ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم!


26 دسمبر کو مغرب کی اذان کے ساتھ اقبال خالو کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی اور وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

بے شک ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا اور اس جہان رنگ و بو سے آخری منزل کی طرف مراجعت کرنا ہے۔ موت کا وقت سب کا متعین ہے اور دکھ، بیماری، تکلیف اور آزمائش ہر نفس کے مقدر کے مطابق اس کو پہنچ کے رہنی ہے۔ موت سے قبل کی تکلیف اور بیماری اس لحاظ سے رحمت بھی کہی جاتی ہے کہ انسان اپنے خالق حقیقی سے ملنے سے پہلے زندگی کے سفر میں سرزد ہو چکی لغزشوں سے تائب ہو کر پاک صاف ہو جاتا ہے۔

اقبال خالو نے ایک بھرپور زندگی گزاری۔ اپنی عملی زندگی کا آغاز انہوں نے پشاور میں ٹیچنگ سے کیا جہاں ان کے والد ملازمت کے سلسلے میں مقیم تھے۔ پھر امریکن یونیورسٹی بیروت سے انگریزی زبان میں ماسٹرز کیا اور ائر فورس کی ایجوکیشن کور میں شمولیت اختیار کر لی۔ میری چھوٹی خالہ سے شادی کے چند سال بعد انہوں نے ائر فورس سے بطور سکوارڈن لیڈر ریٹائرمنٹ لے لی۔ کچھ عرصہ دبئی میں پاکستان انٹرنیشنل سکول کے پرنسپل کی حیثیت سے خدمات سرانجام دینے کے بعد پاکستان واپس آ کر پی اے ایف کے مختلف کالجز میں تدریسی اور انتظامی عہدوں پر فائز رہے۔

پی ایف سے ان کا تعلق ساری عمر کسی نہ کسی حیثیت میں قائم رہا اور وہ اپنی ذکاوت، لیاقت، علم اور تدریسی اور انتظامی امور میں مہارت کی وجہ سے مختلف اہم ذمہ داریوں کے لئے منتخب ہوتے رہے۔ عمر کی چھٹی دہائی کے اختتام سے لے کر اپنی وفات سے کچھ عرصہ پہلے تک انہوں نے راولپنڈی، اٹک اور ہری پور کے صف اول کے تعلیمی اداروں میں بھی بحیثیت پرنسپل خدمات سر انجام دیں اور اپنے علم اور تجربے کی داد سمیٹی۔

یوں تو ان سے میرا تعلق خالہ کی شادی والے دن سے ہی پیدا ہو گیا تھا لیکن پشاور یونیورسٹی میں میری پڑھائی کے دوران ان کی پشاور میں موجودگی نے اس تعلق میں مزید گہرائی پیدا کر دی۔ خوش قسمتی سے سالوں بعد جب میں نے قائداعظم یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی صورت میں تعلیمی سلسلہ دوبارہ شروع کیا تو وہ بھی راولپنڈی میں رہائش پذیر تھے۔ ہر ویک اینڈ پر خالو سے ملاقات اور خالہ کے ہاتھوں کے مزیدار کھانے کا بے چینی سے انتظار رہتا اور میں ہر دو کا بھرپور لطف اٹھاتا۔

خالو ایک علمی انسان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے سپورٹس مین بھی تھے۔ کرکٹ کھیلنا اور میچ دیکھنا ہماری مشترکہ دلچسپی تھی۔ پشاور میں باڑا روڈ پر ملے اپنے وسیع و عریض سرکاری بنگلے کے لان میں وہ بیٹے اور اس کے دوستوں کے ساتھ روزانہ شام کو کرکٹ کھیلتے تھے جس میں کبھی کبھی میں بھی شامل ہو جاتا تھا۔ ان کی سٹڈی میرا دوسرا پڑاؤ ہوتا جہاں موجود تمام کتابیں میں نے چاٹ ڈالی تھیں۔ آج سوچتا ہوں تو ان کے ساتھ گزرے پل اپنی زندگی کے بہت خوبصورت لمحات لگتے ہیں جن میں ہر لمحہ میں نے ان سے کچھ نہ کچھ حاصل کیا۔

میں انہیں کسی بحث میں بولتے بہت غور سے سنتا تھا اور بعد میں اپنی عملی زندگی میں شعوری طور پر کوشش کرتا تھا کہ ان کی طرح شائستگی لیکن مضبوطی سے اپنی بات پیش کروں۔ وہ خاندان بھر میں بے حد مقبول تھے اور معاشرت، سیاست سمیت زندگی کے مختلف پہلوؤں پر اپنا مخصوص نقطہ نظر رکھنے کے باوجود ہر ایک کی ذہنی اپچ کے مطابق اس سے گفتگو کرتے تھے۔

زندگی کے آخری دو سال انہوں نے کینسر سے لڑتے ہوئے گزارے اور اس لڑائی میں بھی اپنی طبعیت کے ٹھہراؤ، شائستگی اور وقار میں فرق نہ آنے دیا۔ انتہائی شدید تکلیف کے عالم میں بھی کسی نے ان کے منہ سے حرف شکایت نہیں سنا۔ اس وقت جب میں گھر سے بہت دور پردیس میں بیٹھا یہ سطور لکھ رہا ہوں، اقبال خالو کو ان کے چاہنے والے اپنے آخری سفر پر روانہ کر رہے ہیں۔ میری نظروں میں ان کا متبسم چہرہ ٹھہرا ہے اور کانوں میں ان کی پسندیدہ غزل کے خوبصورت اشعار گونج رہے ہیں۔

ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

کتنی سچی بات ہے۔ ہمارے پیارے خالو جان اور ایک انتہائی نایاب انسان ہم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے ہیں اور ہم ان کو کبھی ڈھونڈ نہیں پائیں گے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے، ان کی لغزشوں سے درگزر فرمائے اور ان کو جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے۔ آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).