ریل کا انجن


وہ بڑی شان سے فراٹے بھرتا، سیٹیاں بجاتا، پلیٹ فارم کی جانب رواں دواں تھا۔ کیوں نا ہوتا، اس پر افشائے راز جو کیا گیا تھا کہ وہ کنبے کا سربراہ ہے۔ ریل گاڑی اور اس میں موجود مسافروں کی تمام تر حرکت تمھاری بدولت ہے۔ تمھارے زور بازو ہی پر تو منزلوں کا حصول ہے۔ جب تمھاری بدولت ریل گاڑی فراٹے بھرتی ہوئی، سرسبز کھیتوں میں سے گزرتی ہے تو فاصلوں کی شان بڑھ جاتی ہے اور یہ قضیہ کئی مسافروں کی محبتوں، ناتوں اور ان سے جڑی امیدوں کی امین ہیں۔

دیکھو تمھاری رفتار اور کارکردگی میں فرق آیا تو مسافروں کی اس نا امیدی کے اپرادھی صرف تم ہو گے۔ وقت کے پروں پر گداز، تند و تیز موسموں اور اس کی سختیوں میں اپنی تمنائے سروری کی چاہ نہیں رکھنی، بلکہ خودی کی موت اس لیے مناسب ہو گی کہ ریل کی پٹری کے قرب و جوار میں موجود بچوں کی مسکراہٹ کا باعث صرف تم ہو۔ بس ان کو دیکھ کے سیٹی ضرور بجانا۔ ارے بولنا مت! یہ ریل کی پٹری صراط مستقیم ہے۔ اس سے مت تجنا ورنہ کئی قیمتی جانوں کا ضیاع ہو گا اور کئی نسلیں اس غفلت کو بھگتیں گیں۔

یاد رکھنا! تمھاری ہر خواہش کی موت ہی تم سے جڑے ہر نفس کی امیدوں کی زیست ہے۔ ریل گاڑی کے ڈبوں کی معتبر، نگران اور محفوظ آغوش بھی تب تک ہی سلامت اور فاضل ہے، جب تک تمھاری غفلت کا سایہ ان پر نہ پڑے۔ مسافروں کا سکون اور بھروسا ان نا واقف حالات کا متحمل بالکل بھی نہیں ہو سکتا، جو تمھاری بے پروائی اور آرام سے جڑا ہوا ہے۔ تمھاری سبک خرامی پر سوالیہ نشان ریل گاڑی کی صلاحیتوں پر ہمیشہ کے لیے ایک بد نما کلنک بن کے رہ جائے گا۔

اپنی اچھی کارکردگی پر سینہ پھلائے، امیدوں کا بوجھ اٹھائے، منزل کی آس لگائے، دشوار گزار راستوں پر گامزن یہ معصوم انجن راستوں پہ رواں رہا۔ حد تو تب ہوئی کہ جب آرام گاہ پر رک کر بھی مسافروں کی خاطر ایندھن میں جلتا رہا، تا کہ انھیں موسموں، حالات، قرن اور اس سے جڑے صعوبتوں سے محفوظ رکھ سکے۔

بالآخر منزل آ گئی۔ ارے یہ کیا؟ کوئی اپنے پیاروں کی آمد پر شاد تھا تو کسی کو اپنے من میتوں سے ملنے کی بے چینی۔ کوئی اپنی مٹی کو پا کے سجدہ ریز تھا تو کوئی نئی منزلوں کا امین بن کے اسٹیشن پر حیران کھڑا تھا۔ کوئی ریل گاڑی کے ساتھ فوٹو بنا رہا تھا تو کوئی اس پر اپنے نام کی کندہ کنائی میں مشغول۔ کوئی سوشل میڈیا پر ریل گاڑی اور اس کے عمدہ مناجات کی تقویم بندی میں لگا ہوا تھا تو کوئی کمپنی کی فراہم کردہ سہولیات پر خورسند۔

منزل کی یہ سرد مہری اور طنزیہ اجنبیت کے سائے، اس کی سمجھ سے بالا تر تھے۔ حقیقت کی اس فطری بے پروائی اور غفلت کو دیکھ کر وہ دنگ رہ گیا۔ بالآخر اس کو تسلیم کرنا پڑا کہ نا تو وہ کسی خوض میں تھا اور نہ ہی کسی کی یادوں میں، نہ بچوں کے سمسیا میں، اور نا ہی کسی کہانی میں۔ وہ تو بس کنبے کا سربراہ تھا۔ اس کے ساتھ تھی تو ایندھن کی آگ، راستوں کی دھول، موسموں کی شدت کے تھپیڑے، وقت کی تکان اور گرد سے اٹے زمانے کی وہ بے رخی، جس میں خوف کی ایک عجیب سنسناہٹ تھی۔ آج اس موروثی تعلق پر بننے والی بے سہارا سی محبت، وجود کی حقیقت شناسائی کو تسلیم کرنے اور نئی مسافت کو طے کرنے سے سراسر قاصر تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).