اٹلی میں کرسمس اور بی بی شہید کی یاد


اٹلی کے وزیراعظم کونتے صاحب نے جب اس بات کا عندیہ دیا کہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے پیش نظر کرسمس کے موقعے پر پورے اٹلی کو ریڈ زون قرار دیا جائے گا، آمدورفت پر پابندی عاید ہو گی اور صرف ایمرجنسی کی صورت میں ہی لوگ گھر سے باہر نکل سکیں گے۔ وزیراعظم کے اس بیان پر اپوزیشن لیڈر اور سابق وزیر داخلہ میتھو سالوینی نے کونتے صاحب کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ وزیراعظم اطالوی تاریخ، رسم و رواج اور کلچر سے نابلد ہیں۔ وہ لاک ڈاؤن کے نام پر کرسمس کے تہوار پر عوام کو زبردستی گھروں میں قید نہیں کر سکتے۔

یہ خبریں جب میری نظروں سے گزریں تو میں دل ہی دل میں مسکرائی اور سوچا کہ آخر اطالویوں کو کون روک سکتا ہے کرسمس کی ہنگاموں خیزیوں سے۔ کونتے صاحب کی یہ ذاتی خواہش تو ہو سکتی ہیں لیکن اس بات پر عمل درآمد ایک دیوانے کے خواب سے زیادہ کچھ ثابت نہی ہو گا۔

آج جب یہ سطریں لکھ رہی ہوں تو 25 دسمبر کا دن گزر چکا ہے۔

پورے اٹلی میں سخت لاک ڈاؤن کا نفاذ ہو چکا ہے جس کا اطلاق 24 دسمبر سے 6 جنوری تک رہے گا۔ ساری قیاس آرائیاں دم توڑ گئیں اور اطالوی عوام نے اپنے وزیر اعظم کے کہنے پر بھر پور عمل کیا۔

پہلی بار پوپ فرانسس کا روایتی خطاب جو وہ ہر سال 25 دسمبر کو سینٹ پیٹرز باسیلیکا کی بالکونی سے کرتے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں مسیحی اپنے روحانی پیشوا کی ایک جھلک کے لئے دور دور سے وہاں جمع ہوتے ہیں اور عبادات میں حصہ لیتے ہیں۔ اس سال کرونا کے پیش نظر پوپ نے اپنا روایتی خطاب ویٹی کن سٹی کے اندر سے ورچوئل انداز میں کیا جسے لائیو ٹیلی کاسٹ کیا گیا اور اس طرح یہ تاریخ کی پہلی ورچوئل کرسمس بن گئی۔

پوپ فرانسس کے خطاب کا بنیادی موضوع کرونا وائرس اور اس کے عالمی اثرات تھا۔ پوپ نے کہا کہ ہم سب ایک ہی کشی کے سوار ہیں اور کوئی سرحد اس وائرس کو نہیں روک سکتی۔ دنیا کو عالمی یک جہتی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اس وائرس کے خاتمے کے لئے۔

پوپ نے خصوصی دعائیں کیں اور ساتھ ہی صبر کی تلقین بھی۔

یہ اٹلی میں میرا چوتھا کرسمس تھا۔ کرسمس اور نئے سال کی آمد کی جو گہماگہمی اور جوش و خروش میں نے گزشتہ سالوں میں دیکھا تھا اب سرد ترین موسم میں جذبوں کی پہلی جیسی حرارت کہاں تھی، محبت کرنے والے نوجوانوں کے درمیان وائرس دشمن کی طرح حائل تھا۔

گلیاں چوراہے چرچ تاریخی عمارات سبھی کچھ ویسا ہی سجے ہیں۔ برقی قمقموں سے آبشار کی صورت روشنی نکل رہی ہے۔ شہر ویسے ہی روشن ہیں۔ ماضی کی طرح اس سال بھی ان کی خوب تزئین و آرائش ہوئی ہے لیکن اس خوبصورتی کو دیکھنے اور سراہنے والے ان گلیوں شاہراہوں اور راہداریوں میں کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ ہر سمت خاموشی ہے چاروں اور سناٹا ہے اور بس انتظار ہے اس اداسی بھری تاریکی رات کے ڈھلنے کا۔

سچ تو یہ کہ اگر آج اطالوی عوام نے حکومت کی جانب سے لگائے گئے لاک ڈاؤن کی بندشوں کو سہا ہے تو اس کے پیچھے وہ اجتماعی دکھ ہے جو عوام نے اس برس جھیلا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق اب تک تقریباً 70 ہزار کے لگ بھگ افراد کرونا وائرس کے ہاتھوں دم توڑ چکے ہیں اور 20 لاکھ اطالوی اس موذی وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔ ہنستا مسکراتا قہقہے لگاتا اٹلی یک دم ایک تابوت کی مانند ہو جائے گا کس نے سوچا بھی نہ ہو گا۔ اتنی اموات تو اطالوی قوم نے دوسری جنگ عظیم میں بھی نہیں دیکھیں تھیں۔

یہی وجہ ہے کہ اطالوی وزیراعظم کہ پیش نظر سیاست اور مصلحت سے ماورا عوام کی زندگی سے بڑھ کر کوئی اور چیز عزیز نہیں تھی۔ سلام ہے اطالوی عوام پر جنہوں نے کرسمس کے موقعے لاک ڈاؤن کے قوانین کا احترام کیا اور ان خاندانوں کے دکھ کو سمجھا جن کے پیارے اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ زندگی سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں یہ نکتہ ہم اطالوی قوم سے زیادہ بہتر کسی اور سے نہیں سیکھ سکتے۔

شام ہو رہی ہے میں اپنے اپارٹمنٹ کی بالکونی میں کھڑی ہوں۔ عجیب طرح کی گہری خاموشی ہے۔ دور تا حد نظر روشنیاں جگمگا رہی ہیں، پارکنگ لاٹ میں گاڑیاں قطار در قطار کھڑی ہیں۔ فضا میں ایک سوگواری ہے اسی لئے میں بھی بہت اداس ہوں۔ 26 دسمبر کا چاند بھی آسمان پر جگ مگا رہا ہے، اسے بھی دیکھ کر اداسی مزید بڑھ گئی ہے۔ آج شب غم ہے کیونکہ کل کا دن بی بی کی شہادت کا دن ہے۔

وہ تنہا پیاسی ہرنی تھی
اور ہر سو قاتل ٹولے تھے
وہ لڑکی لال قلندر تھی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).