قومی ڈائیلاگ، ایجنڈا اور فریقین کا مسئلہ


درپیش سیاسی بحران کی ابتدا اور اب عروج کے عرصہ میں جناب محمد علی درانی کی جیل میں جناب شہباز شریف سے ملاقات سے ایک بار پھر وسیع الجہت مذاکرات کی بحث میں شدت آ گئی ہے۔ سوال یہ کہ گرینڈ ڈائیلاگ کی نوعیت اور فریقین کون ہوں گے ؟ نیز یہ کہ اس طرح کی بات چیت شروع ہو سکتی ہے یا ہونی چاہیے؟

اولین طور پر یہ بات کسی شک و شبے کے بغیر تسلیم کرلینی اشد ضروری ہے کہ باہمی گفت و شنید صرف پارلیمانی جماعتوں کے درمیان ہو۔ ثانوی طور پر مذاکرات پارلمنٹ اور آئین کی بالادستی یقینی بنانے کے لیے مطلوب اقدامات کے تعین کے لیے ہوں۔

پیدا شدہ تعطل کے خاتمے کے لیے کسی محکمے کو سہولت کار نہیں بننا چاہیے بلکہ اس کے برعکس حکومت درپیش بحران کی سنگینی کو فوقت دے اپنی انانیت ترک کر ے۔ وزیراعظم کابینہ تحلیل کر کے حزب اختلاف کو ایک وسیع البنیاد مگر عبوری حکومت کی تشکیل کے بات چیت کی دعوت دے۔ جس میں میثاق پارلیمان منظور کیا جائے جو شفاف آزادانہ انتخابات یقینی بنانے کے رہنمائی و طریقہ کار طے کرے۔ جلد نئے عام انتخابات تک سینٹ کے مجوزہ انتخابات ملتوی رکھنے پر اتفاق کیا جایے

نئی حکومت مردم شماری کی توثیق کے زیر التوا عمل کو آگے بڑھائے۔ سی سی آئی کے آئینی ییلٹ فارم کو متحرک کیا جائے اسی ادارے کو حتمی فیصلے کرے۔

ممکن ہے اس تجویز کو جانبدارانہ کہہ کے رد کر دیا جائے۔ لیکن کیا اس کے علاوہ ڈیڈ لاک کے خاتمے اور بڑھتی سیاسی کشیدگی و سماجی اضطراب اور معاشی انحطاط پر قابو پانا ممکن ہے؟

حکومت کے لیے لازم ہے کہ مذاکرات کے ماحول خوشگوار بنانے کے لیے اپوزیشن پر این آر او کے متعلق اپنے بیانات کا سلسلہ معطل کرے نیز جے یو آئی اور پی ڈی ایم کی جماعتوں بارے شکوک و شبہات پیدا کرنے گریز کرے۔ بالخصوص جمعیت العلماء میں نقب زنی پیدا کرنے کے تاثر سے فاصلہ بڑھانا ہوگا۔

شاید یہ آرزومندانہ سوچ ہو۔ بہر حال مجھے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی وزیراعظم سے گزشتہ روز ہوئی بیٹھک بہت معنی خیز محسوس ہو رہی ہے۔ ٹی وی کلپس سے دیکھی بدن بولی سے بھی تناو کی کیفیت جھلک رہی تھی۔ دوسری طرف جناب محمد علی درانی کی جناب شہباز شریف کے جیل میں مذاکراتی ملاقات بہت اہم ہے جناب محمد علی حکومت کے نمائندہ نہیں۔ عمومی خیال یہی ہے کہ محترم بھی شیخ رشید کے سیاسی کزن اور گیٹ نمبر چار کے مسافر رہے ہیں جو اب پیام بری کے لیے آگے لایے گے ہیں

دونوں ملاقاتوں کے ٹائم فریم میں دیکھیے بڑھتے سیاسی نقطہ اشتعال اور سیاست میں جاری غیر سیاسی مداخلت کے خلاف بلند آہنگ بیانیے سے جو پاور نیوکلس کے داخلی حقیقی حلقے سمیت اضطراب و ساکھ کے سوال نے جو نہج پہلی بار اختیار کی ہے اسے سمجھتے ہویے بھی وسیع الجہت مکالمے کے انعقاد ساز گار ماحول کی اشد ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).