کچھ موسیقار زیڈ ایچ فہیم کے بارے میں


یہ اکتوبر 1980 کا زمانہ ہے۔ پاکستان ٹیلی وژن کراچی میں مجھے شعبۂ پروگرامز میں آئے ہوئے کچھ ہی روز ہوئے تھے کہ اچانک راہداری میں ایک جانا پہچانا چہرہ نظر آیا۔ یہ زیڈ۔ ایچ۔ فہیم صاحب تھے۔ ذہن میں ایک چھپاکا ہوا اور میں ماضی میں غوظہ زن ہو گیا۔ 1969 کا زمانہ ہو گا جب میں نے انہیں ائرپورٹ کلب کراچی میں فلم ”دل میرا دھرکن تیری“ میں قتیل ؔشفائی کی لکھی اور ماسٹر عنایت حسین کی موسیقی میں ’ترک الفت کا صلہ پا بھی لیا ہے میں نے، اب تو آ جا کہ تجھے یاد کیا ہے میں نے‘ ہارمونیم پر گاتے سنا۔ وہ ایک ورائٹی پروگرام تھا جس میں فہیم صاحب نے اکارڈین بھی بجایا اور وئلن پر سولو گیت سنائے۔ اس وقت مجھے یہ سب بہت اچھا لگا۔ اور اب۔ یہ میرے سامنے کھڑے تھے۔

گو پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز میں مجھے فہیم صاحب کے ساتھ زیادہ کام کرنے کا موقع نہیں ملا لیکن ملاقاتیں تواتر سے رہیں۔ یہ بھی کیا خوبصورت اتفاق ہے کہ خاتون پروڈیوسر سلطانہ صدیقی کے ساتھ 1981 میں پروگرام ”آواز و انداز ’‘ میں جب بحیثیت موسیقار ان سے ایک پروگرام کروایا تو پہلا کام بھی قتیل ؔشفائی صاحب کی غزل تھی: ’اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں سجا لے مجھ کو، میں ہوں تیرا تو نصیب اپنا بنا لے مجھ کو۔‘ ۔ اس کے گلوکار نہایت سریلے فنکار، اقبال قاسم تھے۔ یہ بعد میں نقل مکانی کر کے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے شہر شکاگو منتقل ہو گئے، جہاں میری ان سے ملاقات بھی ہوئی۔

فہیم صاحب کو میں نے اطمنان اور دباؤ دونوں حالتوں میں کام کرتے دیکھا۔ مجھے یہ مزاجاً دھیمے لگے۔ چہرہ ہمہ وقت پر سکون نظر آتا۔ گیت کی تخلیق کے مراحل، ابتدائی ریہرسل، گیت کی صدا بندی اور آخر میں صوتی تدوین سب جگہ یکساں توجہ دیتے۔ ایک لمبے وقفے کے بعد ان کو فون کیا تو مجھے بہت خوشی ہوئی کہ اپنا نام لینے سے قبل ہی فہیم صاحب نے مجھے میرے نام سے مخاطب کیا۔ ماشاء اللہ! بہت اچھی یادداشت ہے۔

2007 میں کراچی کلب میں ایک زمانے بعد فہیم صاحب کو بحیثیت ارینجر اور میوزک کنڈکٹر کام کرتے دیکھا۔ بہت مزا آیا۔ اس پروگرام میں ایک نوجوان نے فلم ”عذر ا“ میں گیت نگار حضرت تنویرؔ نقوی کا لکھا اور ماسٹر عنایت حسین کی موسیقی میں سلیم رضا کا لازوال گیت ’جان بہاراں رشک چمن۔‘ ۔ سنایا۔ اس میں نواز صاحب ( مینڈولین نواز ) سے مینڈولین پر بجایا گیا اصل انٹرول میوزک سن کر دل بہت مسرور ہوا۔ وہیں ایک وقفے میں فہیم صاحب سے گپ شپ رہی۔

پھر 2011 میں پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز میں میری سینئر، ہم ٹیلی وژن کی چیئرپرسن سلطانہ صدیقی صاحبہ سے ملنے کراچی جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں بھی فہیم صاحب کو ان کے کسی پروگرام کی ریہرسل کراتے دیکھا جس سے خاکسار بہت محظوظ ہوا۔ مزے کی بات یہ کہ 1981 کے فہیم صاحب کا وہی دھیما مزاج اورسب کو ساتھ لے کر چلنا اور غصہ میں نہ آنا اب بھی قائم دیکھا۔ ماشا اللہ!

اب ایک بہت اہم نکتہ کی جانب آتا ہوں۔ پچھلے ایک لمبے عرصہ سے کراچی میں امن و امان کی خراب حالت کی وجہ سے جہاں اور لوگ سخت پریشان رہے وہاں کراچی کے میوزیشنز بھی متاثر ہوئے۔ ظاہر ہے شہر کے حالات ٹھیک ہوتے ہیں تو موسیقی کی محفلیں بھی سجتی ہیں۔ موسیقار زیڈ ایچ فہیم نے ایسے میں ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے کراچی جمخانہ، کراچی کلب اور موسیقی سے دلچسپی رکھنے والے صاحب ثروت افراد کے ہاں باقاعدگی سے لایو میوزک کی نشست رکھنا شروع کر دیں۔

ان پروگراموں کے دو بہت ہی خوشگوار نتائج نکلے۔ ایک یہ کہ ایسے مشکل وقت میں ان میوزیشنز کا باقاعدہ روزگا شروع ہو گیا۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ دوسری بات شوقیہ فنکاروں اور سننے والوں کے دل میں گیت و غزل اور مشرقی موسیقی آہستہ آہستہ گھر کرنے لگی۔ ایمیچیورز میلوڈیز کے نام سے سلطان ارشد صاحب اور دیگر ہم خیال صاحبان نے پچھلے 21 سال سے ایک میوزک گروپ تشکیل دے رکھا ہے۔ ہر ماہ ایک پروگرام کیا جاتا ہے جس میں 35 نغمات ہوتے ہیں۔

نغمات کا زمانہ 1935 سے لے کر اب تک پر محیط ہوتا ہے۔ 250 سے زیادہ شوقیہ فنکار روشناس کرائے جا چکے ہیں۔ اسی سلسلہ میں فہیم صاحب ایک قدم اور آگے بڑھے اور مختلف نجی ٹیلی وژن چینلوں میں وائلنوں، ستار، بانسری، مینڈولین، طبلہ، نال، ہارمونیم اور ان کے ساتھ گٹار اور کی بورڈ وغیرہ کے ساتھ نئی آوازوں کو بھی روشناس کروا یا۔ یہ لکھنا بہت آسان ہے لیکن عملاً ہفتہ میں کئی مرتبہ ایسے پروگراموں کی ریہرسل، ارینجمنٹ، پروگرام کو کنڈکٹ کرنا۔ دل گردے کا کام ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا: ”میں سینئر میوزیشن کو جتنے روپے دلواتا ہوں تو اس میوزیشن کو بھی اتنی ہی رقم دلواتا ہوں جو ابھی میرے پاس بیس روز پہلے آیا ہو۔ میوزشنوں کی زیادہ سے زیادہ ادائیگی کروانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگاتا ہوں“ ۔

یہ بات صحیح ہے۔ کراچی میں شاید ہی کوئی اور اس سے زیادہ پیسے دلواتا ہو! فہیم صاحب نے ایک اور تکلیف دہ انکشاف کیا کہ اکثر پروگراموں میں میوزشن کو غالباً کم تر خیال کرتے ہوئے الگ تھلگ کھانا دیا جاتا ہے۔ اس پر انہوں نے کہا:

” بعض جگہوں پر میوزشن کی کھانے کی ٹیبل الگ کر دی جاتی تھی، میں نے اس فضول بات کو ختم کروا یا“ ۔

یہ حقیقت ہے کہ کراچی کے ہر دل عزیز وائیلن نواز منظور حسین (م ) کے انتقال کے بعد ایمیچیورز میلوڈیز کے پلیٹ فارم سے منظور حسین کے گھر والوں کو ایک معقول رقم دی گئی اور اس کا کہیں بھی چرچا نہیں کیا گیا۔

” ایمیچیورز میلوڈیز کے علاوہ ’موسیقار‘ اور ’من ترنگ‘ گروپ بھی ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ میوزشنوں کی ان تھک محنت اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے کراچی جمخانہ، کراچی کلب اور دیگر کلبوں میں بھی اکثر کچھ نہ کچھ سرگرمیوں جاری رہتی ہیں“ ۔

ہمارے دوست اخلاق احمد سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ”بزمی صاحب کی بیٹی کی شادی کے سلسلے میں ان ہی ہاں ایک پروگرام تھا۔ یہاں میں نے اخلاق احمد سے بہت سے گانے گوائے اور اس کو موسیقار نثار بزمی صاحب سے متعارف کروایا۔ پروگرام کے بعد اخلاق نے بزمی صاحب سے پوچھا کہ میں نے کیسا گایا؟ اس پر بزمی صاحب نے کہا کہ تم نے منا ڈے، طلعت محمود سب کو سنایا۔ لیکن میں نے تمہیں نہیں سنا۔ یعنی تم نے ان سب کے گانے، ان کی آواز میں سنائے۔ ویسے ٹھیک گا لیتے ہو۔ یعنی تم اپنی آواز میں گاؤ“ ۔

موسیقاروں کے ذکر پر فہیم صاحب نے کہا : ”خواجہ صاحب کے بعد میں ماسٹر عنایت حسین کو مانتا ہوں۔ میرے آئیڈیل موسیقار فیروز نظامی تھے“ ۔

” آپ خود موسیقی کی دنیا میں کیسے آئے؟“ ۔ میں نے سوال کیا۔

انہوں نے موسیقی کی دنیا میں آنے کا جو پس منظر بتایا وہ بجائے خود ایک پیاری سی کہانی ہے : ”میرے والد صاحب کا تعلق جالندھر اور والدہ دہلی کی رہنے والی تھیں۔ غیر منقسم ہندوستان کے بے مثال گلوکار ’کندن لال سہگل‘ المعروف کے ایل سہگل سے میرے والد کی دوستی تھی۔ امیر بائی، زہرہ بائی انبالے والی ہمارے ہاں ٹھہرتیں۔ ہمارا خاندان 1947 میں قیام پاکستان کے موقع پر دہلی سے جالندھر اور پھر وہاں سے ہجرت کر کے لاہور آیا۔

میرے تایا عطا اللہ دہلی کے ایک نامور بارسٹر تھے۔ انہیں اجڑے ہوئے ماڈل ٹاؤن میں مکان نمبر 73۔ C الاٹ ہوا۔ ہم بھی انہی کے ساتھ رہتے تھے۔ میرے تایا کا دہلی کی طرح لاہور میں بھی حلقہ ء احباب بہت کم تھا۔ ان کے پاس وقت ہی کہاں ہوتا تھا۔ ہمارے ملک کے نامور موسیقار خواجہ خورشید انور اور میرے تایا ابو برج اکٹھے کھیلتے۔ مجھے گنگنانے کا شروع سے ہی شوق تھا۔ میری عمر اس وقت 8 سال ہو گی۔ ایک مرتبہ میں فلم پرچھائیں ( 1952 ) کا گیت ’کٹتے ہیں دکھ میں یہ دن پہلو بدل بدل کے، رہتے ہیں دل کے دل میں ارماں مچل مچل کے‘ گنگنا رہا تھا کہ ایسے میں خواجہ صاحب نے اپنے کھیل کو روک کر مجھ کو بلوایا اور کہا کہ اور بھی سناؤ۔

تب میں نے ان کو فلم ’گلنار‘ ( 1953 ) میں میڈم نورجہاں کی آواز میں موسیقار ماسٹر غلام حیدر کی موسیقی میں قتیلؔ شفائی کا گیت ’بچپن کی یادگارو میں تم کو ڈھونڈتی ہوں تم بھی مجھے پکارو‘ سنایا۔ اس وقت مجھے یہ بھی علم نہیں تھا کہ خواجہ صاحب ہیں کون؟ میری قسمت اچھی تھی یا وہ موڈ میں تھے، میرے تایا ابو کو مخاطب کر کے کہنے لگے :“ عطا اللہ! یہ بچہ تمہارا نہیں، ہمارا ہے! ”۔

” بات آئی گئی ہو گئی۔ دو دن بعد سجا ہوا ایک سالم ٹانگہ دروازے پر آیا۔ تایا ابو کا ملازم دوڑا ہوا آیا اور میری جانب دیکھتے ہوئے کہنے لگا کہ خواجہ صاحب باہر بچے کو بلا رہے ہیں۔ وہ ٹانگے میں تھری پیس سوٹ پہنے ہاتھ میں 555 کے سگریٹ کا ڈبہ لئے بیٹھے تھے۔ میں لپک کر ٹانگے میں ان کے برابرجا بیٹھا۔ شوق بھی تھا کہ اب یہ مجھے ٹانگے کی سیر کرائیں گے۔ لیکن کچھ ہی دیر میں شوق خوف میں بدل گیا کیوں کہ ٹانگہ ملتان روڈ پر آ گیا۔ اس پورے راستے خوا جہ صاحب بالکل خاموش رہے۔ صرف سگریٹ پیتے رہے۔ پھر ٹانگہ شاہ نور فلم اسٹوڈیوز میں داخل ہو گیا۔ یہاں آ کر تو دنیا ہی بدل گئی جیسے میں پرستان میں آ گیا! وہاں جن لوگوں سے ملاقات ہوئی (بعد میں علم ہوا) کہ وہ نگار سلطانہ، سدھیر، حبیب اور دیگر فلمی ستارے ہیں۔ ایک ہال میں پیانو رکھا ہوا تھا۔ اس کے سامنے اسٹول پر بیٹھ گئے۔ ان کی فلم کے گانے بن رہے تھے۔ وہاں سارنگی، بانسری، اپ رائٹ ڈبل بیس اور کچھ وائیلن والے موجود تھے۔

بس اس دن سے موسیقی سے میری دلچسپی بڑھ گئی۔ اب علم ہوا کہ یہ ’موسیقی‘ ہے۔ بس اسی روز سے مجھے سازوں سے آگاہی ہونا شروع ہو گئی۔ دو ایک روز بعد خواجہ صاحب دوبارہ میرے تایا ابو کے ہاں آئے۔ پوچھا چلو گے؟ اس وقت میرے تایا ابو بھی قریب کھڑے تھے۔ انہوں نے کہا کہ تم تو ہمارے بچے کو خراب کر دو گے! ۔ بہر حال اب تو میں ان کے ساتھ روزانہ ہی شام کو اسٹوڈیو جانے لگا۔ ہاں! اکثر میری اسکول میں پڑھائی کا بھی پوچھتے اور کہتے کہ فیل ہو گئے تو ہماری دوستی ختم ہو جائے گی ”۔

ایک سوال کے جواب میں فہیم صاحب نے کہا : ”خواجہ صاحب کی فلم“ ا نتظار ”( 1956 ) کے گیت کی دھن بنائی جا رہی تھی۔ جب وہ مطمئن ہو گئے تو مجھے کہا کہ یہ دھن خوب اچھی طرح یاد کر لو۔ میں نے وہ استھائی، انترا اور سنچائی یاد کر لیں۔ حسب معمول میں ان کے ساتھ اسٹوڈیو آ گیا۔ وہاں اس گا نے کے لکھنے والے معروف گیت نگار تنویرؔ نقوی بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ کچھ دیر میں میڈم نورجہاں بھی تشریف لے لائیں۔ مجھے خواجہ صاحب نے کہا کہ ذر ا وہ دھن سناؤ جو میں نے یاد کروائی ہے۔

میں نے اس کی استھائی میڈم کو سنائی۔ میڈم نے وہ دھرائی۔ پھر اسی طرح میڈم نے پورا گانا دھرا دیا۔ پھر خوش ہو کر اپنے پرس سے کچھ پیسے نکال کر مجھے انعام دیا۔ تنویر ؔ نقوی صاحب نے بھی شاباشی دی اور میری حوصلہ افزائی کی۔ وہ تو بچپن کا زمانہ تھا۔ جب کچھ شعور آیا تو میں اس منظر کو یاد کر کے خوفزدہ ہو جاتا کہ میری یہ جرات کہ میڈم کو گانا یاد کراتا!“ ۔

” فلم“ زہر عشق ”( 1958 ) میں قتیلؔ شفائی کا لکھا گیت ’موہے پیا ملن کو جانے دے۔‘ کمپوز ہو رہا تھا۔ یہ اوپر تک تیسرے اور چوتھے کالے تک جاتا تھا۔ یہ بھی خواجہ صاحب نے مجھے یاد کروایا“ ۔

” اسی طرح خواجہ صاحب کی فلم“ جھومر ”( 1959 ) میں ناہید نیازی کی آواز میں مسرت نذیر پر فلمایا ہوا تنویرؔ نقوی کا یہ مشہور گانا: ’چلی رے چلی رے چلی رے، بڑی آس لگا کے چلی رے۔‘ میں مینڈولین اور بانسری کے تمام پیس اور باریں خواجہ صاحب کے کہنے پر پہلے خود یاد کیں پھر میوزشنوں کو یاد کروائیں۔ میوزیشن مجھے خواجہ صاحب کا ’ٹیپ ریکارڈر‘ کہنے لگے“ ۔

” میڈم نورجہاں دیگر تمام موسیقاروں کے لئے کچھ اس طرح گاتی تھیں جیسے ان پر احسان کر رہی ہوں۔ جب کہ خواجہ صاحب کا کام اس طرح سے کرتی تھیں جیسے یہ کام کرنا میڈم کے لئے ایک اعزاز ہو“ ۔

” خواجہ خورشید انور وہ واحد شخص تھے جو میڈم کے آنے پر کبھی کھڑے نہیں ہوتے تھے۔ اور یہ ہی وہ واحد شخص تھے کہ میڈم آنے کے بعد اس وقت کھڑی رہتی تھیں جب تک خواجہ صاحب بیٹھنے کو نہ کہیں“ ۔

” عطرے صاحب (موسیقار رشید عطرے ) کا ایک کورس میڈم لیڈ کرہی تھیں۔ صدا بندی کے بعد میڈم نے وہاں پر موجود کسی آدمی کو بلوایا اس کے کان میں کچھ کہا۔ کورس گانے والوں، تمام میوزشنوں اور اسٹوڈیو شفٹ کے تمام افراد کو کہا کہ ابھی رکیں۔ کچھ دیر بعد ڈھائی ڈھائی من والی دو عدد دیگیں آ گئیں۔ باہر لان میں دستر خوان لگ گئے۔ تمام اسٹوڈیو کی دعوت عام ہو گئی۔ پھر بھی بہت کھانا بچ رہا جو وہاں موجود لوگ اپنے گھروں کو لے گئے“ ۔

” خواجہ خورشید انور ’پر فیکشنسٹ‘ تھے۔ بہترین سے کم پر کسی صورت بھی راضی نہیں ہوتے تھے۔ اکثر میں نے دیکھا کہ بڑے سے بڑے گلوکار بشمول میڈم، کی ریکارڈنگ ہو رہی ہے۔ گانا صدا بند ہوا۔ ہر طرف شور اٹھ گیا۔ بہترین ہو گیا۔ مبار ک مبارک! میڈم مطمئن ہیں۔ تنویرؔ نقوی بھی خوش ہیں۔ ساؤنڈ ریکارڈسٹ ’سی منڈوڈی‘ بھی مطمئن ہیں۔ لیکن خواجہ صاحب نے نفی میں سر ہلا دیا۔ وہ ایسے موقع پر کہتے کہ میں کسی کے لئے نہیں، اپنے لئے کام کرتا ہوں۔ یہ میرا کام ہے اور میں مطمئن نہیں۔“ ۔

” میری موجودگی میں ایک صحافی آ گیا۔ کہنے لگا کہ آنے والی فلم ( غالباً )“ حویلی ”( 1964 ) کے گانے کیا عوام میں مقبولیت حاصل کر سکیں گے؟ اس پر خواجہ صاحب نے جواب دیا کہ میرا کام دو تین سال کے بعد سمجھ آئے گا۔ میں بازاری کام نہیں کرتا۔ میرا کام سمجھ والوں کے لئے ہی ہوتا ہے۔ تین سال بعد یہی گانے تم بھی گاتے پھرو گے“ ۔

” پھر بعد میں خواجہ صاحب نے عام آدمی کے لئے بھی دھنیں بنائیں جیسے 1970 میں مسعود پرویز صاحب کی فلم“ ہیر رانجھا ”میں گیت نگار احمد راہیؔ کے لکھے گیت : ’سن ونجلی دی مٹھڑی تان وے، میں تاں ہو ہو گئی قربان‘ ،“ ۔

فہیم صاحب نے ایک اور دلچسپ واقعہ سنایا: ”خواجہ صاحب گلوکارہ زاہدہ پروین کو ریہرسل کروا رہے تھے۔ سائیں دتہ بانسری پر، شوکت حسین طبلے پر تھے کہ ایک قسمت کا مارا آ گیا اور اجازت لے کر بیٹھ گیا۔ پوچھا کیسے آنا ہوا؟ تو آنے والے نے خواجہ صاحب سے پوچھا کہ گانا، گانا کتنے دن میں آ جاتا ہے؟ خواجہ صاحب خاموش ہو گئے۔ یہی سوال دوبارہ پوچھا۔ اب انہوں نے جو جواب دیا وہ سننے کے لائق ہے : ’20 سال میں تو صرف گانا سننا ہی آتا ہے‘ !“

زیڈ ایچ فہیم صاحب نے اس سوال کے جواب میں کہ عملی موسیقی کیسے شروع کی؟ کہا: ”یہ خواجہ خورشید انور صاحب کی نظر التفات اور ان کی شفقت کی بدولت ہی ممکن ہوا۔ وہ موسیقی سے ہٹ کر بھی ایک ادارہ تھے۔ مجھے ان کی محفلوں میں بیٹھ کر مزید موسیقی جاننے کی کھوج ہوئی۔ میں سلیم رضا، طلعت محمود اور لتا منگیشکر سے بہت متاثر تھا۔ میری جلد ہی سلیم رضا سے جان پہچان، دوستی میں بدل گئی۔ میں نے خود سے ہارمونیم بجانا شروع کر دیا۔

لاہور میں جو ساز باقاعدہ سیکھے وہ بانسری، وائلن، طبلہ، مینڈولین، اکارڈین وغیرہ ہیں۔ جو نہیں بجائے جیسے گٹار اور بیس گٹار ان کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کیں کہ کیسے ’ٹیون‘ کرتے ہیں۔ موسیقی سے متعلق کتابیں خریدیں۔ اپنے سننے کے لئے ریکارڈ خرید کر لاتا۔ چھ آنے کا ایک ریکارڈ مل جاتا تھا۔ پہلے چوری چھپے تایا ابو کے

’ ہز ماسٹر وائس‘ گراموفون پر اپنے اور ان کے ریکارڈ سنا کرتا پھر بعد میں انہوں نے اجازت دے دی۔ اس کے بعد میں نے خواجہ صاحب سے خود راگ راگنیوں سے متعلق معلومات لینا شروع کیں۔ وہ نہ صرف دل چسپی سے بتاتے بلکہ کہتے کہ یہ نوٹس کاپی پر لکھتے رہو۔ یہی نہیں! میں ہمیشہ ان کا مشکور اور احسان مند رہوں گا کہ انہوں نے میوزک نوٹیشن لکھنے اور پڑھنے میں میری بے حد مدد کی ”۔

سلیم رضا کے ساتھ ہارمونیم بجانے کے بارے میں بتاتے ہوئے فہیم صاحب نے کہا:۔ ”پھر اکثر یہ ہوا کہ سلیم رضا کے ساتھ مو سیقی کی نجی محافل میں کورڈ کے ساتھ ہارمونیم بجانے لگا۔ کئی ایک محفلوں میں ان سے پہلے ان ہی کے گائے ہوئے مشہور گیت سنا تا۔ میں نے مشہور فلمی موسیقار ( بھائیوں ) ماسٹر عنایت حسین اور ماسٹر عبد اللہ کے ساتھ بھی کام کیا۔ پھر 1960 ہی کی دہائی میں ہمارا خاندان راولپنڈی منتقل ہو گیا۔ اس کے کچھ عرصے بعد ہم لوگ کراچی آ گئے“ ۔

اپنے پاکستان ٹیلی وژن پر آنے سے متعلق بتایا: ”میں نے پی ٹی وی لاہور مرکز میں پروگرام“ منزل ”میں گانا گایا اور ساز بھی بجائے۔ پھر کراچی میں ذیشان مہدی نام کے ایک صاحب بانسری بجاتے تھے۔ کہتے تھے کہ میں تم کو ٹی وی میں متعارف کرواؤں گا۔ اسی زمانے میں اداکار اسد جعفری اخبار جہاں میں سوشل را ؤنڈ اپ لکھتے تھے۔ ان کے ہاں موسیقی کی محفلیں ہوتیں۔ شہر بھر میں ہونے والی موسیقی کی تقریبات میں بھی ان کو مدعو کیا جانا لازمی تھا۔

ان کے ہاں اداکار محمد علی، شاہد، معین اختر، مہدی حسن، ممتاز الاسلام اور بہت سے نامور افراد آتے تھے۔ اس وقت کراچی میں ظفر پروانہ، نوئل رانا، وکٹر اور میں یہ چار اکارڈئین بجاتے تھے۔ کسی واسطے سے میری اس وقت کے پروگرامز منیجر عبدالکریم بلوچ سے ان کے دفتر میں ملاقات ہوئی۔ میں نے انہیں پی ٹی وی لاہور سے اپنے کیے ہوئے پروگرام بتائے۔ مجھے انہوں نے پروڈیوسر محسن علی کے پاس بھیج دیا۔ وہ اسٹیج شو۔ ’‘ فروزاں ’‘ کر رہے تھے۔

مجھے کہا گیا کہ میں نے وائلن پر گانے بجانے ہیں۔ بانسری اور طبلے والے کو ساتھ لاؤں۔ پی ٹی وی کے اسٹوڈیو اے میں طبلے والے اور ذیشان مہدی بانسری نواز کو ساتھ لیا جو مجھے ٹی وی میں متعارف کروانے والے تھے۔ ان دونوں کے ساتھ خواجہ خورشید انور صاحب کی فلم ’انتظار‘ ( 1956 ) کا گانا ’جس دن سے پیا دل لے گئے دکھ دے گئے۔‘ بجایا۔ بس اس کے بعد میں پی ٹی وی کے پروگرام کرنے لگا۔ پھر پروڈیوسر ذوالفقار نقوی صاحب سے ملاقات ہوئی۔ وہ پروگرام“ سندھ سنگھار ”کرتے تھے۔ ایک پروگرام میں پانچ عدد گانے ہوتے۔ پھر ڈراموں کا بیک گراؤنڈ کیا۔ پروڈیوسر عارفین کے لئے اردو گانے بھی کئیے“ ۔

” آپ نے کن گلوکاروں کے ساتھ کام کیا؟“ ۔

” فنکاروں میں عشرت جہاں، مہناز، رجب علی، حمیرہ چنا، عالمگیر، محمد علی شہکی، محمد یوسف اور اس وقت کے تقریباً تمام ہی گلوکاروں کو گوایا۔ میں نے فلر نغمے بھی کئیے۔ گراموفون کمپنی آف پاکستان ای ایم آئی، شالیمار ریکارڈنگ کمپنی، ایسٹرن اور مارڈرن فلم اسٹوڈیوز میں بھی کافی کام کیا۔ ایسٹرن فلم اسٹوڈیو میں سنگر سلائی مشین کا فلمی اشتہار بنایا اور اس میں اکارڈین بھی خود بجایا۔ فلم“ آنکھ کا نشہ ”میں مینڈولین بجایا“ ۔

ایک جواب میں انہوں نے بتایا: ”میں نے خواجہ صاحب کے ساتھ تنویر ؔنقو ی صاحب کے گیت لکھنے کے تخلیقی عمل کو کئی مرتبہ دیکھا۔ خورشید انور صاحب کے میوزیشنز بھی خاص تھے۔ میں نے خود میڈم نورجہاں کو کہتے سنا کہ خواجہ صاحب کا بنایا ہوا گیت گانا آسان کام نہیں ہوتا۔ وقت گزرتا گیا خواجہ صاحب کا دیا ہوا حوصلہ اور سینے میں موسیقی کی چنگاری مجھے اساتذہ کے در پر لے گئی۔ جی بھر کے جہاں سے تھوڑا بھی حاصل ہو سکتا تھا، حاصل کیا۔ ایک طلب سی تھی کہ بنیادی رموز کی سمجھ ہونا چاہیے“ ۔

” پھر میں 1964 / 1963 میں کراچی ا سٹیج پر آ گیا۔ یہاں وائلن نواز کی حیثیت سے کام کا کیا“ ۔

اس زمانے میں پاکستان ٹیلی وژن میں کریم شہاب الدین اور نیاز احمد جیسے موسیقار وں میں فہیم صاحب کو اپنی جگہ بنانا آسان کام نہیں تھا۔ محمد یوسف، منظور سخی رانڑی، عشرت جہاں ( جو گلوکارہ مہناز کی خالہ ہیں ) ان کے اولین گلوکار تھے۔ پروڈیوسر ذوالفقار نقوی صاحب کے مذکورہ پروگرام کے لئے ٹائٹل میوزک بھی بنایا جو بعد میں کئی ایک ڈراموں میں بھی استعمال کیا گیا۔ پروڈیوسر حیدر امام رضوی نوجوانوں کے لئے پروگرام کیا کرتے تھے جیسے ”ذہانت“ ، ”آزمائش“ ۔ انہوں نے ان پروگراموں میں میوزک اور گیتوں کی دھنیں بنانے کا کام فہیم صاحب کو دیا۔ حالات حاضرہ کے پروڈیوسر مشکور ا حمد نجم کے پروگرام اور دیگر خصوصی پروگراموں میں عالمگیر، ٹینا ثانی، محمد علی شہکی، تحسین جاوید، امجد حسین، وہاب خان، بنجمن سسٹرز اور دیگر فنکاروں نے ان کی

د ہنوں پر گایا۔
” مہدی حسن صاحب نے کبھی آپ کی دھن پر کچھ ریکارڈ کروایا؟“ ۔

” کبھی مہدی حسن بھی میری دھن پر گاتے یہ ارمان پورا نہ ہو سکا۔ البتہ اکرام مہدی مرحوم کی 8 غزلوں کا مجموعہ ’ سوغات جنوں‘ میں نے ترتیب دیا۔ لوگوں کو مہدی حسن نہیں تو کوئی ان جیسا تو ملا ”۔
” ہماری موسیقی کا مستقبل کیا ہے؟ کچھ افراد تو بہت مایوسی کی باتیں کرتے ہیں“ ۔ میں نے سوال کیا۔

” سچ کو آنچ نہیں! موسیقی کا مستقبل روشن ہے! ہاں البتہ جیسے کپڑے کے فیشن بدلتے رہتے ہیں ویسے ہی موسیقی بھی وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔ کوئی شے بھی جامد نہیں۔ مسلسل حرکت جاری رہنا چاہیے اور یہی زندگی ہے“ ۔

میں نے آخر میں ان سے ایک چبھتا ہوا سوال کیا: ”آپ نے اپنی زندگی موسیقی کے لئے وقف کر دی۔ کیا آپ نے اپنے اس علم موسیقی کو آگے منتقل کیا؟“ ۔

اس پر موسیقار زیڈ ایچ فہیم نے جواب دیا کہ میں نے تو اپنی سی بہت کوشش کی کہ ایک نہیں دو نہیں بہت سے لوگ آئیں اور سیکھیں، لیکن کوئی مائل ہی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).