شمس الرحمان فاروقی کی یاد میں: وہ جو چاند تھا سرِ آسماں۔۔۔


اردو زبان کے معروف ادبی نقاد، ناول نگار اور شاعر شمس الرحمان فاروقی سات بھائیوں میں سب سے بڑے اور تیرہ بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھے۔ انھیں پڑھنے لکھنے سے دلچسپی ورثے میں ملی تھی۔ دادا حکیم مولوی محمد اصغر فاروقی تعلیم کے شعبے سے وابستہ تھے اور فراق گورکھ پوری کے استاد تھے۔

نانا محمد نظیر نے بھی ایک چھوٹا سا سکول قائم کیا تھا جو اب کالج میں تبدیل ہو چکا ہے۔

سکول کے دنوں میں ہی شاعری سے ادبی زندگی کا آغاز کیا۔ سات برس کی عمر میں ایک مصرع لکھا :’معلوم کیا کسی کو میرا حال زار ہے۔’ مگر مدتوں اس پر دوسرا مصرع نہ لگ سکا۔ پہلا ہی شعر مکمل نہ ہوا تو شاعری کا پیچھا چھوڑ دیا اور ایک قلمی رسالے گلستان کی ترتیب و اشاعت شروع کر دی۔

رسالہ کیا تھا یہ سمجھیے کہ 16، 20 یا 24 صفحات کاٹ کر ان پر اپنی ‘تصانیف’ درج کرتے جاتے۔ والد کی نظر سے یہ رسالہ گزرا تو انھوں نے ٹوکا کے تم نے بعض اشعار ناموزوں درج کئے ہیں۔ والد نے ہر مصرع کی تقطیع کر کے سمجھایا کہ کہاں غلطی ہوئی ہے۔ فعولن فعولن کی تکرار انھیں اتنی اچھی لگی کہ اسی دم ارادہ کر لیا کہ آئندہ زمانے میں عروضی ضرور بنیں گے۔

یہ بھی پڑھیے

’جاتے جاتے یہ سال شمس الرحمان فاروقی صاحب کو بھی لے گیا‘

’جشن ادب‘ میں ’ماورائے ادب‘ گفتگو

اردو کے فروغ کی ویب سائٹ ’ریختہ‘ انڈیا میں مقبول کیوں؟

میٹرک کے بعد افسانہ نگاری کا باقاعدہ آغاز ہوا مگر انھیں نہ اپنے پہلے افسانے کا نام یاد رہا نہ اس پرچے کا جس میں وہ افسانہ چھپا تھا۔ 1949-50 میں ایک ناول ‘دلدل سے باہر’ تحریر کیا جو معیار میرٹھ میں چار قسطوں میں شائع ہوا پھر نثر کو ہی ذریعہ اظہار بنا لیا۔

یہ تھے ہمارے شمس الرحمان فاروقی۔ وہ 30 ستمبر 1935 کو اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے تھے۔ اعظم گڑھ سے میٹرک اور گورکھ پور سے گریجویشن کرنے کے بعد الٰہ آباد یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ الٰہ آباد میں وہ ایک عزیز کے یہاں رہتے تھے جن کے گھر سے یونیورسٹی کئی میل دور تھی۔ وہ اکثر پیدل ہی آیا جایا کرتے تھے اور دوران سفر بھی ان کے ہاتھ میں کتاب کھلی ہوتی اور وہ ورق گردانی کرتے ہوئے چلتے رہتے۔ وہ زمانہ ہی اور تھا، راہ چلتے لوگ ان کے مطالعے کی محویت دیکھتے ہوئے خود ہی انھیں راستہ دے دیتے۔

الٰہ آباد یونیورسٹی سے انھوں نے انگریزی میں ایم اے کیا اور اس شان سے کہ یونیورسٹی بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ ان کی تصویر انگریزی روزنامے امرت بازار پتریکا میں شائع ہوئی تو تمام خاندان والوں نے اس پر فخر کیا۔ اس زمانے میں ان کی ملاقات اپنی کلاس فیلو جمیلہ خاتون ہاشمی سے ہوئی جو ان کی ذہانت سے بہت متاثر تھیں، یہی جمیلہ ہاشمی بعد میں جمیلہ فاروقی کے نام سے خاندان کی بہو بنیں۔

ایم اے کے بعد شمس الرحمان فاروقی تدریس کے شعبے سے وابستہ ہو گئے مگرساتھ ہی مقابلے کے امتحان کی تیاری بھی کرتے رہے۔ 1957 میں انھوں نے یہ امتحان پاس کیا اور انھیں پوسٹل سروس کے لیے منتخب کر لیا گیا۔ اس کے بعد ان کی پوسٹنگ انڈیا کے مختلف شہروں میں ہوتی رہی اور انھیں بیرون ملک سفر کے بھی بہت مواقع میسر آئے۔

اسی دوران شمس الرحمان فاروقی کے تنقیدی مضامین اور تراجم شائع ہونا شروع ہوئے جس نے ادبی دنیا کو اپنی جانب متوجہ کر لیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ترقی پسند ادبی تحریک کا زور ٹوٹ رہا تھا۔ ترقی پسند ادیبوں نے شمس الرحمان فاروقی کو جدیدیت اور ادب برائے ادب کا علم بردار سمجھ کر انھیں اپنا حریف سمجھنا شروع کیا مگر وہ اپنے محاذ پر ڈٹے رہے۔

ان کی علمیت اور وسعت مطالعہ حیران کن تھی، تجزیہ کاری اور ترکیب کاری کے اوصاف نے ان کی تنقید میں استدلال کا ایک منفرد انداز پیدا کر دیا تھا جس سے ان کے حریف بھی متاثر ہوئے۔

جون 1966 میں شمس الرحمان فاروقی نے ایک ادبی رسالے ‘شب خون’ کی بنیاد رکھی۔ گو اس رسالے پر ان کا نام بطور مدیر شائع نہیں ہوتا تھا لیکن پوری ادبی دنیا کو علم تھا کہ اس رسالے کے روح و رواں کون ہیں۔ شب خون کے پہلے شمارے پر مدیر کی حیثیت سے ڈاکٹر سید اعجاز حسین کا، نائب مدیر جعفر رضا اور مرتب و منتظم کی حیثیت شمس الرحمان فاروقی کی اہلیہ جمیلہ فاروقی کا نام شائع کیا گیا تھا۔

شب خون کو جدیدیت کا پیش رو قرار دیا گیا اور اس نے اردو قلم کاروں کی دو نسلوں کی تربیت کی۔ شب خون 39 برس تک پابندی کے ساتھ شائع ہوتا رہا۔ جون 2005 میں شب خون کا آخری شمارہ دو جلدوں میں شائع ہوا جس میں شب خون کے گزشتہ شماروں کی بہترین تخلیقات شامل کی گئی تھیں۔

شمس الرحمان فاروقی کے تنقیدی مضامین کے متعدد مجموعے شائع ہوئے جن میں نئے نام، لفظ و معنی، فاروقی کے تبصرے، شعر غیر شعر اور نثر، عروض، آہنگ اور بیان، تنقیدی افکار، اثبات و نفی، انداز گفتگو کیا ہے، غالب پر چار تحریریں، اردو غزل کے اہم موڑ، خورشید کا سامان سفر، ہمارے لیے منٹو صاحب، اردو کا ابتدائی زمانہ اور تعبیر کی شرح کے نام سرفہرست ہیں۔

تاہم تنقید کے میدان میں ان کا سب سے معرکہ آرا کام ‘شعر شور انگیز’ کو سمجھا جاتا ہے۔ چار جلدوں پر مشتمل اس کتاب میں میر تقی میر کی تفہیم جس انداز سے کی گئی ہے اس کی کوئی مثال اردو ادب میں نہیں ملتی۔ اس کتاب پر انھیں 1996 میں سرسوتی سمان ادبی ایوارڈ بھی ملا۔

شمس الرحمان فاروقی نے ارسطو کی بوطیقا کا بھی ازسرنو ترجمہ کیا اور اس کا بہت شاندار مقدمہ تحریر کیا۔

1980 کے لگ بھگ وہ کچھ عرصے کے لیے ترقی اردو بیورو سے وابستہ ہوئے، اس وابستگی نے اس ادارے میں نئی روح پھونک دی۔ ان کے دور وابستگی میں اس ادارے نے نہ صرف یہ کہ اردو کے کلاسیکی ادب اور لغات کو ازسر نو شائع کیا بلکہ کئی نئی کتابیں بھی شائع کیں۔ اس ادارے کا ایک جریدہ بھی اردو دنیا کے نام سے شائع ہونا شروع ہوا جس نے اردو کی کتابی دنیا کو آپس میں مربوط کر دیا۔

شمس الرحمان فاروقی کی شاعری کا سلسلہ بھی جاری رہا، ان کے کئی مجموعے شائع ہوئے جن میں گنج سوختہ، سبز اندر سبز، چار سمت کا دریا اور آسماں محراب کے نام شامل تھے۔ ان کی تمام شاعری کی کلیات بھی ‘مجلس آفاق میں پروانہ ساں’ کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔

شمس الرحمان فاروقی کو لغت نویسی سے بھی بہت دلچسپی تھی، اس میدان میں ان کی دلچسپی کا مظہر لغات روزمرہ ہے جس کے کئی ایڈیشنز شائع ہو چکے ہیں مگر ان کا اصل میدان داستان اور افسانہ تھا جس کا اندازہ اس وقت ہوا جب انھوں نے داستان امیر حمزہ پر کام شروع کیا۔

انھوں نے داستان امیر حمزہ کی تقریباً پچاس جلدیں لفظ بہ لفظ پڑھیں اور پھر ان کی معرکہ آرا کتاب ‘ساحری ،شاہی، صاحب قرانی: داستان امیر حمزہ کا مطالعہ’ کے عنوان سے منظر عام پر آئی۔

1990 کی دہائی میں شمس الرحمان فاروقی نے فرضی ناموں سے یکے بعد دیگرے چند افسانے تحریر کئے جنھیں بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔ یہ افسانے شب خون کے علاوہ پاکستانی جریدے آج میں بھی شائع ہوئے۔

بعدازاں ان افسانوں کا مجموعہ ‘سوار اور دوسرے افسانے’ کے عنوان سے شائع ہوا تب لوگوں نے جانا کہ یہ افسانے شمس الرحمان فاروقی کے لکھے ہوئے تھے۔ سوار اور دوسرے افسانے نے انھیں مائل کیا کہ وہ برصغیر کی مغلیہ تاریخ کے پس منظر میں کوئی ناول تحریر کریں۔ یہ ناول ‘کئی چاند تھے سر آسماں’ کے عنوان سے شائع ہوا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ناول 2006 میں پہلے پاکستان سے اور پھر انڈیا سے شائع ہوا۔ اس ناول نے شائع ہوتے ہی کلاسک کا درجہ حاصل کیا۔ اردو کے تمام بڑے فکشن نگاروں، نقادوں اور قارئین نے اس کا والہانہ استقبال کیا جس کا اندازہ اس ناول کے متعدد ایڈیشنز اور تراجم کی اشاعت سے لگایا جاسکتا ہے۔

انڈیا کے مشہور اداکار عرفان خان اس ناول کو پردۂ سیمیں پر منتقل کرنے کے خواہش مند تھے۔ شمس الرحمان فاروقی نے انھیں اس بات کی اجازت بھی دے دی تھی مگر افسوس کہ ان سے پہلے ہی عرفان خان بھی دنیا سے رخصت ہو گئے۔

شمس الرحمان فاروقی کو 2009 میں انڈین حکومت نے پدم شری کے اعزاز سے سرفراز کیا جبکہ 2010 میں حکومت پاکستان نے انھیں صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔

شمس الرحمان فاروقی کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے ‘ڈی لٹ’ کی اعزازی ڈگری بھی تفویض کی تھی جبکہ انھیں ان کی کتاب ‘تنقیدی افکار’ پر ساہتیہ اکیڈمی کا ایوارڈ بھی دیا تھا۔

رواں برس دو ماہ قبل دنیائے اردو اس خبر سے بہت مضطرب ہوئی کہ شمس الرحمان فاروقی کووڈ 19 کے وائرس کا شکار ہو گئے ہیں۔ انھیں علاج کے لیے دہلی منتقل کیا گیا جہاں گزشتہ ماہ وہ اس وائرس کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئے۔

ان کے بے حد اصرار پر 25 دسمبر 2020 کی صبح انھیں واپس الٰہ آباد منتقل کر دیا گیا مگر وہاں پہنچنے کے آدھے گھنٹے بعد ہی ان کا انتقال ہو گیا۔ یہ خبر سماجی رابطوں کے ذرائع سے فوراً پوری ادبی دنیا میں پھیل گئی۔ انڈیا، پاکستان اور جہاں جہاں اردو بولی، لکھی اور پڑھی جاتی ہے وہاں اسے خاندان کے کسی بزرگ کی موت کی خبر کی طرح سمجھا گیا۔

ان کی وفات سے اردو ادب ایک بلند قامت ادبی شخصیت سے محروم ہو گیا۔ انھیں ان کی زندگی میں جو شہرت، مقبولیت اور پذیرائی ملی وہ بہت کم افراد کو ملتی ہے مگر وہ اس سے کہیں زیادہ کے حق دار تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp