زائر حرمین (3)


نو فروری کو ناشتے وغیرہ سے فارغ ہو کر مکۃ المکرمہ کے مقامات مقدسہ کی زیارت کا قصد کیا۔ ضروری سامان اور ایک عدد چھتری لے کر ہوٹل روم سے اتر کر ہوٹل سے متصل مین روڈ پر آ گئے۔ روڈ پر صبح سے رات گئے تک سیارۃ اجرہ یعنی کہ ٹیکسی موجود ہوتی ہیں۔ یہاں کی ٹیکسی یا کیب سروس کی دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں ٹیکسیوں پر یہ لکھا ہوتا ہے کہ آیا وہ مکہ مکرمہ کی ہیں یا مدینۃ المنورہ کی۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ان پر ایک عدد ٹیکسی رجسٹریشن نمبر بھی لکھا ہوتا ہے جو کہ بآسانی پڑھا جا سکتا ہے۔

ٹیکسی میں سوار ہونے سے پہلے قریب میں واقع شاپنگ سینٹر جا کر چیزیں الٹ پلٹ کر دیکھنے لگے اور اس سے قبل کہ ہم بڑے کچھ خریدنے یا نہ خریدنے کا فیصلہ کرتے، بچے ہمیں اشاروں اور ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں کھلونے کی طرف متوجہ کر کے قائل کرنے لگے کہ انہیں یہ دلوائے جائیں۔ کسی قدر مشکل سے انہیں اس مقصد سے ہٹایا اور ٹیکسیوں کی طرف متوجہ ہو گئے۔ ایک ٹیکسی والے سے سو ریال کرایہ طے ہوا اور ہم ٹیکسی میں سوار ہو گئے۔

سفر شروع ہوا تو چند منٹ بعد ہی مکہ کا کلاک ٹاور چٹیل پہاڑوں کی اوٹ سے جھانکتا نظر آیا۔ مکہ کے پہاڑ چٹیل ہونے کے باوجود اپنے اندر ایک جاذبیت، ایک حسن سموئے ہوئے ہیں۔ شفاف نیلے آسمان پر کہیں کہیں سفید بادل اور آسمان سے نظر نیچے اتارو تو گہرے بھورے، گہرے سرمئی اور کالے پہاڑ۔ چلتے چلتے ہم غار ثور کے دامن میں پہنچ گئے۔ غار ثور جہاں مکہ سے مدینہ ہجرت کے دوران حضور ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کے ہمراہ قیام کیا۔

ٹیکسی پارک ہوئی تو نیچے اتر کر جائزہ لینے لگے۔ پرجوش زائرین کا ایک اژدھام تھا جو اس وقت وہاں موجود تھا۔ پہاڑ کے دامن میں لگے واٹر کولر سے دو ایک بوتلیں بھریں اور پہاڑ پر چڑھنے کو قدم آگے بڑھا دیے۔ پہاڑ کی باقاعدہ چڑھائی سے پہلے ایک شیڈ لگا ہوا تھا جہاں لوگ سستانے کو بیٹھے ہوئے تھے۔ کچھ وہ لوگ بھی تھے جو پہاڑ پر چڑھنے کی سکت نہ رکھنے کے سبب اپنے ساتھیوں کے انتظار میں ایستادہ ہوئے تھے۔ بچوں کے سونے کا وقت ہوا چاہتا تھا سو وہ جس جس کے پاس تھے، اس کے ساتھ لگ کر سونے لگے۔

اب یہ صورتحال کچھ مشکل ہوتی نظر آئی کہ دو سوتے ہوئے بچوں کو اٹھا کر اتنی تیز دھوپ میں پہاڑ پر چڑھا جائے۔ گو کہ چھتری پاس تھی لیکن چھتری اور بچے کو بیک وقت سنبھالنا اور اوپر چڑھنا خاصا مشکل امر تھا۔ اور مناسب یہ بھی نہ لگا کہ ہم اکیلے ہی غار ثور کی زیارت کر آئیں اور بچوں کے والدین انہیں لے کر نیچے بیٹھے رہیں۔ سو طے یہ پایا کہ یہ مہم جوئی کسی اور دن یا کسی اگلے ٹرپ پر اٹھا رکھی جائے۔ چند منٹ پہاڑ کے دامن میں کھڑے ہو غار ثور کو اور دامن میں بیٹھے کبوتروں کو تکتے رہے اور پھر ٹیکسی کی جانب چل پڑے۔

اس سے اگلا قیام مسجد المشعر الحرام مزدلفہ پر ہوا۔ کچھ اور ٹیکسیاں بھی وہاں کھڑی تھیں اور ان کے سوار ہماری طرح مسجد کی طرف متوجہ تھے۔ ٹیکسی ڈرائیور کے مطابق یہ مسجد عموماً بند ہوتی ہے اور صرف ایام حج میں حجاج کے لیے کھولی جاتی ہے۔ عام دنوں میں کبھی کبھی صفائی ستھرائی کے لیے کھلتی ہے۔ جوتے اتار کر مسجد میں داخل ہوئے تو سامنے قطار اندر قطار ستون اور محرابیں نظر آئیں۔ ستونوں کے ساتھ سفید رنگ کے فلور / ٹاور اے سی نصب تھے۔ اندر سے مسجد بھی سفید رنگ کی تھی۔ کشادہ اور روشن۔ جلدی جلدی کچھ تصاویر بنائیں اور ایک بار پھر مسجد کے ڈیزائن پر غور کرنے لگی۔ اتنے میں مسجد کے سٹاف کی آواز پر وقت رخصت آن پہنچا۔ چند ساعتیں مسجد کے باہر گزار کر ایک بار پھر ٹیکسی میں سوار ہو گئے۔

اب کے نظر آنے والی مسجد مسجد نمرہ تھی۔ ڈرائیور نے بتایا کہ یہ مسجد بھی ایام حج میں ہی کھلتی ہے اور چونکہ آج بند ہے اس لیے گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ہی اس کا دیدار کر لیا جائے۔ یوں ہم چاہنے کے باوجود مسجد کو قریب سے نہ دیکھ سکے اور اگلی منزل کی جانب بڑھتے گئے۔

ہمارا اگلا سٹاپ جبل رحمت پر ہوا۔ جبل رحمت میدان عرفات میں واقع ہے اور روایات کے مطابق خلد سے نکالے جانے کے قریباً دو سو سال بعد حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہ السلام کی یہاں دوبارہ ملاقات ہوئی اور یہیں حضرت آدم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کی جو کہ قبول ہوئی۔ جبل رحمت کے دامن میں مختلف اشیاء کے سٹالز لگے ہوئے تھے اور اکا دکا زائرین خرید و فروخت میں مشغول تھے۔ جبل رحمت کی چوٹی پر جانے کے لیے پتھر کی سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں۔

آرام دہ سپورٹس شوز کے ساتھ سیڑھیاں چڑھنا مشکل نہ تھا۔ البتہ امی کو ایک دو بار چند ساعتیں رک کر سانس بحال کرنا پڑا۔ تب مجھے احساس ہوا کہ اس موقع پر پانی کی بوتل کیب میں چھوڑ کر نہیں آنی چاہیے تھی۔ بہرحال ایک دو وقفوں کے ساتھ ہم بآسانی اوپر پہنچ گئے۔ جبل رحمت پر بنے ایک چوکور ستون پر بڑے بڑے بورڈز لگے تھے۔ ان میں سے ایک بورڈ پر سعودی حکومت کے وژن دو ہزار تیس کے متعلق معلومات درج تھیں۔ ایک دوسرے بورڈ پر جبل رحمت سے متعلق کچھ ہدایات درج تھیں کہ یہاں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا۔

پہلے میں نے اس ستون کے چاروں طرف گھوم کر پہاڑ سے نیچے نظر آتے مناظر کو اپنی اور کیمرے کی نگاہوں میں محفوظ کیا۔ نیچے، میدان سے ادھر، پلانگ کے ساتھ لگائے گئے درختوں کی ہریالی واضح تھی۔ جس طرف نگاہ کی، وہیں دور دور تک درختوں کی قطاریں نظر آئیں۔ یہ عرب وہ عرب تو ہرگز نہ تھا جس کی تصویر ہم اپنے ذہنوں میں صحرائے عرب کی صورت بنائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ دن چڑھنے کے ساتھ ساتھ چوٹی پر میک شفٹ سٹال لگانے والے بھی اپنے اپنے سامان نکال کر فروخت کے لیے سجانے لگے۔ ہم واپسی کے لیے بڑھنے لگے۔ پہاڑ کی سیڑھیاں اترتے سمے میرے ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ سیڑھیوں کی تعداد گنی جائے۔ یوں واپسی کا یہ عمل دلچسپ بھی رہے گا اور کچھ معلوماتی بھی ہو جائے گا۔ قریباً ڈیڑھ سو سیڑھیاں تھیں۔

وہاں سے اتر کر جلدی جلدی ٹیکسی کی طرف بڑھی تا کہ پانی کی بوتل نکال کر واپس پہاڑ کی چوٹی پر چڑھا جائے اور سب کو پانی پلایا جائے لیکن سیڑھیوں تک واپس پہنچی تو دیکھا کہ باقی سب لوگ بھی آدھی سیڑھیاں اتر آئے ہیں اور اوپر جانے کا کوئی عملی فائدہ نہیں۔ ان کے اتر آنے پر پانی پلایا یا نہیں، یہ اب یاد نہیں۔ لیکن ایک بار پھر گاڑی کی طرف بڑھ گئی تا کہ بیک پیک سے ڈائری نکال کر سیڑھیوں کی تعداد نوٹ کر لی جائے مبادا ہوٹل پہنچنے تک بھول جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).