محفوظ اور پر امن معاشرہ کا فروغ


میرا تعلق ایک ایسے معاشرے سے ہے جو بنا ہی اسلام کے نام پہ تھا۔ جہاں مسلمان ہی نہیں ہر مذہب سے تعلق رکھنے والا انسان ہر طرح کے خوف سے آزاد ہو کر ایک محفوظ ریاست میں سکون سے زندگی گزار سکے۔ لیکن جب سے ہوش سنبھالا ہوش سنبھلا ہی نہیں۔ کیونکہ یہ تو میں دیکھ نہ سکی جو میں نے اپنے بڑے بوڑھوں سے تفصیل سے سنا، بلکہ کتابوں کہانیوں اور ڈراموں میں دیکھا بھی۔ وہ معاشرہ بھی نہیں دیکھا۔ جہاں انسان نے محفوظ ہونا تھا۔ لیکن جو کچھ دیکھا وہ دیکھنے کے قابل نہ تھا۔ کہتے ہیں آنکھیں کھلنے پہ نظر آ ہی جاتا اور پھر آنکھیں بند کرنا ہمیں ایسا سکھایا گیا کہ اب دل ہی نہیں کرتا آنکھیں کھلیں۔ ہم آنکھیں بند کیے ایسے سفر پہ گامزن ہیں جس پہ ہماری منزل پر امن معاشرہ توشاید ہو ہی نہیں سکتا۔

اس کے ساتھ ساتھ معاشرہ اور محفوظ جیسے الفاظ مجھے اپنے نام نہاد مسلم معاشرے میں کبھی نظر نہ آئے۔ لیکن ہر گھر، بازار، گلی کوچوں میں جو مکھی نما فطرت کے اسکالر بیٹھے ہیں جو بس کیڑے نکالنا جانتے ہیں اور میدان میں اتر کر اپنا فرض با خوبی نبھا بھی رہے ہیں۔

” نہ جانے اس جیسے کتنے ناسور ہمارے معاشرے میں پائے جاتے ہیں۔“
”ہمارا معاشرہ ہی خراب ہے“
” پتا نہیں یہ معاشرہ چل کیسے رہا ہے۔“

ایسے نہ جانے کتنے ہی جملے ہم آئے روز ان معزز صاحبان کے منہ سے ادا ہوتے سنتے ہیں جن کا ہمارے معاشرے کی تعمیر و ترقی میں ایک اہم کردار تھا جو انھوں نے اپنے کندھے سے اٹھا کر بہت آرام سے پھینک دیا اور خود بیٹھ کر بس ان جملوں سے اکتفا کیا۔ بطور سماج وہ دانستہ یا نہ دانستہ اپنے معاشرے کے ساتھ غداری کے مرتکب ٹھہرتے ہیں۔ کیونکہ جو معاشرہ انھوں نے ٹھیک کرنا تھا اس میں وہ نقص نکالنے والوں کی فہرست میں سر اول رہے اور بس۔

امیر تیمور کے دور میں فارس خوش حال اور پر امن معاشرہ تھا، شیراز اس کا دارالحکومت تھا۔ فوج مضبوط تھی۔ سرحدیں محفوظ تھیں۔ دولت سونا چاندی کی ریل پہل تھی۔ امیر تیمور کی جرات نہ ہوئی کہ اس کی طرف رخ کرے لیکن شاہ فارس کی چھوٹی سی غلطی نے اسے امیر تیمور کے ہاتھوں ہی صفحہ ہستی سے مٹوا دیا۔ پر امن معاشرے تک کو ذرا سی ٹھوکر گرا دیتی ہے۔ جیسے شاہ فارس کے شیراز کے ساتھ ہوا تھا۔ تو ہمارا معاشرہ کہاں پہ کھڑا ہے یہ ہم سب کو بطور عوام اور حکمران سوچنا ہو گا۔ لیکن سوچنے کا عمل بھی چھوڑئیے، ہمارے حکمران اورعوام والناس تو بڑے آرام سے اس اس ملک کو تباہ کر کے دوسروں کو مود الزام ٹھہراتے اور ہر فرض سے منہ چھپاتے رہے۔

کیا اس طرح ہماری ریاست کا شیرازہ بکھرنے سے بچ سکتا ہے؟
توکیا یہ رویہ بھی ہمیشہ کار آمد ہو سکتا ہے؟

کیا ایسے نام نہاد مسلم معاشرے میں رہ کر ہم محفوظ اور پر امن رہ سکتے ہیں؟ جو سماجی، اخلاقی اور معاشرتی ہر لحاظ سے گر چکا ہو۔

یقیناً آپ کہیں گے ”نہیں“
تو سوچئے پھر آپ کیا کر سکتے ہیں۔ خاموشی یا معاشرے کی بہتری کے لئے چھوٹی کوشش۔

کیونکہ کوشش کے بغیر آپ اپنے سامنے پڑا کھانا بھی نہیں کھا سکتے۔ اور زندگی گزارنے کے لیے تو بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ تو کیا تھوڑی سی کوشش اس معاشرے کے لئے نہیں کر سکتے جہاں آج آپ رہتے ہیں کل کو آپ کی نسلیں رہیں گی۔ کیا آپ بھی صرف قصے کہانیاں سنا کر گزارا کر لیں گے۔ کیا آپ کی آنے والی نسل آپ سے کم عقل و شعور رکھے گی یا وہ جدید دور میں قدیم دور کی روایات اپنا لے گی اور آنکھیں بند کرنے کو با خوشی تیار ہو جائے گی؟

اگر آپ ہوش مند ہیں تو آپ اس کے بارے میں تفصیل سے سوچیں گے اور اگر حواس باختہ انسان ہیں تو بھی ایک دفعہ سوچ ہی رہے ہوں گے۔

ابھی بھی دیر نہیں ہوئی۔ ہم پر امن اور محفوظ مملکت کے لئے آج بھی کھڑے ہو سکتے ہیں۔ کسی بھی وقت آپ شروعات کر سکتے ہیں کیونکہ وقت وہ چڑیا نہیں جو اڑ جائے تو پکڑی نہ جا سکے۔ بلکہ یہ وہ ہد ہد ہے جو اپنے ساتھی کو ساتھ لے کر چلے۔ ساتھی ساتھ چل پڑے تو وقت اس پہ خود ہی مہربان ہو جاتا۔ اور اللہ تو ساتھ دیتاہی ہے۔

ہم نے صرف اتنی سی کوشش کرنی ہے کے جس آفس، اسکول یا ادارے میں ہم کام کر رہے ہیں وہاں تھوڑی ترتیب سیدھی کرنی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں ادارہ ہمیں چلا رہا ہے۔ نہیں ہمیں اسے ادارے کو چلانا ہے اور اپنی ڈگر پہ چڑھانا ہے۔ تو سمجھیں سب کچھ سیدھا ہو جائے۔ ہم نے اپنی گاڑی کو گھوڑ ے کے آگے سے کھول کر پیچھے باندھنا ہے۔ ادارے قوم نہیں بناتے۔ قوم اپنے لئے ادارے بناتی ہے۔ ریاستی ادارے خود مختار اور تمام تنازعات سے ماورا ہو جائیں۔ ایسے جو ادارے وجود میں آتے ہیں وہ قومی امنگوں کے ترجمان ہوتے ہیں۔ ہر ذی روح کے لئے ادارے یکساں حیثیت رکھتے ہوں۔

اس طرح انھیں عوامی تائید حاصل ہوتی ہے اور معاشروں میں استحکام، نظم و ضبط اور امن پیدا ہوتا ہے۔ جبراور زور زبردستی کتنی دیر ہمارے معاشرے کے امن کے رستے میں رکاوٹ بن کر ٹھہر سکتی ہے۔ برے سے برا نظام تب تک ٹھہر سکتا جب تک عوام میں حوصلہ اور جذبہ نہ ہو۔ ہمیں اپنے آپ میں پھر اپنی قوم میں وو جذبہ ابھارنا ہے۔ اچھے سے اچھا نظام تب ہی لایا جاسکتا ہے جب اسے اعوامی تائید حاصل ہو اور عوامی شعور سے ہم آہنگی ملے۔

تو عوام کو سوچنا چاہیے کے ہمارے نظام کو کون سا لیڈر درست کر سکتا ہے۔ ہم نے سیاست دانوں کے ہتھے نہیں چڑھنا۔ ہم نے اپنے لیڈر اپنے بیچ سے اٹھا کے اوپر لانے ہیں۔ ہمیں اس سوچ سے نکلنا ہے کہ کشتی ڈوبتی ہے تو ڈوبے میرا گھر محفوظ ہے میں تو اونچی جگہ کھڑا ہوں۔ ہمیں ہر گھر کو اپنا گھر سمجھنا ہے۔ کیونکہ جب بستی اجڑتی ہے تو سب ملیامیٹ ہو جاتا ہے۔ طوفان اونچے درباروں کو پہلے لپیٹ میں لیتا ہے۔ آگ کی ایک چنگاری پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوان نسل اپنا بیڑا خود اٹھائے اب کسی کی طرف نہیں دیکھنا۔ ہم نے اپنا کردار نبھاتے جانا ہے۔ تعلیم کی اہمیت کے ساتھ جو تربیت کو نظر انداز کیا گیا اسے پھر سے بخال کیا جائے۔ ایمان اور اخلاق پہ اساتذہ اور والدین خصوصی توجع دیں۔ قوم کی اصلاح اور اخلاقی تعمیر ہر گھر سے شروع ہو گی تو کیوں نہیں اس ملک کے حالات بدل سکتے۔ لوگوں کی اخلاقی کمزوریوں پہ انھیں تنبیہ کریں۔ امیر غریب سب میں مساوات کو فروغ دیا جائے۔

کوئی خود کو غریب بتاتے ہچکچائے نہیں۔ عمل صالح کو فروغ دیا جائے۔ انسان کی اجتماعی اور انفرادی روش کو صحیح سمت دینے کی ضرورت ہے۔ انسان کو اس کی زندگی کا مقصد دوبارہ سے سمجھانا ہے۔ مادی وسائل کی کمی کے باوجود ہمیں عوام کی فلاح و بہبود کے لئے اٹھ کھڑا ہونا ہے۔ انسان کا اپنے خالق حقیقی سے رابطہ بحال کروانا ہے اور دوسرے انسانوں سے اس کا رویہ بہتر بنانا ہے۔ اپنی ذات کے محور سے انسان کو نکال کر اسے انسانیت کا درس دینا ہے۔ اٹھ نوجوان تجھ پی آن پڑی ہے اور تو ابھی تک سو رہا ہے۔ تجھے تو سورج طلوع ہونے سے پہلے اٹھنا تھا۔ لیکن ابھی بھی تیرے اٹھنے سے یہ قوم و معاشرہ سدھر سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).