ہندو دوشیزہ کی مدد کرنے کی سزا


ابھی چندروزقبل اتر پردیش انڈیا کے علاقے دھام پور کے ایک گاؤں بیر کھیڑا میں رہنے والا مسلمان لڑکا ثاقب اپنے دوست کی سا لگرہ کی تقریب میں شرکت کے لئے پاس کے ایک گاؤں نصیر پور گیا۔ سالگرہ کی تقریب میں ایک سولہ سالہ دلت (اچھوت ہندو ذات) لڑکی بھی کسی دوسرے گاؤں سے آئی ہوئی تھی۔ سالگرہ کا کیک کاٹنے کے بعدکھانا وغیرہ کھاتے جب رات کے دس بج گئے تو ثاقب کے میزبان دوست نے اس سے درخواست کی کہ رات کافی ہو چکی ہے اس لئے وہ اس ہندو لڑکی کو اپنی موٹر سائیکل پر اس کے گاؤں ڈراپ کرتا جائے۔

انڈیا میں ان دنوں ایک نئے کالے قانون ”محبت جہاد“ (Love Jihad ) کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنا کرجیل بھیجا جا رہا ہے۔ ثاقب اور اس کا میزبان دوست اس کالے قانون کے متعلق بخوبی جانتے تھے لیکن اخلاقیات اور انسانی ہمدردی کے پیش نظر ثاقب میزبان دوست کو انکار نہ کر سکا اور ہندو لڑکی کو اپنی موٹر سائیکل پر بٹھا کر اسے اس کے گاؤں ڈراپ کرنے کے لئے روانہ ہو گیا۔ راستے میں جاتے ہوئے ان کا سامنا ایک گاؤں کے انتہا پسند ہندووں سے ہو گیا۔

انھوں نے ثاقبت کو رووک لیا اور پوچھ گچھ شروع کردی۔ ثاقب نے ان کو ساری حقیقت بتادی۔ جب ان ہندووں کو یہ معلوم ہوا کہ لڑکا مسلمان ہے اور ہندو لڑکی کو ساتھ لے کر جا رہا ہے تووہ مشتعل ہو گئے اور ثاقب کو اندھا دھند مارنا پیٹنا شروع کر دیا حالانکہ انھیں ثاقب کا شکر گزار ہونا چاہیے تھا کہ وہ ایک مسلمان ہوتے ہوئے اور ”لو جہاد“ جیسے کالے قانون سے باخبر ہوتے ہوئے بھی ہندو لڑکی کی مدد کر رہا ہے اور اسے بحفاظت اس کے گھر پہنچانے کے لئے جا رہا ہے۔

لیکن ہندووں نے قدامت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ثاقب کو خوب مارپیٹ کے بعداسے چور بنا کر پولیس کے حوالے کر دیا۔ پولیس ثاقب کو تھانے لے گئی، بعد میں انتہا پسند ہندووں کے دباو پر اس ہندو لڑکی کے والد کی جانب سے ایک اور درخواست تھانے میں جمع کروادی گئی کہ ثاقب اس کی لڑکی کو ورغلا کر لے جا رہا تھا اورمذہب تبدیل کرنے کے لئے زبردستی کر رہا تھا، اس لئے ثاقب کے خلاف ”لو جہاد“ قانون کے تحت مقدمہ درج کیا جائے۔ پولیس نے ہندو لڑکی کے والد کی رپورٹ پر ”لوجہاد“ کامقدمہ درج کر کے ثاقب کو جیل بھیج دیا۔ اس طرح ہندو دوشیزہ کی مددکرنے پرایک مسلمان لڑکا دس سال کے لئے جیل پہنچ گیا۔ ہندو دوشیزہ نے مسلمان لڑکے کے خلاف جھوٹے کیس پر آواز اٹھانے کی بہت کوشش کی مگر انتہا پسند ہندووں نے اس کی آواز کوخاموش کرادیا۔

انڈیا میں مسلمانوں کے اعلیٰ اخلاق اور کردار کو دیکھتے ہوئے اور اسلام کی اصل قدروں کو جانتے ہوئے ہندو خصوصاً ہندو لڑکیاں اسلام قبول کررہی ہیں۔ انڈیا کے ایک فلاحی ادارے دھنک کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق 52 فیصد ہندو لڑکیاں مسلمان لڑکوں سے شادی کی خواہش لئے ان کے ادارے کی مدد حاصل کرنے آتی ہیں۔ دھنک ادارہ ان ہندو لڑکیوں کے خاندان کو قائل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اگر وہ قائل نہ ہوں تو ہندو لڑکیوں کو قانونی امداد فراہم کی جاتی تھی لیکن اب دھنک ادارہ بھی ان ہندو لڑکیوں کو قانونی امداد فراہم کرنے کے لئے مشکلات کا شکار ہو چکا ہے کیونکہ انڈیا میں ہندو لڑکیوں کو مسلمان لڑکوں سے شادی سے باز رکھنے کے لئے نیا کالا قانون ”لوجہاد“ بنایا گیا ہے۔

”لوجہاد“ کی اصطلاع قدامت پسند ہندو گروہوں کی تشکیل کردہ ہے جس کے مطابق جب بھی کوئی مسلمان مردکسی ہندو لڑکی سے شادی کرنے لگتا ہے تو اس کے خلاف ”لو جہاد“ کا مقدمہ درج کروا کر اسے جیل بھجوا دیا جاتا ہے۔ ”لو جہاد“ کا قانون انڈیا میں سب سے پہلے اتر پردیش میں نومبر کے مہینے میں منظور کیا گیا جس کے تحت کہا گیا ہے کہ جبرائی یا دھوکہ دہی کے ذریعے مذہب تبدیل کروا نا ناقابل ضمانت جرم ہے اور جس کی سزا دس سال قید رکھی گئی ہے۔

اس کالے قانون کا ا طلاق صرف مسلمانوں پر ہی کیا جاتا ہے، جب کوئی مسلمان لڑکا کسی ہندو لڑکی سے شادی کرنے لگتا ہے تو اسے ”لوجہاد“ قانون کے نام پر جیل میں بھیج دیا جاتا ہے لیکن جب کوئی ہندو لڑکا، مسلمان لڑکی سے شادی کرنے لگتا ہے تو اس کے خلاف اس کالے قانون کا اطلاق کرنے کی بجائے میڈیا پر عشقیہ کہانی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔ اس لئے ”لوجہاد“ کا قانون صرف اور صرف مسلمانوں کے خلاف بنایا گیا کالا قانون ہے تاکہ کوئی بھی ہندو خصوصاً ہندو لڑکی دائرہ اسلام میں داخل نہ ہو سکے۔

اس قانون سے قبل انتہا پسند انڈین حکومت ڈاکٹر ذاکر نائیک اور دیگر اسلامی سکالرز کے خلاف ریاستی طاقت اور مختلف غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کرچکی ہے تاکہ انھیں اسلام کی ترویج سے باز رکھا جاسکے لیکن ان ہتھکنڈوں کے برعکس انڈیا میں مسلمانوں کی تعداد بڑھنے لگی تواب یہ کالا قانون نافذ کر دیا گیا ہے۔ ہندو دھرم میں اب بھی نچلی ذات کے ہندووں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ اسلام میں تمام انسانوں کے ساتھ برابری اور اسلام کے دیگر اہم پہلووں کو جاننے کے بعد ہندووں کی بڑی تعداد اسلام میں داخل ہو رہی ہے جس کی وجہ سے انتہا پسند اور قدامت پسند انڈین ہندووں کو تشویش لاحق ہو گئی ہے کہ اگر اسی طرح اسلام پھیلتا رہا تو ایک دن انڈیا مسلم ریاست بن جائے گی۔ تاریخ گواہ ہے کہ مذہب اسلام کو جتنا بھی محدود یا ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے وہ اس کے مقابلے میں کہیں زیادہ پھیلا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).