جمیعت علمائے اسلام نے اپنے چار سینیئر ارکان کو پارٹی سے کیوں نکالا؟


مولانا فضل الرحمان
جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمان) نے جمعے کے روز اپنے چار سینیئر رہنماؤں کو پارٹی سے نکال دیا ہے۔ ان رہنماؤں پر پارٹی فیصلوں، پالیسی، دستور اور منشور سے انحراف جیسے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

جے یو آئی کے ترجمان محمد اسلم غوری نے بی بی سی کو بتایا کہ نکالے جانے والے رہنماؤں میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے مولانا محمد خان شیرانی اور حافظ حسین احمد جبکہ خیبر پختونخوا کے مولانا گل نصیب خان اور مولانا شجاع الملک شامل ہیں۔

واضح رہے کہ جے یو آئی سے نکالے گئے یہ چاروں رہنما پارٹی میں اہم ترین عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں اور پارلیمنٹ میں بھی پارٹی کی نمائندگی کر چکے ہیں۔ یہ رہنما اس وقت اپنے اپنے حلقوں میں مدارس کا نظم و نسق بھی سنبھالے ہوئے ہیں۔

بغیر کوئی نوٹس دیے پارٹی سے نکالا گیا

حافظ حسین احمد پارٹی کے ترجمان بھی رہ چکے ہیں۔

مولانا اختر شیرانی بلوچستان کے صوبائی صدر رہنے کےعلاوہ سربراہ اسلامی نظریاتی کونسل بھی رہے۔ گل نصیب سابق سینیٹر اور جے یو آئی خیبر پختونخوا کے صوبائی صدر رہ چکے ہیں۔ مولانا شجاع الملک سابق رکن قومی اسمبلی اور پارٹی کے صوبائی جنرل سیکرٹری بھی رہ چکے ہیں۔

بی بی سی نے اس فیصلے سے متعلق ان رہنماؤں سے تفصیل سے بات کی ہے۔ ان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ انھیں بغیر کوئی نوٹس دیے پارٹی سے نکالا گیا ہے۔ انھوں نے پارٹی قیادت سے اپنے اختلافات پر بھی تفصیل سے بات کی ہے۔

خیال رہے کہ جمعے کو جے یو آئی کے ترجمان نے میڈیا کو بتایا کہ ان رہنماؤں کو پارٹی سے نکالنے کا فیصلہ جے یو آئی کی مرکزی مجلس شوریٰ کی انضباطی کمیٹی نے کیا ہے۔

کمیٹی نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ جماعت سے خارج کیے گئے ’افراد‘ کے بیانات اور رائے کا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔

ترجمان نے مزید بتایا کہ قائم قام امیر مولانا محمد یوسف کی صدارت میں مرکزی مجلس عاملہ اور صوبائی امرا و نظما نے اجلاس میں فیصلے کی توثیق بھی کردی جبکہ خارج کیے گئے افراد کو فیصلے کی کاپیاں بھجوادی گئی ہیں۔

ترجمان کے مطابق جے یو آئی کی مجلس عاملہ کا کہنا ہے کہ اگر کوئی رہنما وضاحت کرتا ہے اور معافی مانگتا ہے توکمیٹی ان کی رکنیت بحال کرنے سے متعلق فیصلہ کرنے میں با اختیار ہو گی۔

یہ بھی پڑھیے

مذہبی رہنما یا سیاسی جادوگر، مولانا آخر ہیں کون؟

31 دسمبر تک تمام پارٹیوں کے اراکین اپنے استعفے قیادت کو جمع کروا دیں گے: اپوزیشن کا فیصلہ

کیا اپوزیشن جماعتیں لانگ مارچ کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کر پائیں گی؟

جے یو آئی سے نکالے جانے والے رہنماؤں کا کیا مؤقف ہے؟

حافظ حسین احمد اپنی حس مزاح کی وجہ سے بھی پاکستانی سیاست میں شہرت رکھتے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ پارٹی کے اندر کافی عرصے سے اختلافات چل رہے تھے اور سب سے بڑا اختلاف پارٹی سے ’ایف` کو نکالنے پر ہوا۔ ان کے مطابق ہمارے خیال میں ایف کا مطلب سوائے ذاتی فائدے کے اور کچھ نہیں۔ ’ہمارے خدشات درست ثابت ہوئے اور وقت کے ساتھ ساتھ فوائد بڑھتے چلے گئے۔‘

حافظ حسین احمد کے مطابق پارٹی نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہم صدر پاکستان کے لیے انتخاب نہیں لڑیں گے مگر جب نواز شریف نے مولانا فضل الرحمان سے صدارت کا امیدوار بننے کے لیے کہا تو وہ دوڑ کر کھڑے ہو گئے۔ بات صرف یہیں نہیں رکی بلکہ انھوں نے اپنے بیٹے مفتی اسعد محمود کو خود ہی قومی اسمبلی میں ڈپٹی سپیکر کا امیدوار بھی نامزد کر دیا۔

حافظ حسین احمد نے پارٹی قیادت پر بدعنوانی کے الزامات بھی عائد کیے۔

ان کے مطابق پارٹی نے مولانا فضل الرحمان پر یہ واضح بھی کیا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کے خلاف فوج میں بغاوت کروانا ہماری پارٹی کا بیانیہ اور پالیسی نہیں ہے مگر اس کے باوجود وہ اس راہ پر چل پڑے۔

حافظ حسین احمد

حافظ حسین احمد

حافظ حسین احمد کے مطابق پارٹی کے فیصلوں کو بھی جب نظر انداز کیا گیا اور ان پر عمل نہ ہوا تو پھر ہم نے اختلافی آواز اٹھانا شروع کر دی۔

انھوں نے کہا کہ ’اب ہم پر یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ ہمیں شاید ’کہیں‘ سے اشارے مل رہے تو میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ گذشتہ سال آزادی مارچ سے اٹھ کر چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الہیٰ کے ساتھ پنڈی میں ایک اہم شضیت سے ملنے کون گیا تھا اور پھر مارچ تک حکومت گرانے کی یقین دہانی پر آزادی مارچ کے خاتمے کا اعلان کس نے کیا تھا۔‘

حافظ حسین احمد کے مطابق اس ملاقات کی تصدیق خود پارٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری نے کی ہے مگر اس اہم ملاقات سے پہلے اور نہ ہی بعد میں کسی نے پارٹی کو اعتماد میں لیا۔

’مولانا فضل الرحمان سے سینیئر ہوں`

حافظ حسین احمد طویل عرصے تک پارلیمنٹ میں جے یو آئی کی آواز بنے رہے۔ وہ 1988 کے انتخابات کے بعد چار بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔

حافظ حسین احمد کے مطابق وہ جے یو آئی کے سنہ 1973 میں رکن بنے جب اس پارٹی کی قیادت مولانا فضل الرحمان کے والد مفتی محمود کے ہاتھوں میں تھی۔ ان کے مطابق مولانا فضل الرحمان کی پارٹی میں شمولیت 1980 میں ہوئی۔

ان کے مطابق انھیں پارٹی رکنیت سے اخراج کے بارے میں ٹی وی کے ذریعے پتا چلا۔ اس فیصلے سے متعلق کوئی نوٹس ملا اور نہ کسی نے کبھی وضاحت طلب کی۔

حافظ حسین احمد کے مطابق ہم نے اندرونی اجلاسوں میں یہ بھی بار بار مطالبہ کیا کہ جس طرح پی ڈی ایم (حزب اختلاف کی 11 جماعتوں کا اتحاد) شفاف انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہے ایسے ہی پارٹی کے اندر بھی شفاف انتخابات کرائے جائیں۔ ان کے مطابق اس مطالبے کا مقصد ہی یہی تھا کہ پارٹی اصولوں پر چلے نہ کہ موروثی طور پر چلے۔

ان کے مطابق اس وقت ان کے ہزاروں سینیئر ساتھیوں کو اختلافات ہیں اور وہ پارٹی کی بقا کی خاطر چپ بیٹھے ہیں۔

مولانا گل نصیب

مولانا گل نصیب

ان کے مطابق ہم خود بھی کئی سال سے خاموش بیٹھے ہوئے ہیں۔

ان کے مطابق ہم نے سوال پوچھا تھا کہ ہم کیوں کسی کے کہنے پر تحریک چلائیں۔۔ اور ایک ایسی تحریک جس کے فیصلوں کو ویٹو کرنے کا اختیار بلاول بھٹو کو حاصل ہو جبکہ نواز شریف بیماری کے نام پر 11 ماہ خود خاموش بیٹھا رہے تو پھر سوالات تو اٹھتے ہیں۔

جے یو آئی کے ترجمان نے ان الزامات کی تردید کی ہے

جے یو ائی کے ترجمان اسلم غوری نے بی بی سی کو بتایا کہ ان رہنماؤں کو مرکزی شوریٰ کی طرف سے بنائی گئی اس سات رکنی کمیٹی نے متفقہ طور پر نکالا ہے جو اس فیصلے سے قبل ان رہنماؤں سے مل چکی ہے۔ کمیٹی نے ایک دن پورا حافظ حسین احمد کے ساتھ گزارا۔

ان کے مطابق مولانا اختر شیرانی نے اس کمیٹی کو ملاقات کا وقت ہی نہیں دیا۔

ترجمان کے مطابق ان رہنماؤں کی طرف سے بدعنوانی اور دیگر الزامات بھی درست نہیں ہیں کیونکہ پارٹی کبھی کسی بھی کسی بھی قسم کی بدعنوانی میں ملوث نہیں رہی ہے۔

ان کے مطابق پارٹی نے ان رہنماؤں کے خلاف بھی کوئی بدعنوانی کا الزام نہیں عائد کیا ہے بلکہ انھیں پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی پر نکالا۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ ایف کبھی بھی پارٹی میں شامل نہیں رہا یہ سب میڈیا کی خبروں کی حد تک ہے۔ اس کی تصدیق خود الیکشن کمیشن کر سکتا ہے کہ دستور کے مطابق پارٹی کی رجسٹریشن صرف جے یو آئی کے نام سے ہے۔

مولانا اختر شیرانی سے متعلق بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پارٹی کے فیصلوں کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ انھوں نے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے متعلق بیان دیا جو قطعاً پارٹی کی پالیسی نہیں تھی اور اس پریس کانفرنس میں ان کے ساتھ مولانا گل نصیب اور مولانا شجاع الملک بھی تھے، جنھوں نے اس بیان پر اختلاف کا اظہار نہیں کیا۔

مولانا اختر شیرانی

مولانا اختر شیرانی

بلوچستان سے ہی تعلق رکھنے والے مولانا اختر شیرانی اب کہاں ہیں اور اب وہ کیا سوچ رہے ہیں؟

مولانا اختر شیرانی کا شمار جے یو آئی کے بانی اراکین میں ہوتا ہے۔ اس وقت ان کی عمر 90 برس کے قریب ہے۔ وہ چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل بھی رہ چکے ہیں۔

مولانا اختر شیرانی اس وقت اسلام آباد کے مضافاتی علاقے میں میڈیا سے دور وقت گزار رہے ہیں۔ انھوں نے رابطہ کرنے پر بی بی سی کو بتایا کہ وہ آج کی پیش رفت پر ابھی کچھ نہیں کہنا چاہتے ہیں۔ حافظ حسین احمد کے مطابق اب ہم مل بیٹھیں گے اور مشاورت سے کوئی فیصلہ کریں گے۔

مولانا شیرانی پارٹی کے اندر آزادانہ انتخابات کے قائل نہیں رہے ہیں اور وہ خود جے یو آئی بلوچستان کے چار دہائیوں تک سربراہ رہے ہیں۔

تاہم گذشتہ دنوں ایک بیان میں ان کہنا تھا کہ ’مولانا فضل الرحمان خود سلیکٹڈ ہیں، وہ عمران خان کو کیسے کہتے ہیں کہ وہ سلیکٹڈ ہے، میرا ماننا ہے کہ یہ پارٹی کسی کی ذاتی جاگیر نہیں، اگر کوئی ایسا سوچ رہاہے تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔‘

مولانا شیرانی 2019 کے پارٹی انتخابات میں بلوچستان کے صوبائی صدر منتخب نہ ہو سکے اور ان کے ایک قریبی ساتھی مولانا واسع صوبائی صدر بن گئے۔

مولانا اختر شیرانی پرویز مشرف کے ساتھ ڈیل کے مخالف کیوں تھے؟

جب مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل نے پرویز مشرف کے ساتھ ایک ڈیل کی کہ وہ ایک سال کے عرصے میں آرمی چیف کی وردی اتار کر سویلین صدر بن جائیں گے جس کے بدلے ایم ایم اے کے ارکان پارلیمنٹ میں 17 ویں ترمیم کے حق میں ووٹ دیں گے۔

یاد رہے کہ اس 17 ویں ترمیم کے ذریعے پرویز مشرف اقتدار میں آنے کے بعد اپنے جاری کردہ ’لیگل فریم ورک` (ایل ایف او) کو آئینی تحفظ دینے میں کامیاب رہے تھے۔

مولانا اختر شیرانی کے بارے اس اتحاد میں شامل ایک سینیئر رہنما نے کہا کہ مولانا شیرانی نے یہ کہہ کر پرویز مشرف سے ڈیل کرنے کی مخالفت کی تھی کہ اگر انھوں نے وردی اتار بھی دی تو کون سا یہ ایم ایم اے کے کسی رہنما کو پہنا دینی ہے۔

مولانا شجاع المک کا کیا مؤقف ہے؟

خبیر پختونخوا کے شہر مردان سے تعلق رکھنے والے مولانا شجاع الملک سابق رکن قومی اسمبلی رہ چکے ہیں۔

وہ سیاسی کارکن کے طور پر سابق فوجی صدور جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار میں جیل بھی کاٹ چکے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ 1988 سے پارٹی سے وابستہ ہیں اور نکالے گئے باقی تینوں رہنماؤں سے پارٹی میں جونئیر ہیں۔

شجاع الملک کے مطابق پارٹی کے اندر اختلافات دس پندرہ سال سے چل رہے ہیں اور اس میں سب سے بڑی بحث طریقہ انتخاب پر ہی رہی ہے۔

ان کے مطابق جس طرح مولانا فضل الرحمان خود کو پارٹی کا سربراہ منتخب کراتے ہیں تو یہ شہنشایت تو ہو سکتی ہے مگر اس سے جمہوری اقدار کا کوئی تعلق نہیں بنتا۔

ان کے مطابق وہ خود تو پارٹی کی مرکزی شوریٰ کے رکن ہیں مگر حافظ حسین احمد مجلس عاملہ کے بھی رکن ہیں جس میں صرف 12 سے 13 ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کی رکنیت کبھی بھی ختم نہیں کی جا سکتی ہے۔

شجاع الملک کے مطابق من پسند طریقہ انتخاب پر پارٹی کی صفوں میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔

پارٹی سے نکالے گئے چوتھے رہنما مولانا گل نصیب ہیں جن کا تعلق خیبر پختونخوا کے علاقے چکدرہ سے ہے، جے یو آئی کے سینیٹر بھی رہ چکے ہیں۔

وہ جے یو آئی کے صوبائی صدر کے منصب پر بھی فائز رہے۔ تاہم وہ جنوری 2019 کو پارٹی انتخابات کے دوران دوبارہ اس منصب پر فائز ہونے میں ناکام رہے، جس کے بعد انھوں نے پارٹی میں اپنی سرگرمیاں محدود کر دی تھیں۔

ان رہنماؤں کے پارٹی چھوڑنے سے جے یو آئی پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟

سینیئر صحافی سلیم صافی نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ چاروں رہنما نہ صرف انتہائی سینیئر تھے بلکہ یہ پارٹی میں انتہائی اہم عہدوں پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔

سلیم صافی کے مطابق یہ رہنما ملک کے مختلف حصوں سے تعلق رکھتے ہیں اور اس وقت یہ سب عمر کے جس حصے میں ہیں اب کوئی بڑی تحریک بھی نہیں چلا سکتے اور نہ ان میں سے کسی کی ایسی شخصیت ہے کہ وہ جے یو آئی کے لیے عوامی سطح پر بڑا چیلنج بن کر ابھر سکے۔

ان رہنماؤں کی طرف سے عائد کردہ الزامات پر بات کرتے ہوئے سلیم صافی نے کہا کہ جے یو آئی کا طریقہ انتخاب شروع سے ایسا ہی ہے مگر اس وقت ان کے الزامات اور اختلافات پر لوگ شک کریں گے کہ ان کو وہی لوگ ابھار رہے ہیں جو مولانا فضل الرحمان کے مخالف ہیں۔

مولانا فضل الرحمان

ان کے مطابق مولانا فضل الرحمان نے ان رہنماؤں کو خود نکالنے کے بجائے پارٹی فورم کا استعمال کیا ہے۔

مولانا شیرانی کی طرز سیاست پر بات کرتے ہوئے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی شہزادہ ذوالفقار نے بی بی سی کو بتایا کہ مولانا شیرانی نے بلوچستان میں مولانا فضل الرحمان کو بھی پارٹی معاملات میں کبھی مداخلت نہیں کرنے دی اور اپنی مرضی سے وہ پارٹی کو چلاتے رہے۔

ان کے مطابق مولانا شیرانی کی پارٹی پر گرفت زیادہ مضبوط نہیں رہی تھی۔

انھوں نے بتایا کہ جے یو آئی کے متعدد رہنما اس وقت ان کے کیمپ سے نکل کر براہ راست مولانا فضل الرحمان سے رابطہ قائم کیے ہوئے ہیں۔

شہزادہ ذوالفقار اس بات سے متفق ہیں کہ اس وقت مولانا فضل الرحمان کی پارٹی پر مکمل گرفت نظر آتی ہے جبکہ جن چار اراکین کی پارٹی رکنیت ختم کی گئی ہے وہ اس وقت عملی سیاست سے دور ہیں اور وہ پارٹی کے لیے کوئی بڑا چیلنج کھڑا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

سلیم صافی اس بات سے متفق ہیں کہ برصغیر کی طرز سیاست کی چھاپ جے یو آئی پر بھی ہے جہاں باپ کے بعد بیٹا پارٹی کے اعلیٰ منصب پر فائز ہو جاتا ہے اور پھر متعدد فیصلے شخصی نوعیت کے بھی ہوتے ہیں۔ مگر ان کے خیال میں جے یو آئی کے ان رہنماؤں نے اختلافات کا اظہار کرنے اور الزامات عائد کرنے میں اتنی دیر کر دی ہے کہ اب ان کی بات کا کوئی زیادہ یقین نہیں کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp