی ہیں۔ یہاں استادوں کو سڑکوں پہ گھسیٹا جا رہا ہے۔ اور وہ بھی اس لیے کہ استادوں نے اپنا حق مانگ لیا ہے۔

کوئی بھیک، خیرات یا حمایت نہیں مانگی!

امر واقع یوں ہے کہ سال 2014 سے 2018 تک محکمہ تعلیم پنجاب میں سولہویں سکیل میں اساتذہ کی ایک بڑی کھیپ کنٹریکٹ پہ بھرتی کی گئی۔ ان کی تعداد تقریباً چودہ ہزار ہے۔

یہ بھرتی NTS کے مقابلہ جاتی امتحان اور محکمانہ انٹرویو کے بعد ہوئی۔
چھ سال ہونے کو آئے مگر انہیں تاحال مستقل نہیں کیا گیا۔
محکمہ کہتا ہے آپ کو مستقلی کے لیے PPSC ٹیسٹ اور انٹرویو پاس کرنا ہوگا۔
یہ قانون ہے۔

استاد کہتے ہیں کہ ہم PPSC ٹیسٹ کیوں دیں۔ جب پہلے ہی ہم ٹیسٹ اور انٹرویو کے بعد بھرتی ہوئے ہبیں۔ اور ہمارے لیٹر آف ایگریمنٹ میں بھی کہیں PPSC کا ذکر نہیں ہے۔

اساتذہ تنظیموں کی بات ایک دم درست ہے کہ اگر NTS سے بھرتی پچھلی حکومت کی غلطی تھی تو اس کی سزا استاد کیوں بھگتیں۔

اور یہ نہیں کہ کسی حکومت کو ایسا مسئلہ پہلی بار درپیش ہے۔ سال 2012 میں ایسی ہی سیچوئشن پیدا ہوئی تو تب کی حکومت نے بجائے معاملہ بڑھانے کے وزیر اعلی کے حکم نامے سے تمام اساتذہ کو مستقل کر دیا تھا۔ اور مزیدار بات یہ کہ اساتذہ کی یہ کھیپ 2009 میں بنا کسی محکمانہ یا NTS ٹیسٹ کے بھرتی کیے گئے تھے۔

اور پچھلے سال KPK میں ایسی ہی صورتحال پیدا ہو گئی جب وہاں کے NTS پاس چھتیس ہزار اساتذہ کی مستقلی کا مسئلہ پیدا ہو گیا۔

مسئلہ وہاں بھی یہی تھا کہ مستقل ہونا ہے تو پہلے KPSC کا امتحان پاس کرو۔ ایک شور مچا۔ احتجاج شروع ہوا۔ قبل اس کے کہ معاملہ الجھتا KPK سرکار نے وزیر اعلی کے حکم نامے سے معاملہ سلجھا دیا۔

پنجاب میں اب تک
اس بابت محکمے سے مذاکرات کے کیے دور چلے مگر نتیجہ صفر بٹا صفر رہا۔
، کوئی تگڑا محکمہ ہوتا یا کوئی سیاسی مفاد ہوتا تو رات سے دن نہ چڑھتا کوئی نا کوئی راستہ نکل آتا۔
مگر سامنے استاد جو تھے۔ بیچارے یتیم محکمے کے مسکین ملازم!

وزیر تعلیم محترم مراد راس صاحب نے انہیں پچھلے کافی عرصہ سے انگیج کیا ہوا تھا کہ میں کوئی نا کوئی حل نکالتا ہوں۔

پچھلے دنوں وزیر صاحب نے بھی ہاتھ کھڑے کر دیے۔
جب اساتذہ کو پتا چلا کہ ہماری فائلز PPSC کو بھیجی جا رہی ہیں تو استادوں کے صبر کا پیمانہ چھلک گیا۔
انہیں کسی سیانے نے بتا دیا کہ پنجاب حکومت بنی گالہ سے چلتی ہے۔ وہاں چلے جاؤ، من کی مراد پاؤ گے۔
سو سارے پنجاب سے استاد اکٹھے ہو کر اسلام آباد جا پہنچے اور پھر جو ہوا قوم نے دیکھا۔

اور استاد ویسے بھی کچھ زیادہ ہی پرجوش تھے کہ عمران خان صاحب خود بنی گالہ گیٹ پہ تشریف لاکر اساتذہ کا سواگت کریں گے۔ انہیں گلے سے لگائیں گے۔ ان کا منہ چومیں گے۔

اور کہیں گے کہ
میرے جوانوں!
ایک تو سب سے پہلے آپ نے گبھرانا نہیں ہے!
میں ابھی تمہارا مسئلہ حل کرواتا ہوں۔
مگر آنکھ کھلی تو بے تحاشا لاٹھی چارج، شیلنگ، واٹر کینن سے سواگت کیا گیا۔
اور کچھ معزز اساتذہ کو مہمان بھی بنایا گیا۔ جی بالکل
جیل خانے کا مہمان!

سارے ملک سے سول سوسائٹی، اپوزیشن، صحافتی حلقوں نے قوم کے معماروں پہ تشدد کے خلاف بھرپور غم و غصے کا اظہار کیا۔ مذمتی بیان جاری کیے۔

مگر لیلی کو شاید ابھی تک کسی نے بتایا نہیں ہے کہ پہریداروں نے مجنوؤں کا کیا حال کیا ہے۔
سب زخم بھر جائیں گے، اگر اساتذہ کا مسئلہ حل کر دیا جائے۔

کمشنر اسلام آباد کیپٹن محمود ضامن بنے ہیں۔ وزارت قانون کے راجہ بشارت صاحب نے یقین دہانی کروائی ہے کہ جاؤ بچو! میں جانوں تمہاری مستقلی جانے!

ایک ہفتے بعد ملنا۔ دیکھتے ہیں یہ سیاسی دلاسا ہے کہ حقیقی دلبری۔

ورنہ قافلوں کو اسلام آباد کا راستہ بھولا تو نہیں۔ اور لیڈر کا سکھایا سبق بھی یہی ہے کہ جوانو سب سے پہلے تو آپ نے گبھرانا نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).