پاکستان کی بیٹنگ: یہ مسئلہ تکنیک کا نہیں ہے


کرکٹ

ایسا تو نہیں ہے کہ پاکستان کے پاس کوئی پلان نہیں تھا۔ پلان تو ضرور تھا۔ مگر پلان اس قدر مدافعانہ اور پسماندہ تھا کہ کرکٹ 2020 کی بجائے 1980 کی دہائی کی جانب جاتی نظر آئی۔

قدیم کرکٹ میں کھیل کا تجزیہ کرتے ہوئے بنیادی طور پر کھلاڑی کے مائنڈ سیٹ کا تجزیہ کیا جاتا تھا اور ان عوامل کو مدِنظر رکھا جاتا تھا جو فیصلہ سازی کے وقت بولر یا بلے باز کے ذہن پہ اثر انداز ہوتے ہیں۔

جدید کرکٹ کی مارا ماری میں مائنڈ سیٹ کہیں پیچھے رہ جاتا ہے اور اعداد و شمار اس کی جگہ لے لیتے ہیں۔ تکنیک کی مین میخ زیرِ بحث لائی جاتی ہے اور سابقہ ریکارڈز کو مدِنظر رکھتے ہوئے آئندہ کارکردگی کی پیش گوئی کی جاتی ہے۔

یہاں بنیادی اہمیت تکنیک کو حاصل ہے۔ کب کریز کے اندر کھڑا ہونا ہے، کب بیک فٹ پہ جمنا ہے اور کب آگے بڑھ کر کھیلنا ہے۔ پھر یہ تکنیک مختلف کنڈیشنز میں مختلف طرح سے ایڈجسٹ بھی کرنا پڑتی ہے۔

کرٹ

اس میں دو رائے نہیں کہ بیٹنگ کوچ یونس خان نے کھلاڑیوں کی تکنیک پہ کافی کام کیا ہے۔ بالخصوص عابد علی کی اننگز سے یہ واضح ہوتا ہے کہ تکنیکی اعتبار سے وہ بہت تیار ہو کر آئے تھے۔

لیکن تکنیک کی اپنی جگہ ہے اور ذہنی کیفیت کی اپنی۔ پاکستانی بلے باز کس ذہنی کیفیت میں تھے اور کیا کرنا چاہ رہے تھے، یہ کسی گرو یا کوچ کے سکھائے ہوئے علوم سے ماورا ہے۔ پہلے دو سیشنز میں تو یہ واضح ہی نہیں ہو پایا کہ پاکستانی کھلاڑی کس پلان کی پیروی کر رہے تھے۔

جب مخالف ٹیم اتنی بڑی سبقت حاصل کیے بیٹھی ہو تو بیٹنگ ٹیم کی پلاننگ نہ صرف سبقت مٹانے پر مرکوز ہوتی ہے بلکہ دفاع اور بقا بھی بنیادی اہداف کی جگہ لے لیتے ہیں۔ دوسرے دن کے آخری سیشن میں پاکستان نے بھرپور مزاحمت دکھائی اور سارا دھیان بقا پر مرکوز کیے رکھا۔

یہی اپروچ آج کے پہلے سیشن کے پہلے گھنٹے میں بھی دیکھنے کو ملی۔ عابد علی اور محمد عباس نے اپنے اپنے اینڈ کی وکٹ سنبھالے رکھی اور سکور بورڈ کے وکٹ کالم کو خطرے کی حد سے باہر رکھا۔

گڑبڑ تب ہوئی جب کیوی بولرز پر یہ راز کھلا کہ پاکستانی بلے باز صرف دفاع اور بقا میں دلچسپی رکھتے تھے۔ جارحیت تو دور، مثبت پسندی بھی نام کو نہ تھی اور نہ ہی کسی کو سکور بورڈ کے خسارے سے کوئی سروکار تھا۔

کرکٹ

یہ پلان بجائے خود ایسا برا نہیں تھا جیسے برے نتائج کا پیش خیمہ بنا۔ ٹیسٹ کرکٹ میں صبح کے سیشن کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ وکٹ میں رات بھر کی نمی موجود ہوتی ہے۔ حریف بولرز تازہ دم ہوتے ہیں اور نئے بلے باز کے لیے زندگی خاصی دشوار ہوتی ہے۔

عابد علی اور محمد عباس نے بجا طور پر وکٹ کے آگے بند باندھ ڈالے اور یقینی بنایا کہ پہلے سیشن کی اس مشکل وکٹ پر کسی نئے بلے باز کو کیوی امتحان کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ مگر کیا صرف مڈل آرڈر کو مہلت دینا ہی کافی تھا؟

عابد علی پورے کنٹرول میں تھے۔ وہ کریز کو بخوبی استعمال کر رہے تھے اور جیمی سن کے باؤنس سے ہم آہنگ ہونے کے لیے بیک وقت بیک فٹ اور فرنٹ فٹ کا توازن برقرار رکھ رہے تھے۔ مگر کیا ان کی ذمہ داری صرف اسی پہ موقوف تھی؟

کیونکہ جب یہ پارٹنرشپ مزاحمت کی تصویر بنی ہوئی تھی تب یہ ٹیم ایک اہم نکتہ بھول بیٹھی کہ کریز پر رکنے کا مقصد صرف مزاحمت ہی نہیں ہوتا بلکہ رنز بھی حاصل کرنا ہوتے ہیں اور سکور بورڈ کو بھی چلائے رکھنا ہوتا ہے۔

سکور بورڈ کا رک جانا کبھی بھی کسی ٹیم کے لیے اچھا شگون نہیں ہوتا۔ اس سے حریف بولنگ اٹیک کا خون سیروں بڑھ جاتا ہے۔ جیمی سن اننگز کے آغاز سے ہی ناقابلِ تسخیر ثابت ہوئے۔

ایسے حالات میں بیٹنگ ٹیم کی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ لمبے اہداف ذہن میں رکھنے کی بجائے صرف سٹرائیک بدلنے پر توجہ دیں تاکہ سکور بورڈ چلتا رہے اور دباؤ بھی یکسر بڑھنے نہ پائے۔

مگر یہاں پاکستان کی بنیادی حکمتِ عملی وکٹ کا بچاؤ تھا۔ اور یہ پہلے گھنٹے میں کافی حد تک کامیاب بھی رہی مگر عابد علی کے گرنے کی دیر تھی کہ ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے اور قطار در قطار وکٹیں ضائع ہونے لگیں۔

اگر فہیم اشرف اور محمد رضوان بھی ایسے بے خوف نہ کھیلتے تو میچ کا توازن بالکل برعکس ہوتا اور اننگز کی شکست کے بادل سر پہ منڈلا رہے ہوتے۔ پاکستان اس پارٹنر شپ کی بدولت نری رسوائی سے تو بچ گیا مگر نتیجہ ابھی بھی کچھ مختلف نہیں لگ رہا۔

2020 کے ہنگاموں کے بیچ اگر کوئی چالیس سال پرانی کرکٹ کھیل کر جیت کا خواب دیکھ رہا ہو تو اس سے صرف ہمدردی ہی کی جا سکتی ہے۔ اور یہ ہمدردی بھی صرف آپ کے شائقین کر سکتے ہیں، مخالفین نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp