کریمہ بلوچ کی پراسرار موت اور پرخطر زندگی



محترمہ افشیں بلوچ صاحبہ!

چند روز پیشتر ’ہم سب‘ کے ایک دوست نے مجھ سے فرمائش کی کہ میں کریمہ بلوچ کے بارے میں کچھ لکھوں جن کی پچھلے دنوں 2020 کی 21 دسمبر کی لمبی ترین اور تاریک ترین رات کو ٹورانٹو میں پراسرار طریقے سے موت واقع ہوئی۔

کریمہ بلوچ اور آزادی اظہار کے چاہنے والوں اور انسانی حقوق کا احترام کرنے والوں کی خواہش ہے کہ کینیڈا کی حکومت اور پولیس اس پراسرار موت کی غیر جانبدارانہ اور شفاف تفتیش کرے تا کہ عوام و خواص جان سکیں کہ اس موت کے پیچھے کن لوگوں اور اداروں کا ہاتھ ہے۔

کریمہ بلوچ کی پراسرر موت کی خبر سن کر بہت سے سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کو بلوچ صحافی ساجد حسین کی پراسرار موت یاد آ گئی جن کی لاش سویڈن کے شہر اپسلا کے قریب دریا سے ملی تھی۔

کریمہ بلوچ اور ساجد حسین کی طرح نجانے کتنے اور گمنام بلوچی سیاسی رہنما اور کارکن ہوں گے جو پراسرار طریقے سے یا غائب ہو جاتے ہیں اور یا قتل کر دیے جاتے ہیں جن کی موت کسی اخبار کی سرخی نہیں بنتی۔

محترمہ افشیں بلوچ صاحبہ!

آپ ایک شاعر بھی ہیں اور دانشور بھی۔ آپ سیاسی شعور بھی رکھتی ہیں اور حساس دل بھی۔ آپ کریمہ بلوچ کو بھی جانتی ہیں اور بلوچستان کے مسائل سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ اگر آپ چند سوالوں کا مختصر جواب دے سکیں تو ہم ان دونوں خطوط کو ملا کر۔ ہم سب۔ کے لیے ایک کالم بنا سکیں۔

1۔ آپ کریمہ بلوچ کی پرخطر زندگی اور پراسرار موت کے بارے میں کیا جانتی ہیں؟
2۔ بلوچ سیاسی رہنما اور کارکن پاکستان چھوڑ کر مغربی ممالک میں کیوں پناہ ڈھونڈ رہے ہیں؟
3۔ دوسرے ممالک میں سیاسی پناہ لینے کے باوجود ان کی جان کو کیوں خطرہ رہتا ہے؟

4۔ پاکستان میں مختلف حکومتوں کے دوران بلوچستان کے سیاسی اور معاشی مسائل بہتر ہوئے ہیں یا بدتر؟

5۔ خواتین سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کے مسائل مرد سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں سے کیسے مختلف ہیں؟
میرے سوالات کے جوابات دینے کا پیشگی شکریہ۔
آپ کی شخصیت ’شاعری اور دوستی کا مداح
خالد سہیل
24 دسمبر 2020
۔ ۔ ۔
افشیں بلوچ کا جواب
۔ ۔ ۔
میرے مہربان، مخلص، محترم اور دانا دوست ڈاکٹر خالد سہیل صاحب،

سب سے پہلے تو میں یہ بتاتے ہوئے بہت مسرت محسوس کر رہی ہوں کہ میرے بلوچستان کے حالیہ سفر کے دوران کئی لکھاری دوستوں نے آپ کے لئے بہت محبت بھرے پیغامات بھیجے وہ آپ کی تحریروں کے بے حد مداح ہیں۔ آپ کی تحریروں کو وہاں بہت سراہا جاتا ہے اور وہاں کتاب کے عشاق کافی تعداد میں موجود ہیں۔

میں آپ کی بہت شکر گزار ہوں کہ آپ نے، اپنے عزم پہ ڈٹی رہنے والی بہادر بلوچ رہنما کریمہ بلوچ کے حوالے سے اور پھر بلوچستان کے حوالے سے بہت اہم سوالات اٹھائے ہیں ان کے حوالے سے جو کچھ میرے علم میں ہے میں ترتیب سے قلمبند کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔

ڈاکٹر صاحب! میرا مشاہدہ یہ ہے کہ بدقسمتی سے پڑھے لکھے اور روشن خیال پاکستانی ادیب اور لکھاری بھی بلوچستان کی تاریخ اور اصل مدعے سے بہت کم واقفیت رکھتے ہیں۔ جس کی وجوہات واضح ہیں۔ پاکستانی سول سوسائٹی کو ریاستی بیانئے سے زیادہ کچھ بتایا نہیں جاتا۔ پاکستانی نصاب، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا عرصہ دراز تک مخصوص گھسی پٹی تاریخ پڑھانے پر کاربند رہے اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت انہوں نے اپنے بیانئے کو طاقتور کرنے کے لئے جس گناہ کا ارتکاب کیا اس کے باعث پاکستان میں موجود تمام اقوام اور عوام کے ساتھ سب سے بڑا اور سنگین ظلم یہ ہوا کہ ان کی سوچ سمجھ کا محور محدود کر دیا گیا۔

سبھی خوفزدہ ریاستیں یہی کرتی ہیں بے شک وہ سپر پاور ہی کیوں نہ ہوں۔ لیکن یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ پاکستانی سوچ اور محب الوطنی کو تعصب اور احساس۔ برتری کی بنیاد پر اجاگر کیا گیا۔ دوسری زبانیں بولنے والے جاہل اور وحشی گردانے گئے۔ عوامی سطح پر بلوچ قوم کے بارے میں جو misconceptions پھیلائی گئیں وہ صرف ہمارے سماجی نظام کے مختلف ہونے کے باعث با آسانی پیدا کی گئیں۔ بلوچوں کو تنگ نظر اور جاہل کہا گیا۔ جس کے باعث عام سطح پر دوریاں بڑھتی گئیں۔

یہ سیاسی چالیں تھیں تاکہ بلوچوں کو وقت پڑنے پر آرام سے وحشی کہہ کر غدار کا لقب دیا جاسکے۔ کیونکہ عیار حکمران یہ جانتے تھے کہ بلوچ اپنی آزادی پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ (1948 کے بعد سے یہ ان پہ عیاں تھا) اسی لئے طاقت کے پجاری سرداروں کو پاور اور پیسہ دے کر سرکاری سردار بنا دیا گیا۔

اس خطے کی سیاسی اور جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے بڑی طاقتوں نے ہندوستان کے بٹوارے کے بعد ہی گھناؤنے کھیل شروع کردیے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ سپر پاور امریکہ نے کس طرح پاکستان کو اپنا فوجی اڈہ بنایا اور پاکستانی حکمران کس طرح لالچ اور حوص کی بھینٹ چڑھے۔

پاکستان کے دنیا کے نقشے پر نمودار ہوتے ہی بلوچستان کو ہر ترغیب استعمال کر کے ساتھ شامل کرنے کی کوششیں شروع ہو گئیں۔ اور ہمیں 27 مارچ 1948 میں جبری الحاق کے ذریعے پاکستان میں شامل کیا گیا۔ بلوچستان جو 11 اگست 1947 کو آزاد ہوا اس کی علیحدہ ریاست تھی۔ کچھ تو اسلام کے نام پر خان آف قلات کو جذباتی طور پر اکسایا گیا باقی کا کھیل تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ پرنس آغا عبدالکریم خان نے الحاق کے فیصلے کے خلاف بغاوت کی اور اسی دور سے بلوچستان میں آزادی کی تحریک نے زور پکڑا۔ میں یہ بتانا ضروری سمجھتی ہوں کہ انگریز کے خلاف بھی بلوچ قوم نے جنگیں لڑی ہیں۔ مہراب خان اور ان کے ساتھی 1839 میں انگریزوں کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوئے اور پے در پے یہ جھڑپیں جاری رہیں۔ کالونائزر نے اپنی رسم اور ریت جاری رکھی اپنے حربے استعمال کیے لیکن آزادی کی لگن کو ختم نہیں کرسکے۔

بلوچوں پر ہر آمر اور یہاں تک کہ جمہوری دور میں فوج کشی ہوئی۔ 1970 کی دہائی میں بھٹو صاحب کے دور میں بھی لڑائی جاری تھی جو کچلنے کی کوشش کی گئی۔ میں یہاں دیگر قوموں کے وفاق کے خلاف اتحاد یعنی نیپ NAP کا ذکر کرنا ضروری سمجھتی ہوں جس نے اسی دور میں جان پکڑی اور بنگلہ دیش بھی اسی دہائی میں آزاد ہوا۔ نیپ کے کچلے جانے کے بعد حالات بدتر ہوتے ہو گئے۔ ہماری طرف تقریباً بیس سال کی خاموشی تھی۔ اور اس کالے دور میں ثور انقلاب کو رگڑا دینے کے لئے خطے میں بے حد بے چینی بڑھی اور کشت و خون جاری تھا۔

افغانستان کو امریکہ نے برباد کر دیا۔ پاکستان میں جنرل ضیا الحق نے بچی کچھی لبرل پاکستانی سوچ کو تباہ کرنے کی ٹھانی۔ ہمارے اور پاکستانی عوام کے مسئلے اور محاذ مختلف رہے ہیں۔ لیکن irony of fate دیکھیں کہ جس نصاب اور میڈیا کا میں نے ذکر کیا اس میں ایک خوفناک اسلامائزیشن کا عنصر شامل ہو گیا جس نے پہلے سے کچھ موجود خستہ اور نحیف متوازن سوچ کو نگلنا شروع کر دیا۔ مدرسوں کے جال بچھائے گئے اور تنگ نظری کو ہوا دی گئی۔ (پاکستان میں اس لعنت سے کوئی نہ بچا۔ ہمارے مظلوم عوام کو اپنی سیاہ بختی کا علم نہیں)

افغانستان میں آگ کا کھیل جاری رہا۔ بلوچ آزادی پسند راہنماؤں اور بلوچ قوم نے کبھی اپنے حق آزادی سے دستبردار ہونا نہیں چاہا۔ لیکن ریاست نے یہاں ان سرداروں اور نوابوں کو مضبوط کیا جو کہ حرص اور طاقت کے پجاری رہے ہیں۔ ان کے ادوار میں بلوچ کی نہ معاشی حالت درست ہوئی نہ سماجی کیونکہ وہ محض مفاد پرست پاور سینٹرز تھے جو اسٹیبلشمنٹ کے منظور نظر تھے۔

مکران میں سرداری اور قبائلی سسٹم نہیں تھا وہاں ریاست نے دوسرے انداز میں کھیل کھیلا۔ وہاں بچوں کو نشے کی لت لگائی گئی۔ مکران ایک مردم خیز علاقہ ہے اور بلوچستان کے دماغ کی حیثیت رکھتا ہے وہاں مردم کشی دوسرے طریقوں سے شروع کی گئی۔ لیکن بی ایس او کا ادارہ جو 60 کی دہائی سے موجود رہا بلوچ قوم میں سیاسی بیداری اور شعوری تحریک کے طور پر کام کر رہا تھا۔ شہید حمید بلوچ کو 80 کے اوائل ہی میں پھانسی دی گئی۔ جنہوں نے بلوچوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھائی۔

بزرگ بلوچ راہنما نواب خیر بخش مری افغانستان سے واپس آئے تو انہوں نے حق توار کا آغاز کیا۔ بے شمار لوگ ان کے پاس بیٹھتے اور ان کو سنتے وہاں سے نوجوانوں کو دوبارہ تحریک ملی اور یوں مزاحمت کاروں اور سیاسی جہد کاروں نے اپنا راستہ اپنایا۔

میں یہ واضح کردوں کہ بلوچ مزاحمت کاروں کو یقین ہے کہ نہ صرف ہماری عزت نفس داو پر ہے بلکہ ہماری مہر و انسانیت کی اقدار بھی پامال ہو رہی ہیں۔ نس نس میں بے ایمانی اور نفرت کا زہر بھرنے والی مشینری اور جھوٹے قوانین انسانوں کو تحفظ نہیں دے سکتے۔ یہ نوآبادیاتی ذہن غلام در غلام پیدا کر رہا ہے اور انسانوں کو نفسیاتی طور پر طاقت پسند حرص و لالچ کی ماری نسل بنا رہا ہے۔

آج بلوچوں کا ایک ہی موقف ہے کہ وہ عزت اور آزادی سے جینا چاہتے ہین۔ اپنی شناخت چاہتے ہیں۔ اور یہ ہر انسان کا ہر قوم کا بنیادی حق ہے۔

کریمہ بلوچ ایک ہونہار اور بہادر طالبہ تھیں جنہوں نے چھوٹی سی عمر سے ہی سیاسی جد و جہد شروع کی۔ ان کے خاندان کے کئی افراد لاپتہ کیے گئے کئی قتل ہوئے۔ کریمہ نے بلوچستان میں عورتوں بچوں اور نوجوانوں کو متحد کیا اور سیاسی شعور دیا۔ وہ یہاں پندرہ سال تک جہد میں رہیں اور پھر بلوچ مسنگ پرسنز کا مدعا اٹھایا بلوچ نسل کشی پر کینیڈا میں بات کی۔ وہ ان نا انصافیوں کے خلاف مستقل عمل پیرا رہیں اور دنیا کی توجہ اس طرف دلوائی اور یہی جرم ساجد حسین کا تھا۔ اور ان دونوں کے اسی سال چھ ماہ کے وقفے کے بعد identical murders ہوئے۔

انکے بقول ”ہم زمین پر موجود ممللکت خداداد کے خلاف عمل پیرا ہر ذہن اور کارکن کو ختم کردیں گے۔ ہماری لاکھوں آنکھیں اور کان ہیں کروڑوں ہاتھ ہیں زمین پر موجود ہر آدمی تک پہنچ جاتے ہیں۔ آپ نے جو کرنا ہے کر لیں۔“

گزشتہ سال کینیڈا ہی میں کریمہ بلوچ نے یہ مسئلہ اٹھایا۔ کریمہ بلوچ کے گھر پر تمپ میں حملہ ہوا انہیں دھمکیاں ملتی رہیں لیکن وہ کمال بہادری سے ڈٹی رہیں۔ وہ بی ایس او آزاد کی چئرپرسن تھیں اور 2016 میں کینیڈا جا کر سیاسی پناہ حاصل کر چکی تھیں۔

یہ حالیہ قتل شرمناک طور پر نئی قسم کی کارروائیاں ہیں۔ تاکہ ان اموات کو خودکشی کا نام دیا جاسکے نان کریمنل قرار دیا جاسکے۔ گھناؤنے حربے اور چرب زبانی سے دنیا کے سامنے خود کو بری الذمہ قرار دیا جاسکے لیکن بلوچ قوم کو بخوبی علم ہے کہ ساجد حسین اور کریمہ بلوچ کا قتل کیسے ہوا۔

محترم ڈاکٹر صاحب! ایک ماہر نفسیات ہونے کی حیثیت سے آپ بخوبی جانتے ہیں کہ دہشت اور نفرت کی اس دنیا میں جنگوں کے دوران دماغ کو ٹارگٹ کرنا اولین سٹریٹجی ہوتی ہے۔ کیونکہ تمام جنگیں اتنی ہی نفسیاتی ہوتی ہیں جتنی کہ فزیکل۔ مکران میں اس سال بے حد گھناؤنے انداز میں عورتوں کا قتل ہوا اور ایک معصوم طالب علم کو سرعام گولیوں سے چھلنی کیا گیا۔ یہ سب اس لئے نظر آیا کیونکہ یہ مسئلہ publicise ہو گیا۔ دو عورتوں ملک ناز، آسیہ بی بی اور کلثوم بلوچ کو گھر میں گھس کر ان کے بچوں کے سامنے قتل کیا گیا اور حیات کو اپنے ماں باپ کے ساتھ کام کرتے ہوئے نشانہ بنایا گیا۔ بے شمار مسنگ پرسنز کی مائیں بہنیں اور بیٹیاں سخت موسموں میں اپنے پیاروں کے لیے دربدر اور سراپا احتجاج ہیں۔

بلوچ عورت اب بہت باشعور ہے اپنے حقوق کا اسے ادراک ہے اور ان تمام زیادتیوں کو بھی جو کئی دہاہوں سے بلوچستان میں روا ہیں، اور کریمہ کے بہیمانہ قتل پہ بلوچ عورتیں مزید یکجا ہوئی ہیں سڑکوں پہ نکلی ہیں۔ اب ہر لڑکی اور ہر عورت کی آواز ہے کہ وہ کریمہ ہے۔

ساجد حسین اور کریمہ بلوچ بھی مکران سے تعلق رکھتے تھے۔ مکران بلوچستان کا دماغ ہے اور اس بار مکران کو ہر طرف سے کھلا ٹارگٹ بنایا گیا۔ بلوچ مہر و محبت وفا اور خلوص کی مٹی سے بنی قوم ہے لیکن وفا اور مہر کی روایات کو مارا جا رہا ہے۔ محبت کے بچوں کی جس طرح نسل کشی ہو رہی ہے اس کے خلاف کوئی باہر سے آ کر ہمیں نہیں بتارہا کہ آپ کو کون مار رہا ہے۔ پوری قوم باشعور ہے اور یہ جانتی ہے کہ ان کے ساتھ کس نے کیا کیا۔ نہ بلوچ کو انڈیا کی ضرورت ہے نہ یورپ کی نہ امریکہ کی نہ کسی اور پاور کی۔ بلوچ کو دوست چاہیے ہیں جو ان کا مسئلہ سمجھیں، بلوچ کی نفسیات کو بلوچ کے عشق اور معصومیت کو جانیں اور ان کی آواز اٹھانے میں ان کی مدد کریں۔ ان کی آواز بن جائیں۔

خلل پذیر بود ہر بنا کی می بینی
بجز بنائے محبت کہ خالی از خلل است
آنسووں کے ساتھ آپ کو اپنا ہمدرد سمجھنے والی بلوچ قوم کی بیٹی
افشین بلوچ

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail