چودہویں صدی کا چینی مفکر اور ایک ترک ہم عصر


بات سے بات اس طرح نکلتی ہے کہ منزلوں کا نشاں نہیں ملتا۔ ایک ایسا مقام بھی آتا ہے جہاں مصطفیٰ زیدی نے ’لٹ گئی شہر حوادث میں متاع الفاظ‘ کا مضمون باندھا تھا۔ خیر گزری کہ دیدہ تر کی شبنم ابھی خشک نہیں ہوئی، متاع احساس سلامت ہے اور قلم اپنے منصب سے دست بردار نہیں ہوا۔ اتنا ضرور ہوا کہ لاہور، لاڑکانہ اور اسلام آباد پر اتری دھند سے مجروح بصارت نے دور قریب کے دیاروں کی سیاحی کا ارادہ کر لیا ہے۔ سیاحت اور جلا وطنی کا فرق تو آپ خوب سمجھتے ہیں۔ جرمن ادیب تھامس مان پر یہ ماجرا کچھ مختلف رنگ میں گزرا۔ 1875 میں جرمن شہر لیوبیک میں پیدا ہونے والے تھامس مان نے پہلی عالمی جنگ سوئٹزرلینڈ میں گزاری۔ جنگوں کے درمیانی برس یورپ کے مختلف شہروں میں گزارتے ہوئے 1939ء میں امریکا چلا گیا۔ جنگ ختم ہوئی تو تھامس مان نے تقریر و تحریر میں اہل جرمنی کے ’اجتماعی جرم‘ کا ذکر شرو ع کر دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ ہٹلر کے جرمنی میں لکھے جانے والے تمام ادب سے ’خون اور جرم‘ کی بو آتی ہے۔ یہ نقطہ نظر جرمنی کے ان حلقوں پر سخت گراں گزرا جنہوں نے نازی اقتدار کے بارہ برس اپنے وطن میں رہ کر گزارے تھے جب تھامس مان اور ہٹلر کی دہشت میں بحیرہ اوقیانوس حائل تھا۔ جرمن ادیب فرینک تھیس نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ جرمن قوم کے ’جرم‘ کے بارے میں بات کرنے کا حق صرف انہیں پہنچتا ہے جنہوں نے نازی استبداد کا براہ راست سامنا کیا۔ اس ضمن میں ’داخلی مہاجرت‘ (Internal émigré) کی اصطلاح متعارف کرائی گئی۔ یہ بحث کسی نہ کسی رنگ میں آج تک جاری ہے بلکہ 60ءکی دہائی کے سوویت یونین میں ریاستی بیانیے سے انحراف کرنے والے ادیبوں مثلاً بورس پاسٹرناک کو Internal émigré قرار دے کر شہری حقوق سے محروم کرنے کا مطالبہ بھی کیا جاتا تھا۔ اگلے روز کچھ اس طرح کی باتیں محترم عمران خان نے بھی چکوال میں کی ہیں۔ عزیزو، یہ بڑے لوگوں کی باتیں ہیں۔ ہم آپ تو افتخار عارف کے پانچ لفظوں میں سما جاتے ہیں، ہم کیا، ہماری ہجرت کیا….
تو طے یہ پایا کہ آج چین اور ترکی کا ذکر رہے۔ چین سے ہماری دوستی ہمالیہ سے بلند، سمندر سے گہری اور شہد سے میٹھی ہے۔ ترکی سے ہمارے رشتے تاریخی بھی ہیں اور اب تو ترک رہنما طیب اردوغان کے طرز حکومت نیز ترک ڈراموں نے خاص اہمیت اختیار کر لی ہے۔ چودہویں صدی کے چین میں فلسفی، سیاست دان اور شاعر لیو جی (Liu Ji) ہمارے حافظ شیراز کے ہم عصر تھے۔ لیو جی 1311 سے 1375 تک جیے اور حافظ شیراز کی حیات 1315 سے 1390 پر محیط رہی۔ لیو جی نے ’بندر والا‘ کے نام سے ایک حکایت لکھی ہے۔ خلاصہ کچھ یوں ہے کہ ریاست چُو میں ایک بوڑھے شخص نے بہت سے بندر پال رکھے تھے۔ ہر صبح وہ اپنے بندروں کو باڑے سے نکالتا اور سب سے بوڑھے بندر کو حکم دیتا کہ ان سب کو لے کر پہاڑوں پر چڑھ جاﺅ اور درختوں سے پھل جمع کر کے لاﺅ۔ شام ڈھلے جب بندر پھلوں سے لدے پھندے واپس آتے تو بوڑھا اس رسد سے اپنا حصہ وصول کر کے انہیں پھر سے باڑے میں بند کر دیتا۔ پھل لانے میں کوتاہی کرنے والے بندر کو کوڑے مارے جاتے۔ کسی بندر کو اف کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ ایک روز ایک کم عمر بندر نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ کیا یہ درخت اس بوڑھے نے اگائے ہیں؟ جواب ملا کہ نہیں، خودرو پیڑ ہیں۔ اس نے پھر پوچھا کہ کیا ہم اس بوڑھے کی اجازت کے بغیر اپنا پیٹ نہیں بھر سکتے۔ اسے بتایا گیا کہ ایسا بالکل ممکن ہے۔ سدھائے ہوئے بندروں نے اس امکان پر کچھ غور کیا۔ لیو جی لکھتے ہیں کہ اس رات جب بندر والا سو رہا تھا، سب بندر باڑے کی دیوار پھلانگ کر باہر نکل گئے اور پھر کبھی واپس نہیں آئے۔
مہمت مورات ایلدان (Mehmet Murat ildan) جدید ترکی کے فلسفی اور ادیب ہیں۔ 1965 میں پیدا ہونے والے ایلدان کا قصہ دلچسپ ہے۔ الیکٹرک انجنیئرنگ کی تعلیم پا رہے تھے کہ اچانک راستہ بدل کر اکنامکس کا مضمون اختیار کر لیا۔ 1997 میں برطانیہ کی Essex یونیورسٹی سے معاشیات میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی اور پھر اکنامکس کو خیرباد کہہ کر ادیب بننے کا فیصلہ کر لیا۔ اب تک سات ڈرامے اور درجنوں کہانیاں لکھ چکے ہیں۔ مورات ایلدان کا خاص موضوع آمریت ہے۔ ان کے کردار اس ضمن میں پتے کی باتیں کہتے ہیں۔ کچھ جواہر پارے آپ کی نذر ہیں۔
آمر کی طاقت کے دو سرچشمے ہیں، اس کا اپنا مریض ذہن اور آسانی سے دھوکہ کھا جانے والے جاہل عوام کا ہجوم۔ / آمریت کی حمایت کرنے والے آمریت سے بھی زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ / جب ایک آمر رخصت ہوتا ہے تو دنیا میں آکسیجن کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ / ایک باوقار قوم اور ننگ خلق آمریت اکٹھے نہیں چل سکتے۔ ان میں سے ایک کو شکست ہوتی ہے۔ / آمریت کے دعوﺅں پر یقین کرنے والا احمقوں کا بادشاہ ہوتا ہے۔ / زلزلے اور آمریت کا نتیجہ تباہی ہوتا ہے۔ زلزلے سے بچنے کے لئے مضبوط عمارت کی ضرورت پڑتی ہے اور آمریت سے بچنے کے لئے تعلیم یافتہ اور باشعور ذہن درکار ہوتا ہے۔ / جہاں لوگ اپنے سائے سے بھی خوفزدہ نظر آئیں، وہاں یقیناً آمریت کا راج ہوتا ہے۔ / آمریت کا کوئی ارفع مقصد نہیں ہوتا۔ / معاشرے کے جاہل اور بے شعور گروہ آمریت کے گن گاتے ہیں۔ باشعور اور قابل احترام ذہن آمریت کی مزاحمت کرتے ہیں۔ / جب کوئی قوم اپنا ملک کسی بے وقوف شخص کو سونپ دیتی ہے تو تاریخ بھی ایسی قوم کو بے وقوف ہی شمار کرتی ہے۔ / آمریت سے نجات پانا بے حد آسان ہے۔ اس کے لئے آمریت سے تعاون ترک کرنا پڑتا ہے۔
مورات ایلدان کو پڑھتے ہوئے بوڑھے چینی فلسفی لیو جی کی حکایت کے بندر یاد آتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).