شان اکیڈمی سرکی کے رومان سے ”ہیکل سلیمانی“ کے نوسٹیلجیا تک


درد اور مسائل کے جنگل میں خوشیاں شکار کرتے کرتے خوش رنگ زندگی اتنی مصروف ہو گئی ہے کہ بوسیدہ وجود اسی رات دن کے پھیر میں گھن چکر بن کر رہ گیا ہے۔ ایسے میں زیست کی گاڑی کی رفتار آہستہ ہو اور کچھ پل کو ”عیاشی“ میں بتانے کا موقع ملے تو ہم جیسے ”سادھوؤں“ کے لئے وہ عیاشی یا تو اپنا قلم تھام کر کسی جہان نو کی تلاش ہوتی ہے یا کسی اور تخلیق کار کے شبدوں کا دامن تھام کر اس کے ساتھ ہم سفری کی ہوتی ہے۔ سو آج اس ”عیاشی“ کا موقع جب ہمیں میسر آیا تو خود کچھ تخلیق کرنے کے لئے تو ذہن تیار نہیں تھا لہذا ”ہیکل سلیمانی“ کی شکل میں اپنے محبوب اور مہان قلم کار جناب مظہر کلیم ایم اے کے قلم کی طلسماتی دنیا میں جھانکنے کا سوچا۔

عمران سریز کے ناول ”ہیکل سلیمانی“ کے ساتھ جڑے رومانس اور نوسٹیلجیا کا قصہ کچھ یوں ہے کہ 90 ء کی دہائی کے اوائل میں ابا جی نے تعلیم کے حوالے سے ہماری ”خستہ حالی“ کو بھانپتے ہوئے ہمیں ”شہر بدر“ کر کے گاؤں میں بھائی جان (شبیر احمد ناز) کے سپرد کر دیا، ”بن باس“ کے سمے ہم درگاہ محبوب سبحانی کے ”کپ“ (مقبرہ موسی پاک شہید) میں تیسری جماعت کے ”چندرے“ طالب علم کے طور پر مشہور تھے۔

ہمارے بھائی صاحب موٹر نیوران نامی لاعلاج موذی مرض کے باعث جسمانی طور پر تو معذور تھے تاہم ان کا حوصلہ اور جذبہ اتنا بلند تھا کہ دریائی مٹی سے ”چویڑے“ والے ”ڈھولے“ اسار کر اس پر گھاس پھونس کا چھپر ڈال دیا اور اسے ”شان اکیڈمی“ کا نام دے کر گاؤں اور گردونواح کی درجنوں بستیوں کے مفلوک الحال بچوں کو قرآن پاک اور نصابی کتب کی مفت تعلیم دینا شروع کر دی۔

”شان اکیڈمی“ کو ہمارے گاؤں کے پہلے سکول ہونے کا اعزاز حاصل ہوا اور ہمیں اس شان دار تعلیمی ادارے کے اولین طلبہ میں شامل ہونے کا ناز، کہ ہم کئی سال بھائی جان کی جوتیاں اٹھانے کا فریضہ سرانجام دیتے رہے۔ ان کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کر کے آموختہ دہراتے رہے۔ نومی سے نعیم احمد اور پھر نعیم احمد ناز تک ہماری صورت گری تک ان کی دعائیں ہماری عمر رواں کی بے اعتبار سانسوں کا معتبر اثاثہ ہیں۔ اور ان کی یادیں متاع حیات، جن کو اوڑھ لینے سے دھوپ کی تپش کچھ کم ہو جاتی ہے۔

”شان اکیڈمی“ میں ”شان“ دراصل ہمارے بھائی جان ”شبیر احمد ناز“ کے نام کے ابتدائی حروف کا مجموعہ تھا، ہماری طرح ان کا ہر شاگرد اپنے استاد جی کی محبت میں اپنے نام کے آخر میں ”ناز“ کا سابقہ لگا کر حقیقی معنوں میں ان کی شاگردی پر فخر محسوس کرتا ہے۔

چھپر سکول کے ذریعے مفت تعلیم کی فراہمی کا بیڑہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ بھائی جان نے اپنے شاگردوں میں ذوق مطالعہ کو پروان چڑھانے اور کتب بینی کے فروغ کے لئے ایک کچے کمرے میں ”فری لائبریری“ بھی قائم کر رکھی تھی۔ اس لائبریری میں دیگر کتابوں کے ساتھ ساتھ عمروعیار، ٹارزن وغیرہ کی کہانیاں اور عمران سیریز کے بوسیدہ ناول بھی میسر تھے۔

جون جولائی کی گرمیوں میں جمعہ کی چھٹی کے دن ہم شیر دریا یا شانت چناب کے کنارے گھنے چھتنار شجر کے نیچے ہری بھری گھاس پر لیٹ کر عمروعیار کی کسی کہانی سے حظ اٹھاتے یا پھر اپنے آبائی کھوہ پر چلے جاتے، جہاں آبائی زمین پر آم کے درخت کے نیچے بچھی چارپائی پر لیٹ کر ٹارزن کے کارناموں میں گم ہو جاتے۔ ساتھ رہٹ چلتا رہتا۔ بچے بالے، کھالے میں نہاتے، شرارتیں کرتے رہتے اور ہم ناول پڑھتے جاتے۔ کتنی ہی رتیں آئیں اور آ کر گزر گئیں، زیست لیکن لوبھ سے پاک بے فکری اور بے خوفی سے گزرتی رہی۔

ایک دن جب بچوں کے سارے ناول چاٹ لئے اور شان اکیڈمی کی لائبریری میں ہماری عمر، ذوق اور معیار کے مطابق کوئی کتاب نظر نہ آئی تو آپو آپ ہی نظر عمران سیریز کے ناولوں پر جا ٹھہری۔ عمران سیریز کے ان ناولوں میں ایک بوسیدہ ناول کا نام ”ہیکل سلیمانی“ تھا، امتداد زمانہ کی کہولت کے کارن جس کے پنے پیلے ہو چکے تھے، دو حصوں پر مشتمل اس ناول کا صرف پہلا حصہ ہی لائبریری میں دستیاب تھا۔ اگلے دن اکیڈمی سے جمعہ کی چھٹی تھی لہذا فرصت کے لمحوں کو گزارنے کے لئے ہم ”ہیکل سلیمانی“ کو اپنی نصابی کتابوں کے ساتھ کپڑے میں باندھ کر گھر لیتے گئے۔

وہ دسمبریں رت کی دھندلیں شب تھی، گاؤں کی شبنمی فضا میں پراسراریت اور خموشی کا نغماتی وجدان دھیمے سروں میں گنگنا رہا تھا، ہمارے گھر کے کچے کمرے میں چولہے کے ساتھ بچھی چٹائی پر دھری الٹی ہاون پر لالٹین کی ملگجی روشنی کمرے کے ماحول کو حیرت سرا بنا رہی تھی۔ مٹی کے چولہے میں دہکتے انگارے چٹخ چٹخ کے پالے کی رومان پرور گھڑیوں کو پراثر سمفنی میں تبدیل کر رہے تھے۔ اس کمرے میں بچھی چار میں سے تین چارپائیوں پر اماں، بہن اور بھائی محو استراحت تھے، بھائی کی چارپائی کے سرہانے دھرے ریڈیو پر ”آکاش وانی“ کے فلمی گیت زیست کے وفور کو تقویت دے رہے تھے۔

ادھر ہم تھے کہ چٹائی پر ”کھوپے والی ٹوپی“ سے اپنے سر، چہرے اور گردن کو چھپائے، دیوار سے ٹیک لگا کر سکون سے عمران سیریز کا ناول پڑھنے میں مصروف تھے۔ بڑوں کی طرف سے ممکنہ ”نقض امن“ سے بچنے کے لئے ہم نے ناول کو نصاب کی کتاب میں رکھا ہوا تھا۔ اماں گاہے پہلو بدل کر دیکھ لیتیں اور نیند و بیداری کی ملی جلی کیفیت میں گویا ہوتیں : نومی سو جا، اتنی رات بیت گئی ہے، کل ویسے بھی چھٹی ہے، کل پڑھ لینا ”۔

لیکن مظہر کلیم ایم اے کے ناول نے کچھ ایسا فسوں ہم پر پھونکا تھا کہ اسے بغیر ختم کیے چھوڑنے کو جی ہی نہیں کر رہا تھا، کچھ اماں کی تاکید کا اثر تھا اور تھوڑا نیند ستا رہی تھی، ہم نے ناول کو کتاب میں چھپایا اور بستر میں گھس گئے۔

دوسرے دن دھمی ویلے اماں نے مسیت جانے کے لئے اٹھایا، رات دیر سے جاگنے کی وجہ سے آنکھ ہی نہیں کھل رہی تھی، لیکن اٹھنا ہی پڑا، مسیت میں بھی مولوی صاحب کا آموختہ دہراتے ہوئے ناول کی کہانی ذہن میں گونجتی رہی تھی۔ مسیت سے واپسی پر گھر آ کر ناشتہ کیا اور جب سردیوں کی باکرہ دھوپ نے اپنا سنہری آنچل زمین پر پھیلایا تو ہم نے نصابی کتاب کی آڑ میں ناول کو تھاما اور سبق یاد کرنے کا بہانہ کر کے کھوہ پر چلے گئے۔

اپنے کھوہ کے پرسکون ماحول میں سرد دھوپ کے ”چٹکے“ پر بیٹھ کر ہم نے ناول کا پہلا حصہ مکمل کیا، مزہ اس وقت کرکرا ہوا جب ہمیں ناول کا دوسرا حصہ نہ ملا۔ اپنی سی کوشش اور تلاش بسیار کے باوجود جب ناول کا دوسرا حصہ نہ ملا تو ہم نے صبر کر لیا۔

ستمبر 1992 ء میں اس دور کے اہل اقتدار کے دباؤ پر اوچ شریف اور گردونواح کے علاقوں کو سیلاب سے بچانے کے لئے ہیڈ پنجند کے مقام پر بند توڑ کر سیلابی پانی کو تحصیل علی پور کی سمت موڑ دیا گیا۔ اس خوفناک سیلاب نے ہمارے پورے گاؤں کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ ہماری بستی ٹبہ برڑہ بلندی پر ہونے کے باعث سیلاب کے نقصان سے تو محفوظ رہی لیکن چاروں اور پانی نے اس کا محاصرہ کر دیا تھا، لہذا ہنگامی بنیادوں پر ہمیں کشتی کے ذریعے علی پور تک پہنچایا گیا اور وہاں سے جیسے تیسے ہم اوچ شریف پہنچے تو یہاں بھی ہو کا عالم تھا، ہمارے محلے کے لوگ تو سیلاب آنے کی افواہ پر اپنے مکانوں کے ٹی آرز، گاڈرز تک اکھاڑ کے محفوظ مقامات پر منتقل ہو گئے تھے البتہ ہمارے ابا جی نے گھر چھوڑ کر کہیں جانے سے انکار کر دیا تھا۔

اس دور میں اوچ شریف میں ملت صاحب کی دکان تھی جہاں سے جاسوسی ناول کرائے پر دستیاب تھے۔ سلیم بھائی ہر ہفتے وہاں سے ناول لے کر آتے تھے، اس کے علاوہ درگاہ محبوب سبحانی کے قریب خورشید صاحب کی ”عمران دی گریٹ لائبریری“ سے عمران سیریز کے ناول کرائے پر ملتے تھے۔ ہم نے دونوں لائبریریز سے پتہ کیا لیکن ”ہیکل سلیمانی“ کا دوسرا حصہ ان دونوں کے پاس نہیں تھا۔ غم دنیا نے مگر یہ کہ ہمیں بھی مصروف کر دیا۔

2003 ء میں ہم نے اوچ شریف میں بورڈنگ سکول کے قریب ”نسیم لائبریری“ قائم کی تو ناولوں کی خریداری کے لئے ہمارا ملتان جانا ہوا، وہاں اپنے محبوب مصنف مظہر کلیم ایم اے سے ملاقات ہوئی۔ ان سے آٹو گراف لینے کا شرف حاصل کیا۔ پاک گیٹ میں ”یوسف برادرز“ کی دکان سے عمران سیریز کے اور کئی ناول تو مل گئے البتہ ”ہیکل سلیمانی“ آؤٹ آف پرنٹ تھا لہذا ”ہیکل سلیمانی“ پڑھنے کی آشا ایک بار پھر دل ہی میں رہ گئی۔

مئی 2018 ء کو مظہر کلیم ایم اے کے انتقال تک ہمارے پاس عمران سیریز کے نئے پرانے تقریباً تمام ناول جمع ہو گئے البتہ ”ہیکل سلیمانی“ پھر بھی مفقود رہا۔ مگر اسے پڑھنے کی کسک دل میں ہمیشہ زندہ رہی۔

چند دنوں قبل ایک دوست سے مظہر کلیم ایم اے کے شاہکار ناولوں کی بابت بات چیت ہوئی تو ”ہیکل سلیمانی“ کا تذکرہ بھی آ گیا۔ ہم نے ان سے گزشتہ 28 برس سے اپنی اس ”محرومی“ کا ذکر کیا تو انہوں نے عبدالواحد صدیقی صاحب کا ”کلیو“ دیا کہ ان کے پاس یہ ناول ضرور ہو گا البتہ اپنی ”سیلانی طبیعت“ کی بناء وہ آپ کو مشکل سے دیں گے۔

صدیقی صاحب ایک دور میں ”حادثاتی طور پر“ ہمارے کولیگ رہے تھے۔ گرلز ہائی سکول کے ساتھ ان کی کتابوں کی دکان تھی جبکہ کرائے پر ناول وغیرہ بھی دیتے تھے۔ ”امتداد زمانہ“ کے سبب دکان ختم کی تو سارے ناول بوروں میں بند کر کے گھر رکھ دیے۔ ہم نے اپنی ”غیرت“ اور ”انا“ کو ”بالائے طاق“ رکھتے ہوئے خصوصی طور پر فرمائش کر کے صدیقی صاحب سے ”ہیکل سلیمانی“ ناول مانگا، پہلے دو ہفتے تو وہ ہمیں ٹالتے رہے کہ ناول بوروں میں بند ہیں، بورے کھول کر ڈھونڈنا ہو گا تاہم ہمارے مسلسل اصرار پر آخر انہوں نے ہمیں ”ہیکل سلیمانی“ ناول مہیا کر ہی دیا۔

”ہیکل سلیمانی“ علی عمران اور اس کے ساتھیوں کی سرفروشی، جواں مردی اور دلیری کے ایسے کارناموں پر مشتمل ہے کہ اس کا ہر لفظ عمران اور اس کے ساتھیوں کے خون میں ڈوبا ہوا نظر آتا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف جب یہودیوں نے ایسی سازش تیار کی جس کا انکشاف ہوتے ہی پوری دنیا کے مسلمان سراپا احتجاج بن گئے مگر اسرائیل نے کسی بھی احتجاج کو پرکاہ کی بھی حیثیت نہ دی، لیکن جب عمران اور اس کے ساتھی اس بھیانک سازش کا توڑ کرنے کے لئے قہروغضب کی بجلیوں میں ڈھل کر سرزمین اسرائیل پر ٹوٹے تو اسرائیل کی تمام طاقتیں عمران اور اس کے ساتھیوں کے خاتمے کے لئے متحد ہو کر سامنے آ جاتی ہیں۔ ریڈ آرمی، جی پی فائیو، ملٹری انٹیلی جنس قدم قدم پر موت کی اونچی دیواریں چن دیتی ہیں۔

اس ناول میں ایک لمحہ ایسا بھی آتا ہے جب عمران اور اس کے ساتھی کرنل فرانک، کرنل کاسٹر اور کرنل ڈیوڈ کے سامنے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہنے موت کے کٹہرے میں کھڑے نظر آ رہے تھے، لیکن اس لمحے کا انجام اسرائیلی صدر اور عمران کے درمیان ایک عجیب و غریب معاہدے کی صورت میں سامنے آتا ہے، ایک ایسا معاہدہ جس کا چرچا پوری دنیا میں پھیل گیا، یہ معاہدہ پوری دنیا کے یہودیوں کے ہیرو، مارشل آرٹ میں ناقابل تسخیر سمجھے جانے والے طاقت اور بہادری کے دیوتا کرنل بالڈون اور عمران کے ایک چیلنج مقابلے کا ہوتا ہے، اسرائیل کو کرنل بالڈون کی فتح کا اتنا یقین ہوتا ہے کہ وہ یہ مقابلہ پوری دنیا کے ٹیلی ویژن چینلوں پر دکھانے کا اہتمام کرتا ہے، مظہر کلیم ایم اے کا یہ سپرجوبلی نمبر کا ناول دراصل سرزمین اسرائیل پر موت اور خون میں ڈوبا ہوا یاد گار ایڈونچر تھا جس کی ہمک زیست کے 28 سال گزر جانے کے باوجود بھی ہمارے اندر قائم رہی۔

زیست کی نشاط انگیز اور تاسف بھری ساعتوں کو بیان کرنا کار اذیت ہوتا ہے۔ مصروفیت کی تیرگی ان قمقموں کو بجھا دیتی ہے جو کبھی کالی راتوں میں صبح درخشاں بن کر طلوع ہوتے تھے اور ان کی تابندگی کا لمس وجود پر تادیر ثبت ہوتا تھا۔ مظہر کلیم ایم اے کا ”ہیکل سلیمانی“ ایک ایسا ہی ناول ہے جو بچپن کے وجد آفریں لمحات کو آواز دیتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).