زرد موسم کے گلاب: اردو زبان میں عربی ادب کا مطالعہ کیجئے اور حظ اٹھائیے


قطری ناول نگار نورہ فرج کا عربی ناول ’ماء الورد‘ ایک دلچسپ تاریخی فینٹسی ہے جو آپ کو 319 ہجری کے ایک عرب شہر ’لظی‘ میں لے جاتا ہے جو آج کی دنیا سے قطعی طور پہ مختلف دنیا ہے۔ اس ناول کا ترجمہ اردو زبان میں ’زرد موسم کے گلاب‘ کے عنوان سے عبید طاہر قاضی نے کیا ہے جو ریڈیو قطر کے پروڈیوسر اور ریڈیو قطر کی ایک دلکش آواز ہیں۔

لیلیٰ جو اس ناول کا مرکزی کردار ہے ایک حسین عورت ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرے کا ایک ذہین و فطین فرد بھی ہے۔ اسے خوشخطی میں کمال حاصل ہے۔ کتابوں کے نسخے لکھنے کی وجہ سے ہی وہ عام عرب عورتوں سے زیادہ با علم بھی ہے اور حساس بھی۔ وہ اپنی جذباتی کشمکش کے ساتھ شہر کے حالات و واقعات پہ بھی گہری نظر رکھتی ہے۔ ناول کی کہانی عشق، شاعری، بہادری اور ذہانت کے گرد گھومتی ہے۔ اپنی شریر طبیعت کی وجہ سے وہ کیسے تاریخی واقعات میں چھوٹی موٹی ردو بدل کر کے حظ اٹھاتی ہے۔ یہ بات قاری کو تاریخی واقعات کے بیان پہ غور کرنے کے لئے اکساتی ہے اور تاریخ جاننے کے لئے وسیع مطالعے اور تقابلی جائزے کی ترغیب دیتی ہے۔

ناول کے لئے مصنفہ ایک منفرد اسلوب اپناتی ہیں۔ جسے embedded narrative کہا جا تا ہے۔ مصنفہ دو کرداروں میں واحد متکلم صیغہ استعمال کرتے ہوئے کہانی آگے بڑھاتی ہیں۔ یوں ناول میں ابواب کی واضح تقسیم نظر آتی ہے۔ ایک باب لیلیٰ بیان کرتی ہے تو دوسرا اس کا محبوب عابد۔ یوں قاری کو کیمرے کی آنکھ سے دیکھنے اور منظر بدلنے کا سا تاثر ملتا ہے۔

noora faraj

نورہ فرج آج کے ڈیجیٹل دور میں جب ایسی کہانی بیان کرتی ہیں جہاں ابلاغ کے ذرائع مفقود تھے، جہاں سفر گھوڑوں پہ کیا جاتا تھا، جہاں پیغامات کی ترسیل کے لئے کئی دن اور مہینے درکار ہوتے تھے، جہاں مکان کچے تھے۔ وہ قاری کو اپنے ساتھ اس زمانے کی گلیوں اور بازاروں میں لے کے چلتی ہے تو قاری انوکھی مسرت محسوس کرتا ہے۔ اس تصوراتی دنیا میں مصنفہ حقیقت بیان کر نے کے سے انداز میں تخیلاتی کردار بناتی اور انھیں مختلف حالات و واقعات سے گزارتی ہے جو عقل کو حیران کیے دیتے ہیں۔ اس ناول میں مصنفہ ایک ایسے قدیم قلعے کا خاکہ پیش کرتی ہے جس کے نیچے سات منزلہ تہہ خانہ ہے۔ قلعے کی ہر منزل پہ آزمائش ہے، خوف ہے اور بھول بھلیاں ہے جہاں سے نکلنا ممکن نہیں مگر کہانی کا کردار عابد تمام منزلیں عبور کر کے سونے کے خزانے تک پہنچ جاتا ہے۔

لیلیٰ اپنے شہر لظی کے حالات کچھ یوں بیان کرتی ہے :

”تاجر علاقے کے پولیس سربراہ یعلی بن الجمیح بن المغیرہ کو آدھی زکوٰۃ دیا کرتے۔ جبکہ باقی آدھی وہ ادا ہی نہ کرتے تھے کہ یہ آدھی دوسری آدھی پہ بھاری ہے۔ بیت المال کی سرگرمیاں ہمارے یہاں تقریباً معطل تھیں، صرف ایک کلرک اور ایک ملازم تھا۔ ذمہ داران نہ زکات مانگتے نہ اس کی یاد دہانی کراتے تھے۔ اور لوگ بھی بھول بھال گئے۔ چند ہی افراد ہوں گے جنھیں یاد تھا کہ زکوٰۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ زکوٰۃ کا نظام معطل تھا۔ رشوت عام تھی بلکہ یوں کہیے کہ چنبیلی کی بیل کی طرح مکانات پر پھیلی ہوئی تھی۔“

نورہ فرج ہمیں عرب کے معاشرے میں جہاں بدعنوانیوں کی جھلک دکھاتی ہیں وہیں عربوں میں کتاب پڑھنے، کتابوں کے نسخے ترتیب دینے، تحریروں کے نادر نمونے حاصل کرنے، اور دیگر کئی معاملات میں عربوں کی ذہانت اور مہارت کی جھلک بھی دکھاتی ہیں۔ اس قدیم دور میں لاشوں کا پوسٹ مارٹم کرنے کی تکنیک عربوں میں خاصی عام محسوس ہوتی ہے۔ ’قسورہ‘ علم الاعضاء پہ تحقیق کرنے کا شوق رکھتا ہے۔ وہ محض بیس سال کی عمر میں ایک کامیاب اور نفیس جراح بن جاتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ ایک دن وہ انسان کے دل کی جگہ کتے کا دل لگانے کا میں کامیاب ہو جائے گا۔

جب لیلیٰ اپنے محبوب عابد کی گمشدگی پہ غمزدہ ہوتی ہے تو قسورہ اسے کہتا ہے۔ ”اگر عابد مر گیا تو اس کی لاش لے کر آنا میرے پاس۔ میں اس کا سینہ چیر کے اس کا دل نکالوں گا اور پھر اسے زندہ کر کے تمہیں لوٹا دوں گا۔“ قسورہ اس کا ہمدرد دوست ہے۔ مرد اور با شعور عورت کی دوستی کا ذکر ذہن سے عربوں کی قدامت پسندی کا تصور زائل کر دیتا ہے۔ مرکزی کردار لیلیٰ بذات خود ایک با کردار اور ذہین خاتون کے طور ابھر کر سامنے آتی ہے اور دقیانوسی، جاہل اور آہ و بکا کرنے والی عرب خواتین کا عمومی تاثر بدل کے رکھ دیتی ہے۔

ایک جگہ وہ ایک سنکی حاکم کا ذکر کرتی ہیں جس نے حکم دے رکھا تھا کہ۔ ”محبت کی جڑ کو تلاش کیا جائے۔ خفیہ اہلکار رات میں چھپ چھپ کر عاشقوں کو پکڑنے لگے۔ انھیں مارنے لگے اور ان کا پوسٹ مارٹم کرنے لگے کہ دیکھا جائے محبت آتی کہاں سے ہے۔ مفتی نے اس ضمن میں فتویٰ بھی دے ڈالا۔ عاشق مخبروں کے ڈر سے ا[پنی محبت چھپانے لگے۔“

مصنفہ انسان کی وحشت انگیزی پہ حیران ہوتی ہے۔ وہ کسی کے قتل پر معاشرے کی عمومی بے حسی پر بھی سوال اٹھاتی ہے۔ ”میں یہ سوچ رہی تھی کہ آخر اخیفش کا اصل قاتل تاحال منظر عام پہ کیوں نہیں آیا؟ ایسے کیسے ہو سکتا ہے کہ قاتل لوگوں کے درمیان گھومتا پھرتا رہے اور انھیں اس کا پتہ نہ چلے؟ کیا انھیں کسی چہرے میں قاتل کی گھبراہٹ نظر نہیں آئی؟ جرم کی علامتیں کیسے چہرے پہ نہیں جھلکتیں؟ یا پھر یہ دہشت کی انتہا تھی کہ شہر کے سبھی لوگ ایک دوسرے کو جانتے تھے؟“ ۔

گو کہ ناول کی کہانی گزرے دور کے حالات و واقعات بیان کرتی ہے مگر آج بھی کئی اعتبار سے نہ صرف عرب بلکہ دنیا کے دیگر معاشروں سے ہم آہنگ محسوس ہوتی ہے۔ خلیجی عرب مصنفین میں نورہ فرج کی مذکورہ تحریر اپنے انفرادی انداز کی وجہ سے نمایاں اور ممتاز ہے۔

ترجمہ واحد ذریعہ ہے کہ ایک زبان کی تخلیق کو دیگر زبانوں اور ثقافتوں سے بھی متعارف کروایا جائے۔ ترجمہ تحریر کرنے کے لئے محض زبان کا جاننا ہی ضروری نہیں بلکہ مصنف کے لب و لہجے اور اس کے انداز کو سمجھنا، اس کے نقطہ نظر کو اسی کے انداز میں دوسری زبان میں ڈھالنا اور سب سے بڑھ کر جس زبان سے ترجمہ کیا جا رہا ہے اس کے اسرار و رموز، اشاروں کنایوں کو سمجھنا، اور تہذیبی اقدار اور روایات کو جاننا بے حد ضروری ہے۔ عبید طاہر قاضی کا ترجمہ بے شک قاری کو عرب معاشرے کے ماحول، رنگ اور آہنگ سے انتہائی کامیابی سے متعارف کراوتا ہے اور اس لذت سے ہمکنار کرتا ہے جو یقیناً عربی زبان میں اس ناول کو پڑھنے سے ملتی ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).