پانچ سال تک نہ نہانے والے ڈاکٹر جیمز ہیملن کے مطابق ’نہانا طبی ضرورت نہیں‘


ہیملن
Arquivo pessoal/James Hamblin
ہیملن نے جلد کی صفائی کے بارے میں تحقیق کی او رحال ہی میں ایک کتاب شائع ہوئی
اگر ڈاکٹر جیمز ہیبلن سے کوئی یہ پوچھے کہ پانچ برس قبل نہانا بند کرنے کے فیصلہ کے بعد وہ کیسا محسوس کر رہے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ 'بالکل ٹھیک‘ محسوس کر رہا ہوں۔

بی بی سی منڈو کے ساتھ بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’آپ اس کے عادی ہو جاتے ہیں۔ یہ آپ کو عام سی بات لگنے لگتی ہے۔‘

37 برس کے ڈاکٹر ہیبلن ییل یونیورسٹی سکول آف پبلک ہیلتھ میں پروفیسر ہیں اور پریوینٹیٹو میڈیسن کے ماہر بھی۔

وہ امریکی میگزین دی ایٹلانٹک کے لیے ایک صحافی کی حیثیت سے بھی کام کرتے ہیں۔ انھں نے 2016 میں لکھی گئی ایک تحریر میں لکھا کہ ’ہم اپنی پوری زندگی میں دو سال نہانے کے عمل پر خرچ کرتے ہیں۔ اس میں سے کتنا وقت، پانی اور پیسا ضائع ہوتا ہے؟۔‘ اس تحریر کا عنوان تھا : ’میں نے نہانا چھوڑ دیا اور زندگی چلتی رہی۔‘

اس سال انھوں نے ایک اور آرٹیکل لکھا ہے جس کا عنوان ہے ‘آپ بہت زیادہ نہاتے ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

وہ تالاب جس میں غسل کے لیے لوگ چار دن پیدل چلتےہیں

طہارت:’بات پیچھے کی ہو تو مغرب والے بہت پیچھے ہیں‘

حالانکہ ان کا خیال ہے کہ ہمیں کبھی بھی اپنے ہاتھ دھونا ترک نہیں کرنا چاہیے لیکن یہی رویہ جسم کے دوسرے اعضا کے ساتھ ٹھیک نہیں۔

انھوں نے پانچ برس کی تحقیق کے بعد اپنی کتاب ’کلین۔ دی نیو سائنس آف سکن اینڈ بیوٹی آف ڈوئنگ لیس‘ اس سال شائع کی۔

ایک تجربہ

جب ہم نے ان سے پوچھا کہ انھوں نے نہانا ترک کیوں کیا تو وہ ایک لمحے کے لیے خاموش ہوئے اور پھر جواب دیا۔

‘یہ ایک لمبی کہانی ہے اور اسے بیان کرنے کے لیے ایک کتاب کا ہونا ضروری ہے۔ لیکن میں پہلے یہ سمجھنا چاہتا تھا کہ آخر ہو کیا رہا ہے۔ میں بہت سے ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو کہ بہت کم نہاتے ہیں۔ مجھے پتا تھا کہ ایسا کرنا ممکن ہے لیکن میں اس چیز کو خود آزما کر دیکھنا چاہتا تھا کہ اس کے نتائج کیا نکلیں گے۔‘

2015 میں انھوں نے بلآخر ایسا کرنے کا فیصلہ کیا۔

بیکٹیریا

بیکٹیریا ہمارے جسم میں رہتے ہیں ، لیکن یہ سب ہمارے لئے پریشانی کا باعث نہیں ہیں

انھیں کیسا لگا؟ کیا اثرات مرتب ہوئے؟

’بہت لمبے جوابات ہیں اس کے۔ آہستہ آہستہ آپ کا جسم اس کا عادی ہونے لگتا ہے اور اس میں سے زیادہ بو نہیں آتی اگر آپ صابن اور ڈیوڈرنٹ استعمال کرنا بند کر دیں اور آپ کی چمڑی زیادہ چکنی نہیں ہوتی کیونکہ آپ نے تیز صابن استعمال کرنا چھوڑ دیے ہوتے ہیں۔

بہت سے لوگ اپنے بالوں سے تیل نکالنے کے لیے شیمپو کا استعمال کرتے ہیں اور پھر کنڈشنر کی صورت میں مصنوعی تیل اپنے بالوں میں ڈالتے ہیں۔ اگر آپ اس پورے مرحلے کو ترک کردیں تو آپ کے بال کچھ عرصے بعد خود بخود اس طرح نظر آنا شروع ہوجائیں گے جب آپ نے ان پراڈکٹس کا استعمال کرنا شروع کیا تھا۔‘

‘لیکن اصل چیز اس بات کو سمجھنا ہے کہ یہ بدلاؤ ایک رات میں نہیں بلکہ بہت عرصے بعد آتا ہے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ان کے کیس میں یہ عمل بہت سست تھا۔ انھوں نے صابن کا استعمال کم کیا اور شیمپو اور ڈیوڈرنٹ کو بھی ترک کیا۔ یہ وہ چیزیں تھیں جو وہ روز کرتے تھے۔

‘کچھ ایسے لمحات تھے جب میں نہانا چاہتا تھا کیونکہ مجھے اس کی یاد آرہی تھی۔ مجھے اپنا ماضی یاد آیا، لیکن پھر ایسا بہت کم ہونے لگا۔‘

چار سال پہلے 2016 میں لکھے گئے اپنے ایک آرٹیکل میں ہیمبلن نے لکھا ہے کہ ‘جسم کی بو جراثیم کا نتیجہ ہوتی ہے جو کہ ہماری جلد پر رہتے ہیں اور اس میں موجود تیل سے چپکے ہوتے ہیں۔ یہ تیل بالوں کے آخری حصے میں موجود ہوتا ہے۔‘

’اپنی جلد اور بالوں پر روزانہ مختلف پروڈکٹس لگا کر تیل اور جلد پر رہنے والے جراثیم میں جو ایک توازن ہوتا ہے وہ خراب ہو جاتا ہے۔‘

انھوں نے لکھا کہ ’جب آپ روز نہاتے ہیں تو آپ ایکو سسٹم کو تباہ کر رہے ہیں۔ یہ دوبارہ پیدا ہو جاتے ہیں لیکن ان کا توازن بگڑنے سے یہ جسم میں بو پیدا کرنے والے مائیکروبز کو مزید تیز کردیتا ہے۔‘

تاہم کچھ عرصے کے بعد آپ ایک ریگیولیٹری مرحلے پر پہنچتے ہیں۔ ’آپ کا ایکو سسٹم ایک مستحکم مقام پر پہنچتا ہے اور آپ سے بو آنا بند ہو جاتی ہے۔ آپ گلاب کے پانی کی طرح مہکتے تو نہیں لیکن آپ کے جسم سے صرف ایک انسان کی بو آئے گی۔‘

ییل یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر اس سال چھپنے والے ایک انٹرویو میں ہیمبلن نے اس بات کو واضح کیا کہ ‘ایسا نہیں ہے کہ مجھ سے بو نہیں آتی۔ لیکن میرے جسم میں مائکروبز جسم کی روایتی بو اب پیدا نہیں کرتے۔‘

نہانا

کم نہانے کا مطلب ہے پیسے کی بچت

مختلف بُو

اگست میں بی بی سی سائنس فوکس کی نامہ نگار ایمی بیرٹ نے ہیمبلن سے پوچھا کہ کیا انھیں یہ فکر ہوتی ہے کہ لوگوں کو بو آرہی ہے لیکن وہ لحاظ کر کے انھیں کہہ نہیں رہے؟

انھوں نے کہا کہ بہت عرصے تک وہ اپنے دوستوں اور ساتھ کام کرنے والوں سے یہ پوچھتے رہے کہ وہ انھیں ایمانداری سے بتائیں کہ کیا یہ صرف ان کا اپنا خیال ہے یا پھر ان سے واقعی بو نہیں آ رہی اور اسی طری وہ اس نہج پر پہنچے جب ان کے جسم سے بو آنا بند ہو گئی۔ وہ بو جس سے ہم بہت زیادہ ہم آہنگ ہیں۔

وہ کہتے ہیں: ’بہت عرصے تک ہم سے بو آتی جو کہ ہمیں دوسرے لوگوں کے ساتھ جوڑتی تھی اور اسی طرح ہم ان تک اپنی بات پہنچاتے۔ اور یہی چیز ہماری سوشل بائیولوجی سے نکل گئی ہے۔

’تو ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ لوگوں سے یا تو پرفیوم یا باڈی واش کی خوشبو آئے یا پھر بو آئے ہی نا۔ کسی بھی قسم کی انسانی بو منفی انداز میں دیکھی جاتی ہے۔‘

بیرٹ ہیمبلن سے پوچھتی ہیں کہ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ انھوں نے پانچ برس قبل نہانا چھوڑ دیا تو اس کا کیا مطلب ہے۔ کیا وہ شاور سے باتھ ٹب استعمال کرنے لگے؟ ان کے اوقات کیا ہیں؟

‘میں اپنی کتاب میں یہ لکھتا ہوں کہ جب مجھے ضرورت ہوتی ہے تو میں اپنے بالوں کو جلدی سے دھو لیتا ہوں۔ خاص طور پر اس وقت جب مجھے صبح اٹھ کر ایسا لگے کہ میرے بال میلے ہو رہے ہیں۔ لیکن آپ اپنی جلد کو ایکسفولیئیٹ کر سکتے ہیں اور اپنے ہاتھوں کی مدد سے اضافی تیل بھی اس سے ہٹا سکتے ہیں۔ میں بعض اوقات اپنے بالوں میں کنگھی بھی کرتا ہوں۔ ‘

اپنے ہاتھ صابن سے دھونا اور اپنے دانت صاف کرنا آپ کی روز مرہ صحت کا حصہ ہے۔

ہیملن

Arquivo pessoal/James Hamblin
ہیملن نے صحت کی ویڈیوز بھی پیش کیں

انھوں نے متعدد افراد سے بھی بات کی، جس میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین جیسے ڈرمٹولوجسٹ، امیونولوجسٹ، الرجسٹ اور یہاں تک کہ علمائے دین بھی شامل ہیں۔

ہیمبلن صابن کی فیکٹریوں اور مائیکرو بیالوجی لیبز میں تھے اور انھوں نے صدیوں پرانے نظریات اور تاریخ میں خود کو غرق کردیا تاکہ یہ سمجھ سکیں کہ موجودہ جلد کی دیکھ بھال کی صنعت نے کس طرح فروغ پایا ہے۔

کیا تقریبا ہر روز مختلف مصنوعات، صابن، جیل سے نہانا ایک جدید تصور ہے؟

ہیمبلن اس سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ ’ہاں، کیونکہ ہمارے پاس بہتا پانی نہیں ہے۔ زیادہ تر لوگوں کو پچھلے 100 سالوں تک بہتے پانی تک رسائی حاصل نہیں تھی۔‘

’یہ وہ کام تھا جو صرف شاہی خاندان، بادشاہ اور ملکہ کر سکتے تھے، لیکن یہ عام لوگ کبھی کبھار ہی کر سکتے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ کسی ندی یا جھیل میں چلے جاتے، لیکن یہ ہر روز نہیں کیا جاتا تھا۔‘

’اس کے علاوہ، ہمارے پاس بڑے پیمانے پر پیداوار کی صلاحیت بھی نہیں تھی۔ بہت سارے لوگوں نے گھریلو صابن کا استعمال کیا اور اسے ہر روز استعمال نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ جلد پر بہت جارحانہ تھے۔ یہ سب بہت جدید ہے۔’

لیکن ہیملن نہانے کے طریقہ کار اور اکثر نہانے پر کیوں سوال اٹھاتے ہیں۔ اور اس کی تنقید نہ صرف ان مصنوعات کے بارے میں ہے جو ہم استعمال کرتے ہیں، بلکہ اس تعداد پر بھی ہے جتنی مرتبہ ہم نہاتے ہیں۔

‘یہ بنی نوع انسان کی تاریخ کا ایک بہت ہی نیا واقعہ ہے: جلد کے مائیکروبیوم کے علم سے جوڑ کر دیکھا جائے تو ہمیں غسل پر بہت زیادہ وقت، رقم اور وسائل خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ مجھے یہ سوچنے میں دلچسپی ہے کہ شاید ہم یہ بہت زیادہ کررہے ہیں اور یہ ہو سکتا ہے کہ ’کم کرنے میں فائدہ ہے۔‘

نہانا

ہیملن کبھی بھی صابن سے ہاتھ دھونے سے نہیں روکتے

اربوں میں

ہیملن کے مطابق، ’ہمہ وقت، ہمارے پاس اربوں جرثومے رہتے ہیں جو ہمیں کسی بیماری کا باعث نہیں بن رہے ہیں۔’

‘اور جب ہم اپنی جلد کو دھوتے ہیں تو، ہم ان مائکروبیل کی تعداد کو تبدیل کرتے ہیں اور ہم ابھی بھی پوری طرح سے سمجھ نہیں پاتے ہیں کہ یہ اچھا ہے یا برا۔‘

وہ اصرار کرتا ہے کہ ہاتھ ایک استثنیٰ ہیں، کیونکہ یہ انفیکشن سے بچنے کے بہت ضروری ہے ، جیسے کوڈ 19۔

‘ہماری جلد پر موجود جرثومے ہماری ظاہری شکل اور صحت کے لیے اتنا ہی اہم ہیں جتنا گٹ مائکرو بیوٹا نظام انہضام کے لئے ہے۔’

تاہم ، تاریخی طور پر ہم جرثوموں کو کسی منفی چیز سے ہی منسلک کرتے ہیں کیونکہ جب ہم بیماری کے اسباب کی تلاش میں ہیں تو ہم انہیں پاتے ہیں۔

‘لیکن اب گذشتہ دہائی میں چونکہ ہمارے پاس ڈی این اے سیکوئنسنگ والی ٹیکنالوجی ہے، ہم جانتے ہیں کہ جرثومے ہر جگہ موجود ہیں اور عام طور پر بیماری نہیں لگاتے ہیں۔ جبکہ ایسے صرف ایک چھوٹی سی اقلیت ہیں۔ ‘

‘لہذا ، لوگوں کو نہاتے وقت سوچنا چاہیے کہ وہ کیا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اس پر نظرثانی کرنی چاہیے کیوں کہ درحقیقت ہم جرثوموں کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماری سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں، لیکن ہم ان سب سے چھٹکارا نہیں لینا چاہتے ہیں۔‘

انٹرفیس

جلد

ہماری جلد مدافعتی نظام کا ایک غیر معمولی حلیف ہے

اور جیسا کہ ہیملن نے وضاحت کی ہے جلد ہمارے مدافعتی نظام کے لیے ایک بنیادی عضو ہے۔

‘خون میں مدافعتی خلیات جلد کے ذریعے فلٹر ہوتے ہیں اور ماحول سے ہمیں ملنے والے اشاروں سے رابطے میں رہتے ہیں اور ، اس کے ساتھ ، ان کو جاننے اور سمجھنے میں ہماری مدد کرتے ہیں۔’

اور یہ ضروری ہے تاکہ مدافعتی نظام ان چیزوں سے زیادہ اثر انداز نہ ہو جو بے ضرر ہیں اور ان کے خلاف موثر ہو جو کہ نقصان دہ ہیں۔

ہیملن نے مزید کہا ، ‘مجھے نہیں لگتا کہ ہر شخص کی نظر میں صاف ستھرا ہونا کے لیے ایک ہی نظریہ ہے۔’

کچھ لوگ اس کو جراثیم اور جرثوموں کے خاتمے کے ساتھ منسلک کرتے ہیں، لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ مستقل طور پر ہمارے ساتھ ہیں اور سب خراب نہیں ہیں۔

‘شاید یہ زیادہ سنسنی کی بات ہے۔ در حقیقت، اس کی وضاحت کرنا بہت مشکل ہے۔’

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ سوچتے ہیں کہ غسل لینے کی عادت ‘حد سے زیادہ’ ہوگئی ہے؟ ہیملن کا کہنا ہے کہ یہ ‘ترجیح ہے ، لیکن طبی ضرورت نہیں۔’

بہت سے لوگ نہانا چاہتے ہیں جبکہ بہت سوں کو نہا کر نہایت اچھا بھی لگتا ہے۔ محتصراً یہ کہ ‘شاور میں نہ صرف کم وقت بلکہ کم پیکیجنگ اور کنٹینرز اور یقیناً کم پانی بھی۔’

ہیمبلن نے مشورہ دیا ہے کہ کچھ لوگ جو تبدیلی کا تجربہ کرنا چاہتے ہیں وہ تجربے کے لیے کم غسل شروع کر سکتے ہیں۔

ہیمبلن نے کہا ہے کہ وہ یہ تجویز نہیں کرنا چاہتا ہے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے، یا حتیٰ کہ اس خیال کا دفاع بھی نہیں کریں گے کہ ان کا نقطہ نظر سب کے لیے بہترین ہے، لیکن انھوں نے اس پر بہت تحقیق کی ہے۔

‘لیکن وہ لوگ جنھیں جلد کے مسائل ہیں وہ کوشش کرنا چاہیں گے، میں آپ کو کم غسل کرنے کا مشورہ دوں گا۔ آہستہ آہستہ شروع کریں اور جہاں تک آپ کو سکون محسوس ہوتا ہے جاری رکھیں۔’

مثال کے طور پر کم شیمپو کچھ لوگوں کے لیے نقطہ آغاز رہا ہے جبکہ دوسرے ایک ہلکے ڈیوڈورنٹ کے ساتھ شروع کرنا پسند کرتے ہیں۔

نہانا

ہیمبلن نے مشورہ دیا ہے کہ کچھ لوگ جو تبدیلی کا تجربہ کرنا چاہتے ہیں وہ کم غسل سے شروع کر سکتے ہیں

وہ کہتے ہیں ‘آپ کم صابن کے ساتھ، کم تسلسل، مختصر اور ٹھنڈے غسلوں سے شروع کر سکتے ہیں، اس میں کچھ بھی ڈرامائی نہیں ہونا چاہیے۔‘

اور ایک ایسی چیز ہے جسے ہیمبلن بنیادی سمجھتے ہیں: ’ہماری جلد کی صحت بڑی حد تک ہمارے طرز زندگی کا نتیجہ ہے، یعنی ہم کیسے سوتے ہیں، کیا کھاتے ہیں، ہمارے تناؤ کی سطح کیا ہے، ہماری جسمانی سرگرمی کیا، ہم کیا پیتے ہیں، ان عوامل میں شامل ہیں۔‘

‘یہ صنعت جو ذاتی نگہداشت کی مصنوعات اور صابن فروخت کرتی ہے بیرونی اور مقامی درخواست پر چیزیں فروخت کرنے پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کرتی ہے۔’

اگرچہ کچھ مفید ثابت ہو سکتے ہیں، لیکن ان کا کہنا ہے کہ جلد کی صحت کے لیے ’اندرونی‘ انداز کے بارے میں سوچنا ضروری ہے۔

ہیمبلن کا خیال ہے کہ مارکیٹنگ کی سائنس کو سمجھنا ضروری ہے، کیونکہ بعض اوقات ہم واقعتاً ضرورت سے زیادہ مصنوعات کا استعمال کرتے ہیں، کیوںکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے ہم صحت مند بنتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32541 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp