سراپا احتجاج اساتذہ کی شنوائی ہو گی؟


ابتدائے آفرینش سے یہ عالم رنگ و بو کشاکش کی ہاؤ ہو سے بھرا ہوا ہے۔ ہبوط آدم و حوا علیہما السلام کے ساتھ ہی خیر و شر کی رزم کا بھی آ غاز ہو گیا۔ کبھی خیر غالب تو کبھی شر کا غلبہ لیکن حقیقی فتح ہمیشہ حق کی ہوئی کیونکہ خود خالق کائنات نے کتاب ہدایت میں فرما دیا ”حق آ گیا، باطل مٹ گیا، بے شک باطل مٹنے کی لیے ہے۔“ (سورۃ الاسراء۔ آیت 81 )

تاریخ عالم اس بات کی شاہد ہے کہ جب جب شر منہ زور ہوا۔ اس کے آ گے بند باندھنے کے لیے کوئی نہ کوئی بطل جلیل منصۂ شہود پر نمودار ہوا۔ جب ظالم کی رسی دراز ہوئی قدرت نے ”ہر فرعونے را موسیٰ و ہر نمرودے را پشہ“ (ہر فرعون کے لیے موسیٰ اور ہر نمرود کے لیے مچھر ہوتا ہے۔ ) کے مصداق اس ظالم کی سرکشی کی طنابیں کاٹنے کے لیے مرد مجاہد پیدا کیا۔ نمرود کی جھوٹی خدائی کو خاک میں ملانے کے لیے حضرت ابرہیم علیہ السلام مبعوث ہوئے تو فرعون کی فرعونیت دریائے نیل میں غرق کرنے کے لیے حضرت موسٰی علیہ السلام۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کی اس عالم ناپائیدار میں بعثت کا مقصد ہی خیر کا بول بالا کرنا اور شر کو نیست و نابود کرنا تھا۔

اسلامی تاریخ کا بہ نظر غائر مطالعہ کریں تو واقعہ کربلا تاریخ انسانی کے ماتھے کا جھومر بن کر فروزاں نظر آ تا۔ کرب و بلا کے بے آ ب و گیاہ صحرا میں اہل بیت اطہار کی لازوال قربانی بھی حق کی فتح کی علم بردار بن کر سامنے آتی ہے اور رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے مشعل راہ ٹھہرتی ہے کہ جس کو تھام کر حق اور خیر کے نمائندہ لوگ شر اور باطل کے سامنے سینہ سپر ہوتے رہیں گے۔ اس کے علاوہ بھی ہزاروں داستانیں صفحات تاریخ پر بکھری پڑی ہیں جن کا تذکرہ مضمون کی طولانی کا باعث بنے گا۔

لیکن ان تمام واقعات سے جو حققیت اظہر من الشمس ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ہمیشہ آواز حق بلند کرنے والے تعداد میں کم رہے ہیں۔ تنہا فرد بھی خیر کا داعی رہا ہے اور چند افراد کا گروہ بھی۔ لیکن ان کی آواز نقارہ خدا ثابت ہوئی اورمعاشروں میں شر کا غلبہ ہونے کے باوجود ان کی جد و جہد ثمر بار ہوئی اور عوام الناس تک ان کا قول سدید پہنچ کر رہا اور ان کی آ واز عوامی آواز بن گئی۔ ایسے ہی صاحبان حق کے جذبوں اور حوصلوں کے بارے میں شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

صدائے جرس بن جاتی ہیں دیوانوں کی آوازیں
کہ جن کے حوصلے تقدیر کو رستہ دکھاتے ہیں

(فرحین چودھری)

یہ تمہید باندھنے کا مقصد وہ واقعہ ہے جو 19 دسمبر کی شام اسلام آباد میں مری روڈ پر پیش آ یا جب نہتے اور پر امن اساتذہ جن میں خواتین اساتذہ بھی تھیں پر بغیر وارننگ کے بد ترین شیلنگ کی گئی۔ وہ اپنا جائز حق مانگنے کے لیے نکلے تھے اور عوام کا احساس کرتے ہوئے سڑک کے ایک طرف ”ہم کیا چاہتے۔ مستقلی۔ ہے حق ہمارا۔ مستقلی۔ PPSC۔ نامنظور“ کے نعرے لگاتے چل رہے تھے تاکہ ٹریفک کی روانی متاثر نہ ہو۔ مستزاد یہ کہ میڈیا میں ان کے حوالے سے غلط معلومات پھیلائی گئی اور فرعون صفت وزیر خدائی لہجے میں بات کرتا اور قہقہے لگاتا نظر آیا۔

میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ وہ اساتذہ جو سڑک پر اپنا حق حاصل کرنے لیے سرگرم عمل تھے۔ وہ سوسائٹی کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اپنے اپنے شعبہ میں کامل دسترس رکھنے والے لوگ تھے۔ ان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ باقاعدہ طریقے سے این ٹی ایس (NTS) کا مشکل امتحان پاس کر کے اورمیرٹ کی کڑی کسوٹی پر کھرے ثابت ہونے کے بعد محکمہ تعلیم کا حصہ بنے تھے۔ حکومتی غیر جانبدار اداروں اور عوامی سروے سے یہ بات عیاں ہوئی کہ ان کے آنے سے شعبہ تعلیم میں نئی روح دوڑ گئی۔

ان کی استعداد کار سے فرسودہ طریقہ ہائے تدریس میں انقلابی تبدیلی آئی اور ہمارا نظام تعلیم جو تنزلی کا شکار تھا، ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوا۔ یہ تمام اساتذہ کو عارضی معاہدے (کنٹریکٹ) پر بھرتی کیا گیا تھا اور محکمہ تعلیم کی سابقہ روایات اور پنجاب کی صوبائی اسمبلی سے پاس شدہ ایکٹ کے مطابق ان کو مستقل ہونا تھا۔ ان کو بہ یک جنبش قلم ایک اور امتحان میں ڈال دیا گیا یعنی ان پر پی پی ایس سی (PPSC) کے بھرتی کے عمل سے گزرنے کی شرط لگا دی گئی جو کہ سراسر ظلم ہے۔

عام ذہنوں میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ احتجاج کا رستہ ہی کیوں چنا گیا؟ اور وزیر تعلیم نے بھی یہی تأثر دینے کی کوشش کی۔ عوامی آ گاہی کے لیے بتاتا چلوں کہ اس ظالمانہ فیصلے کے خلاف ہمارے قائدین نے ٹیبل ٹاک سے آغاز کیا۔ مذاکرات اور تحریر و تقریر کے ذریعے اس مسئلہ کو حل کرنا چاہا۔ آغاز میں وزیر تعلیم مراد راس صاحب نے بھی ہماری تحریک کے مطالبے کو کابینہ سے منوانے کے لیے ہماری وکالت کرنے کا وعدہ کیا۔ ٹوٹیر اکاؤنٹ پر موجود ٹویٹ اس بات کے گواہ ہیں۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ اپنے وعدہ سے مکرتے چلے گئے اور معاملہ گمبھیر ہوتا چلا۔ گیا۔ ہماری قیادت ٹیبل ٹاک سے پرامن احتجاج پر آ گئی مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ آ خرکار اسلام آباد وزیراعظم کے گھر بنی گالا کے سامنے احتجاجی دھرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ قیادت کی کال پر پنجاب کے طول و عرض میں ضلعی فوکل پرسن نے باقاعدہ ڈور ٹو ڈور کمپین چلا کر اس ٹاسک کو حقیقت کا روپ دیا۔

19 دسمبر کو پنجاب کی تاریخ میں وہ داستان رقم ہوئی کہ جس پر مہذب، تعلیم یافتہ اور با شعور لوگوں کے سر شرم سے جھک گئے۔ سول سوسائٹی پنجاب ریگولرائزیشن مووومنٹ کی حمایت میں دامے درمے قدمے سخنے نکل آئی اور ہر فورم پر حکومتی عمل کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ خدائی لہجے میں بات کرنے والے وزیر موصوف کی اپنے ہی ساتھی ایم پی اے (MPA) کے ہاتھوں درگت کی وڈیو وائرل ہو کر ببانگ دہل اعلان کر رہی ہے۔”بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے“

یہ حق کی فتح ہے۔ یہ سچائی کی جیت ہے۔ صوبائی وزیر تعلیم نے ہمارے موقف کو سنا اور تسلیم کرنے کا عندیہ دیا۔ اس پر ہماری قیادت اور تمام متاثرہ اساتذہ ان کے ممنون ہیں۔ وزیر تعلیم صاحب سے بھی گزارش ہے کہ وہ ضد اور انا چھوڑیں اور آ گے بڑھ کر کھلے دل کے ساتھ ہمارے ساتھ کیے گئے وعدہ کو نبھائیں۔ بقول شاعر حقیقت تو ان پر کھل گئی ہے

کون مصلوب ہوا حسن کا کردار کہ ہم
شہرت عشق میں بدنام ہوا یار کہ ہم
مسعود قریشی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).