وزیراعظم کس کو دھمکیاں دیتے ہیں؟


یہ کوئی راز نہیں رہا کہ اٹھارہ کے الیکشن کو ”مینیج“ کیا گیا تھا۔ لیکن یہ منیجمنٹ یا بندوبست سیدھا سادہ یعنی ایک فریق کے حق میں نہیں تھا۔ کچھ ایسا جادو کیا گیا کہ جو ہار گئے وہ حیران تھے اور جو جیت گئے وہ حیران ہونے کے ساتھ ساتھ پریشان بھی تھے۔ کیونکہ ان کو حکومت دینے کے باوجود اختیار نہیں دیا گیا تھا۔ ان کے ساتھ ساتھ سابقہ دعویداروں کو اپنا اپنا صوبہ بھی مل گیا تھا۔ یعنی پیپلز پارٹی کو سندھ اور نون لیگ کو پنجاب۔

جس کی وجہ سے وہ دونوں اسمبلیوں میں ائے، حلف اٹھا گئے اور یوں بندوبست کو قانونی چھتری مل گئی۔ اگرچہ بندوبست کرنے والوں کی رابطوں اور وعدوں کے باوجود، عمران خان کی مشہور زمانہ ان ڈپرز کی وجہ سے شہباز شریف مسلسل اوٹ ہوتے رہے۔ پنجاب نہیں ملا اور یہی کچھ چوہدریوں کے ساتھ ہوتا رہا۔ لیکن اس بندوبست میں اصل ہاتھ مولانا فضل الرحمان اور قوم پرست جماعتوں خصوصاً اے این پی اور پاکستان ملی عوامی پارٹی کے ساتھ ہوا۔ ’باپ‘ بنانے کے باوجود اختر مینگل صاحب کو پھر بھی کچھ نہ کچھ دے دیا گیا تھا۔

لیکن سب سے زیادہ مشکل میں کھلاڑی خود تھا، جو حقیقی کھلاڑیوں کے ہاتھ چڑھ گیا تھا۔ اسے چومکھی جنگ لڑنی تھی، جو اس کے لیے واٹرلو سے کم نہیں تھی، کیونکہ اس نے اقتدار کی خاطر اپنے دوست، پارٹی ممبرز، نظریہ (اگر کوئی تھا) اور شہرت، غرض یہ کہ سب کچھ داؤ پر لگا دیا تھا، لیکن اسے اقتدار کی بجائے تنی ہوئی رسی دی گئی تھی، جس پر اس نے چلنا بھی تھا اور چلنا سیکھنا بھی تھا۔

الیکٹیبلز اس کے ہم رکاب کردیے گئے تھے اور انوسٹرز اس کے مددگار۔ لیکن قوم اس کے دعوؤں پر یقین کر کے معجزے کی منتظر تھی، اور وہ خود مینڈک تول رہا تھا۔ کس کس کو خوش کرنا تھا؟ کہاں کہاں اپنی مرضی کرنی تھی اور کہاں کہاں ’ان کی‘ ؟ کس کس کو احسانات کا صلہ دینا تھا، اور کس کس کو نقد قیمت ادا کرنی تھی، ایک مسئلہ تھا۔ دوسرا مسئلہ حزب اختلاف کو اصل مالکان سے دور رکھنا تھا۔ اور ساتھ ساتھ خود کو مضبوط بھی کرنا تھا، کیونکہ مانگے تانگے کی سواریاں جس اڈے سے بٹھائی گئی تھیں، انہوں نے کسی منزل پر پہنچنا نہیں تھا، بس سیر سپاٹا اور کچھ خریداری کرنی تھی۔ پھر بہت ساری احتیاطی تدابیر کے باوجود کابینہ میں اتنے طاقتور اور پرانے رابطہ کار موجود تھے، جن سے ہر وقت خطرہ الگ تھا۔ خارجہ پالیسی اقتصاد عوامی امنگیں پارٹی منیفیسٹو سب گئے گندے پانی کے جوہڑ میں۔

مولانا اور قوم پرستوں نے شروع دن سے اسمبلی میں نہ بیٹھنے کا مشورہ دیا تھا، لیکن کسی آسرے نے نون لیگ کو روکے رکھا۔ وہ تو تب اس کو احساس ہوا جب بیچ چوراہے ساری ملاقاتوں کی ہانڈی وزیراعظم اور اس کے مشیروں نے پھوڑ ڈالی۔ ایکسٹنشن میں ووٹ دیا تو رات کو ٹی وی مذاکرے میں فوجی بوٹ سے اس کا شکریہ ادا کیا گیا۔

نواز شریف باہر شہباز شریف اپنے بیٹے سمیت جیل پہنچ گئے۔ تو حزب اختلاف اور بندوبستی دونوں آمنے سامنے آ گئے۔ تب نواز شریف نے اپنی پہلی بیرونی تقریر میں کھلم کھلا کہا کہ ہماری لڑائی عمران خان سے نہیں وہ تو محض مہرہ ہے۔ اور یوں وزیراعظم کو حکومت میں آنے کے بعد درحقیقت پہلی کامیابی ملی، جب اس نے حزب اختلاف کا رابطہ اور اعتماد دونوں بالادست قوتوں کے ساتھ توڑ ڈالا۔ اس کے بعد گھمسان کی رن پڑی جس میں بظاہر حکومتی پروپیگنڈے کا پلا بھاری دیا کیونکہ پہلی بار حزب اختلاف کی بجائے پردہ نشینوں کے نام گونج رہے تھے۔

حزب اختلاف کو غداری کے تمغے اور دشمن کے بیانیے کے طعنے تھوک کے حساب سے دیے گئے لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ دبنے اور ڈرنے کی بجائے مقدس ناموں کے مالے اسی تواتر سے جپے جانے لگے جس تواتر سے انہیں خاموش کرانے کی کوششیں کی گئیں۔ حکومت سمجھتی رہی کہ ایک صفحہ قربتیں مزید بڑھ گئیں اب نوکری پکی ہے لیکن حکومت بھول گئی کہ اس صفحے پر صرف دو تین شخصیات نہیں قومی مفادات بھی داؤ پر لگی ہیں۔

مشرف کو مشورہ دیا گیا تھا کہ چوہدری افتخار دوسری دفعہ صدارتی دورانئے کو قانونی چھتری نہیں دے گا اسے رخصت کریں اور چوہدری افتخار کو بتایا گیا کہ آپ کو بلایا جائے گا لیکن آپ اکیلے نہیں، ڈٹے رہنا ہے۔ کیونکہ ادارے شخصیات سے اہم ہیں۔

سچ ہے کہ وزیراعظم با اختیار نہیں ہے۔ لیکن یہ سچ نہیں کہ وہ کسی کے ساتھ ایک پیج پر ہے۔ کیونکہ اگر وہ واقعی ایک پیج پر ہوتا اور مینیجرز الیکشن مینیج کرتے، تو پھر ان کو سادہ اکثریت دلانا کوئی مسئلہ تھا؟ مینیجرز کے سامنے وزیراعظم کے رشتے، تعلقات، سابقہ تقاریر ایک ڈوسئیر کی شکل میں ہر سمے میز پر موجود تھے۔ اس لئے انہوں نے الیکشن اور حزب اختلاف کے ساتھ ساتھ ان کو بھی مینیج کیا۔ ان کو وزیراعظم کی شکل میں ایک ایسی بارگیننگ چپ چاہیے تھا، جس کو وہ جب چاہے، اگے کرے، جب چاہے پیچھے مورچوں میں صلاح مشورے کی خاطر بلا لے۔

وزیراعظم صاحب کے قریبی رشتہ داروں کی سیکورٹی کلیئرنس نہ ہونے کی وجہ سے سرکاری گھر کو ’یونیورسٹی‘ قرار دیا گیا۔ ان کے مین فنانسرز کو نا اہل کر کے دور کیا گیا۔ پارٹی کے اندر سے متبادل قیادت پر غور کیا گیا۔ ایکسٹنشن اور پیٹف کی قانون سازی کے دوران حزب اختلاف کا شکریہ ادا کرنے کی بجائے ان کی تضحیک اس پس منظر میں تھی، کیونکہ دونوں دفعہ تعاون حکومت نے نہیں مانگی بلکہ مینیجرز کے لئے تھی۔ لیکن مینیجرز اور حزب اختلاف کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکی، کیونکہ جب بھی حزب اختلاف اور مینیجرز کے درمیان کوئی رابطہ ہوا یا تعاون کی گئی حکومت نے اس پر خاموش رہنے کی بجائے، اسے حزب اختلاف کے لئے شرمندگی اور مینیجرز کے لیے درد سر بنا دیا۔ جس کی بناء پر بات مقدس ناموں کی مالا جپنے تک پہنچی۔ اگر حکومت یہ پالیسی اختیار نہ کرتی تو مقدس ناموں کی تسبیح یوں سر بازار دانہ دانہ نہ ہوتی۔

جب وزیراعظم صاحب کہتا ہے کہ میرا سب کچھ ریکارڈ ہوتا ہے۔ تو وہ فخر کرتا ہے یا بے بسی ظاہر کر کے ریکارڈ کرنے والوں کو طشت از بام کرتا ہے؟ جب وہ کہتا ہے کہ پولنگ ختم ہونے کے بعد خواجہ آصف نے آرمی چیف کو فون کر کے کہا تھا میری مدد کرو مجھے الیکشن میں ہرایا جا رہا ہے۔ تو وہ خواجہ آصف کی تضحیک کرتا ہے یا وہ بھی حزب اختلاف کی طرح آرمی چیف پر الیکشن میں مداخلت کا الزام لگاتا ہے؟ جب وہ نواز شریف کو جنرل جیلانی اور ضیاء الحق کے طعنے دیتا ہے تو کیا وہ آرمی کی نیک نامی کرتا ہے؟

جب وہ بار بار کہتا ہے کہ میں منتخب وزیراعظم ہوں، تو خود کو یاد دہانی کراتا ہے یا کسی اور کو؟ جب وہ کہتا ہے مجھے بلیک میل کرتے ہیں، میں ایک ایک کو دیکھ لونگا۔ میں کسی کو این آر او نہیں دوں گا۔ یہ سب چور ہیں تو وہ ضدی بچے کی طرح بار بار ایک بات دہراتا ہے یا کسی کو جواب دیتا ہے؟ جب وہ کہتا ہے کہ یہ کرسی چھوڑ دوں گا لیکن این آر او نہیں دوں گا، تو کس سے مخاطب ہوتا ہے؟ حزب اختلاف سے، عوام سے یا جنہوں نے کرسی دلائی ہے؟

کیونکہ حزب اختلاف تو چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ وہ این آر او نہیں استعفیٰ مانگ رہے ہیں۔ جب وہ کہتا ہے کہ حزب اختلاف فوج کو کہہ رہی ہے کہ میری حکومت کا تختہ الٹ دے تو وہ ایک صفحے کی بات کرتا ہے یا الگ صفوں کی؟ جب وہ کہتا ہے کہ جس نے ان کو ان این آر دیا وہ ملک سے غداری کرے گا، تو کون ہے جو وزیراعظم صاحب کے ہوتے ہوئے ’این آر او‘ دے سکتا ہے یا دے گا؟

ان حالات میں وزیراعظم صاحب کی تقریر کا لب لباب یہ ہوگا۔ چونکہ میں ان چوروں ڈاکوؤں کو این آر او نہیں دینا چاہتا تھا، اس لئے میں ائین کے دفعہ فلاں اور فلاں کے تحت اسمبلیاں توڑ کر نئے انتخابات کا اعلان کرتا ہوں۔ یوں اگلے انتخابات میں ان کے پاس ایک بار پھرتے این آر او کا منتر ہوگا۔

شازار جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شازار جیلانی

مصنف کا تعارف وجاہت مسعود کچھ یوں کرواتے ہیں: "الحمدللہ، خاکسار کو شازار جیلانی نام کے شخص سے تعارف نہیں۔ یہ کوئی درجہ اول کا فتنہ پرور انسان ہے جو پاکستان کے بچوں کو علم، سیاسی شعور اور سماجی آگہی جیسی برائیوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ یہ شخص چاہتا ہے کہ ہمارے ہونہار بچے عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی، غوث بخش بزنجو اور فیض احمد فیض جیسے افراد کو اچھا سمجھنے لگیں نیز ایوب خان، یحییٰ، ضیاالحق اور مشرف جیسے محسنین قوم کی عظمت سے انکار کریں۔ پڑھنے والے گواہ رہیں، میں نے سرعام شازار جیلانی نامی شخص کے گمراہ خیالات سے لاتعلقی کا اعلان کیا"۔

syed-shazar-jilani has 127 posts and counting.See all posts by syed-shazar-jilani