استعفے، کہرا اور ملاقاتیں


پنجاب پہ کہرا چھایا ہوا ہے۔ لاہور بھی کہر کی لپیٹ میں ہے۔ سرشام ہی یہ کافوری سے بادل، لہرئیے بناتے، بل کھاتے، سڑکوں، پارکوں، باغوں، مکانوں اور فٹ پاتھوں پہ اپنی طنابیں گاڑ لیتے ہیں۔ حد نگاہ محدود ہوئی جا رہی ہے اور اس سرد موسم کے ساتھ ساتھ کورونا کی وبا بھی گلی کوچوں میں پھر رہی ہے۔

اسی دوران پی ڈی ایم، سخت جارحانہ پالیسی اپنائے بڑے سے بڑا پتا پھینکتے پھینکتے استعفوں کی ترپ چال پہ اتر آئی ہے۔ یہ حکم کا اکا ہے۔ اگر اپوزیشن یہ پتا کھیل جاتی ہے تو؟ اس تو کے آگے یقیناً بہت کچھ گفتنی اور ناگفتنی ہے اسی لیے جناب محمد علی درانی صاحب، شہباز شریف صاحب کے پاس پہنچے۔

پچھلے دو ڈھائی سال کے سیاسی حالات ہمیں بہت کچھ بتاتے ہیں۔ شہباز شریف صاحب کے پاس وقت کم ہے وہ بلاول اور مریم کی طرح لمبی اننگ کھیلنے نہیں آئے اور اپنی باری کے منتظر نہیں۔ وہ تو اپنی اننگ کھیل رہے تھے کہ ان کو بیچ کھیل کے اٹھا کے باہر کر دیا گیا۔

مسلم لیگ ن کی موجودہ جارحانہ سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے لیے امید کی کرن شہباز شریف صاحب ہی بچتے ہیں۔ شہباز صاحب نے بھی بے چارگی ظاہر کی کہ میں جیل سے کیا کر سکتا ہوں؟ بات تو سامنے کی ہے۔ کچھ لو اور کچھ دو ہو گا۔

مگر اس لو اور دو کے درمیان مریم نواز صاحبہ اور وزیر اعظم، دو غصیل بارہ سنگھوں کی طرح سینگ اڑائے کھڑے ہیں۔ ایک کہتا ہے ان کو این آر او نہیں دوں گا، دوسری کہتی ہیں اس کو این آر او نہیں ملے گا۔ ریفری منہ تاکتے ہیں، چاچا جی، جیل سے دیکھتے ہیں کہ شاید ۔۔۔

‘تو’ اور ‘شاید ‘ کی اس سیاست میں درانی صاحب کا بیان کہ اگر استعفے دے دیے تب بھی تو بات کرنا پڑے گی، خاصا اہم ہے۔ یعنی استعفوں کی کچھ سن گن مل چکی ہے۔ دوسری طرف وزیر اعظم صاحب بجلی مہنگی کرنے کے اعلانات کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتا رہے ہیں کہ اگر استعفے دیے تو فارورڈ بلاک بنے گا۔ فارورڈ بلاک بنتا نہیں، بنایا جاتا ہے۔ چیز تب ہی بکتی ہے جب خریدار موجود ہوتا ہے۔

اس کی مثال ہمیں جے یو آئی( ف) کے درمیان پڑنے والی پھوٹ سے بھی نظر آتی ہے۔ شیخ صاحب نے فضل الرحمن صاحب ہی کو فساد کی جڑ کہا ہے اور ظاہر ہے فساد کی اسی جڑ نے پچھلے سال حکومت کے ہاتھ پاؤں پھلا کر میاں نواز شریف کو لندن بھیجنے کی راہیں ہموار کی تھیں۔

پیپلز پارٹی اور جے یو آئی میں بھی لاڑکانہ کے جلسے پہ کچھ کھٹ پٹ چل رہی ہے اور یہ کھٹ پٹ، کون نٹ کھٹ کراتا ہے، کہنا بے کار ہے۔ آزمودہ حربے ہیں اور آزمائے جا رہے ہیں۔

مولانا فضل الرحمن کے پاس جو طاقت ہے وہ کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس کم ہی ہوتی ہے۔ سیاست کے طالب علم جانتے ہیں کہ پریشر گروپ، جب باہر نکلتے ہیں تو کیا ہوتا ہے۔ پچھلے برس کا دھرنا، کئی سیاسی جلسوں سے زیادہ منظم اور بڑا تھا۔ پی ڈی ایم میں مولانا فضل الرحمن کی موجودگی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کے لیے خاصی تشویش ناک بات ہے۔

bilawal

اپوزیشن کی طرف سے اس بار جس طرح کھل کے اسٹیبلشمنٹ پہ انگلی اٹھائی جا رہی ہے اس سے ایک بات اور واضح ہوتی ہے کہ اب پاکستانی سیاست پہ بیرونی سایہ نہیں ورنہ یہ ہی اسٹیبلشمنٹ کہتی تھی کہ سیاستدانوں کو سیاست کی اے بی سی ڈی بھی نہیں آتی۔

اس وقت جرات کی انتہا یہ تھی کہ کہہ دیا جائے کہ آتی ہے جناب لیکن جب ایف تک پہنچتے ہیں تو آگے جی ایچ کیو، آجاتا ہے۔ لیکن آج بات ایف تک آ چکی ہے اور ابھی جی ایچ کیو نہیں آیا۔ حروف تہجی تو بدلتے نہیں لیکن زمینی حالات بہت بدل چکے ہیں۔

کورونا سے بوکھلائی دنیا میں، طرز سیاست ہی نہیں، آداب سیاست بھی بدل رہے ہیں۔ گو اس وقت ہمارے ہاں کی سیاست پہ بھی بے یقینی کی دھند چھائی ہوئی ہے لیکن اتنی روشنی ضرور ہے کہ صاف نظر آرہا ہے کہ اگر اسمبلیاں کسی وجہ سے ٹوٹتی ہیں تو پی ٹی آئی کا دوبارہ حکومت میں آنا قریباً ناممکن ہے۔

ویسے تو جو حالات جا رہے ہیں اگر پانچ برس پورے ہو گئے تب بھی صورت حال کچھ زیادہ تبدیل نہیں ہو گی۔ جو ہونا ہے وہ ان ہی دو ایک مہینوں میں ہونا ہے۔ دیکھیے پردہ غیب سے کیا ظہور میں آتا ہے اور ایف کے آگے کیا آتا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).